پروفیسرعتیق احمدفاروقی : ججو ں کی تقرری میں شفافیت کا مسئلہ اور کالیجیم

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
مرکزی وزیر قانون کرن رجیجونے عدالتی تقرریوں کی کالیجیم والے موجودہ نظام کو غیرمناسب بتایاہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام سے لوگ ناراض ہیں اوریہ ججوں کی باہمی سیاست سے متاثر ہوگیا ہے۔ سینئر جج اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے زیادہ اگلی تقرریوں کی فکر میں رہتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ججوں کا آدھاوقت اوردماغ اگلا جج طے کرنے میں خرچ ہوتاہے اورتقرری کا نظام آئین کی روح کے خلاف ہے ۔ ججوں کا کام انصاف کرناہے ۔دنیا میں کہیں ایسا نظام نہیں ہے کہ جج ہی ججوں کی تقرری کرے ۔
بلاشبہ اس طرح کی تنقید مختلف ذرائع سے سننے کو مل رہی ہے اور طویل مدت سے اس پر بحث ہورہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے کئی جج بھی تبدیلی کیلئے آواز اٹھاچکے ہیں۔ کچھ سالو ں قبل جسٹس کرڑن معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے بھی اس تقرری کے طریقۂ عمل پر سوال اٹھائے تھے ۔ تب وزیرقانون نے تویہاں تک کہہ دیاتھا کہ جب تک ججوں کی تقرری انتظامیہ کررہی تھی تب تک کرڑن جیسے جج نہیں ہوئے۔ ان کا اشارہ واضح تھا کہ جب سے ججوں کی تقرریاں خود عدلیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہیں تب سے تقرریوں کے معیار میں گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ اس بات میں کافی حدتک سچائی ہے ۔ اس نظام میں ایسے ایسے جج عدالت عظمیٰ میں آگئے جو ہائیکورٹ میں ہی روزانہ گھنٹوں تاخیر سے آتے تھے۔ کئی ججوںنے اپنی پوری مدتِ کار میں عدالت میں ایک لفظ تک نہیں کہا اورنہ ہی کوئی فیصلہ لکھا۔ ایک جج نے فیصلے لکھنے میں تاخیر کے سوال پر جھنجھلاکر جواب دیاتھا کہ انہیں فیصلہ لکھنے کی تنخواہ نہیں ملتی۔ ایسی مثالیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ججوں کی تقرری کااختیار عدلیہ کے پاس آنے کے بہتر نتائج نہیں ملے۔
ججو ں کی تقرریوں میں باہمی سیاست ، اقربا پروری اورغیرمناسب سلوک کی چرچا عدالت عظمیٰ کے گلیاروں میںبھی عام ہے۔ اگرکسی سینئر جج کی مدتِ کار کچھ ماہ کیلئے ہو تو اسے کالیجیم کی میٹنگ میں بھی دیگر سینئر ججوں کا تعاون نہیں ملتا۔ اقربہ پروری تو ’انکل جج ‘کا محاوہ ہی بن گیاہے۔غیرمناسب سلوک کی دیگر مثالیں بھی دیکھی جاتی رہی ہیں۔ حال میں ایک جج نے ایک پروگرام میں اس شخص کے ساتھ بیٹھ کر اسی سے اعزاز حاصل کیاجس کا معاملہ عدالتِ عظمیٰ کی بنچ میںزیر سماعت تھا۔ کالیجیم نظام میں ایک گڑبڑی یہ بھی ہے کہ اگلے ججوں کی سفارش کرنے والی میٹنگ کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھاجاتا۔ یعنی میٹنگ میں کن مجوزہ ناموں پر کس جج نے کیاکہا، کسی کی سفارش کرنے یا نہ کرنے کے حق میں یا مخالفت میں کیا باتیں کہی گئیں ، وغیرہ کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھاجاتا۔ یہ بات انوکھی ہے کیونکہ نچلی سطح کی سرکاری میٹنگ تک کی تفصیلات درج کرنا ایک ضابطہ ہے۔ اس سے فیصلے کی صداقت اورشفافیت ریکارڈ میں رہتی ہے۔ایسے میں ججوں کی تقرری کی شفارش کرنے کی کارروائی کی کوئی تفصیل نہ رکھنا حیرت انگیز ہے۔ اس سے فیصلوں کاجواز اورصداقت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ یہ چیزیں انجانے میں نہیں ہورہی ہیں۔ کچھ سال قبل عدالتِ عظمیٰ کے ایک سینئر جج نے یہ مطالبہ کیاتھا اورمطالبہ پورا نہیں ہونے پر کالیجیم میٹنگ میں شامل ہونے سے منع کردیاتھا۔ اس کے بعد بھی وہی طریقہ عمل چلتارہا۔ بحرحال یہ چیز ہرلحاظ سے غیرمناسب ہے۔ سبھی سے شفافیت کامطالبہ کرنا اورجبکہ خود سے کی جانے والی تقرری کی تفصیلات کو درج نہ کرنا حیرت انگیز ہے۔
رجیجوکی یہ بات بھی غیرمتنازعہ ہے کہ آئین نے ججوں کی تقرری کا اختیار انتظامیہ کو دیاتھا۔ 1950سے 1993 تک یہی نظام رائج رہا۔پھر عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس سے صلاح لینے کا مطلب اس کی منظوری جیسا کرکے اپنی سفارش والی کالیجیم نظام بنادیا جبکہ کوئی صلاح ماننا یانہ ماننا اختیاری ہوتاہے۔ کالیجیم نظام کا تین دہائیوں کا تجربہ دکھاتاہے کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہیں۔ اس پر ججوں نے بھی اپنے اعتراضات درج کئے ہیں۔ اس لئے کالیجیم طریقہ کار پر نظرثانی ضروری ہوگئی ہے۔ عدلیہ میں داخلی تجزیہ کو لیکر بھی جسٹس سوی ساچی مکھرجی اورجسٹس روماپال وغیرہ نے بھی جو سوالات اُٹھائے ہیں ان کا اِزالہ ضروری ہے۔
موجودہ نظام کے دفاع میں ’عدالتی خود مختاری‘کی دلیل دی جاتی ہے لیکن اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ آئین نے ریاستی نظام کی تین ستون کو خود مختاری دی ہے۔ لہٰذا اس دلیل سے پارلیمان اورریاستی اسمبلیوں اورمرکزی وریاستی کابینہ کو بھی اپنے اگلے جانشین کو خود طے کرلینے کی آزادی ہونی چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر ججوں کے کالیجیم کے طرز پر سینئر ایم پی یاوزراء کی کالیجیم ہی سفارش کرے کہ اگلے ایم-پی یاوزرا ء کون کون ہوں گے۔ آخرعدالتی خودمختاری کی طرح قانون ساز اسمبلی اور انتظامیہ کو بھی خود مختاری اسی آئین نے دی ہے۔ اس لئے مثالی ریاستی نظام میں تینوں شاخوں کے بیچ ’اختیار کی علاحدگی‘کے اصول کو اپنایاگیاہے۔ امریکہ میں بھی عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تقرری انتظامیہ کرتی ہے۔ پھراس انتخاب کی منظوری یا نامنظوری قانون ساز اسمبلی دیتی ہے۔ یعنی امریکہ میں بھی جج خود اگلے ججوں کی سفارش نہیں کرتے ہیں۔ یہی حکومت کے تین ستونوں کی خود مختاری کے ساتھ ساتھ انکی نگرانی اورتوازن والا نظام ہے۔
ہندوستانی کالیجیم نظام ایک منحرف نظام ہے ۔ ججوں کا اپنا جانشین طے کرنا اورسبکدوشی کے بعد بھی سرکاری کمیشن اور ٹریبنل وغیرہ میں تقرری اوریہاں تک کہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن اورایم -پی بننے کا اختیار محفوظ رکھنا جیسے پہلو ان کی بنیادی عدالتی ذمہ داریوں پر منفی اثرڈالتے ہیں۔ یہ امکان کسی سبکدوش ہونے والے ججوں پر ناپسندیدہ اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اس لئے سابق وزیرقانون ارون جیٹلی نے بھی سبکدوش ججوں کی تقرری اور سبکدوشی کے بعد ان کی تقرریوں کے طریقہ کار میں تبدیلی پر زوردیاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS