پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ: راہل گاندھی کی پدیاترا

0

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
راہل گاندھی نے کیرالہ سے اپنی پد یاترا کا آغاز کیا۔ وہ کیرالہ کے وائیناڈ سے لوک سبھا کے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ اسمرتی زوبن ایرانی نے امیٹھی سے انتخاب میں راہل گاندھی کو شکست دی۔ پھر وزیر اعظم نریندر مودی کا ’کانگریس مکت بھارت‘ مشن تقریباً ہو چکا تھا۔ کانگریس کے زیادہ تر رہنما بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ ملکاارجن کھڑگے کے کانگریس صدر بننے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کانگریس پر گاندھی خاندان کا اثر ورسوخ برقرار رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی کے لیے پارٹی میں نئی جان ڈالنے کے لیے یاترا نکالنے کا ایک اہم فیصلہ کیا تھا۔ راہل گاندھی کی سوشل میڈیا پر خوب شہرت مل گئی ہے۔ اگر اس پیدل یاترا کا نام ’بھارت جوڑو‘ کے بجائے ’جاگو بھارت‘ ہوتا تو یہ زیادہ اہمیت کی حامل ہوجاتی۔ جہاں تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ٹکرائو کا تعلق ہے، صرف کانگریس ہی نہیں، تمام سیاسی جماعتوں نے اختلافات کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اب لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہورہی ہے۔ 1947 کی تقسیم کے بعد مسئلہ ہندو مسلم کا ایشو نہیں تھا۔
اصل مسئلہ ہندوستان کی تعمیر اور ترقی تھا۔ پھر سماج، مذہب، ذات پات، زبان کی بنیاد پر کیوں تقسیم ہے؟ پچھلے کچھ مہینوں سے، راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘کا چرچا ہے۔ میں وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ اپنے پرانے تعلق کی وجہ سے راہل پر براہ راست تبصرہ کرنا پسند نہیں کرتی ہووہ اپنے مرحوم والد سے بہت پیار کرتے ہیں۔ کیونکہ اب ’بھارت جوڑویاترا‘ اپنے آخری مرحلے میں ہے، اس لیے اس کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ کانگریس میں ہی کئی پدا یاترا ہوئیں ہیں، پھر میڈیا راہل کی یاترا کو یک طرفہ کیوں دکھا رہا ہے؟ میں کانگریس کے میڈیا چیف جے رام رمیش سے واقف ہوں ، میڈیا میں وہ بہت اثر رسوخ رکھتے ہیں۔
کانگریس نے گرافکس، سوشل میڈیا، اشتہارات، اخبارات میں اشتہارات وغیرہ کے ذریعے پروپیگنڈہ کا ہر طریقہ استعمال کیا ہے۔ مجھے یاترا کا نام تھوڑا سا عجیب لگا۔ کیا ہندوستان ’حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے‘ جسے دوبارہ ایک ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے؟ مذہبی اور سماجی پولرائزیشن ہر حکومت میں ہوتا رہا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں پد یاترا کی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے۔ مارچ 1930 میں مہاتما گاندھی کا تاریخی ڈانڈی مارچ، 240 کلومیٹر طویل تھا جو، عوامی حمایت اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے مارچ کو ایک طاقتور حربہ کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب ہوا۔ مہاتما گاندھی اور ان کے 78 پیروکار 12 مارچ 1930 کو ساحلی علاقے ڈانڈی کے لیے یاترا میں روزانہ ہوئے، جبکہ ’نمک ستیہ گرہ‘ کے حصے کے طور پر نمک پر ٹیکس کے نفاذ کے خلاف احتجاج کیا۔ اگلے دن، اس نے سمندر کے کنارے نمک بنایا اور احتجاجاً قانون شکتی کی اور اپنے ہزاروں مداحوں کو ایسا کرنے کی ترغیب دی۔
اس ڈانڈی مارچ کے جوابی کارروائی میں برطانوی سامراجی حکومت نے 60,000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ اگرچہ ڈانڈی مارچ کو انگریزوں سے کوئی بڑی رعایت نہیں ملی، لیکن اس نے تیزی سے بڑے پیمانے پر ستیہ گرہ اور آخرکار ’سول نافرمانی تحریک‘ کو جنم دیا۔
وزیر اعظم چندر شیکھر جی نے جنوری 1983 کو عوام کے ساتھ اپنے عوامی رابطے کرنے اور ’ملک کو بہتر طور پر جاننے‘ کے لیے اپنی پد یاترا کا آغاز کیا۔ ’ینگ ترک‘ Young Turk کا لیبل لگا کر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دورے نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو چونکا دیا تھا۔ جیسے ہی راہل گاندھی نے گریٹر نوئیڈا میں بھٹہ پارسل سے علی گڑھ تک 105 کلومیٹر کا مارچ شروع کیا، انہوں نے زمین کے حصول پر کسانوں پر مایاوتی حکومت کے ’مظالم‘ کے خلاف احتجاج کے لیے مارچ شروع کیا ہے۔ سیاسی پنڈت ان کے اس خیال سے متحد ہیں کہ راہل نے 2012 کے اسمبلی انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر فعال ریاستی کانگریس کو زندہ کرنے کے لیے یاترا شروع کی تھی۔ اتر پردیش میں لوک سبھا کی سب سے زیادہ سیٹیں ہیں۔ اور اس لیے اگر کانگریس 2024 کے عام انتخابات جیتنا چاہتی ہے تو اترپردیش کی بہت اہمیت ہے۔ ممتا بنرجی نے 2011 میں مغربی بنگال انتخابات کے لیے پدیاترا کی۔ ترنمول صدر نے بعد میں اسی طرح کی پد یاترا میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ بدھ دیب بھٹاچاریہ کے حلقہ جاداو پور کا بھی دورہ کیا۔ اپنے ووٹروں سے جڑے رہنے کی وجہ سے، ممتا بنرجی کی ترنمول نے سی پی ایم کو انتخابات میں شکست دی اور اس نے بدھ دیب کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سے بے دخل کردیا۔ ایس راج شیکھرا ریڈی نے 2004 کے اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے اپنے ووٹروں کو جوش دلانے اور ریاستی کانگریس کی تنظیم میں روح پھونکنے کے لیے ایک پد یاترا نکالی۔ لوگوں کے ساتھ مراسم اور روابط بنا کر واضح طور پر وائی ایس آر کے لیے اچھا کام تھا۔ چند ماہ بعد جنوری 2004 میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ انہوں نے کانگریس کو زبردست جیت دلائی اور مئی 2009 میں وہ چیف منسٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1990 کی دہائی میں رام رتھ یاترا پدیاترا سے آگے نکل گئی۔ بی جے پی کے ایل کے اڈوانی گاندھیائی نہیں تھے – ٹویوٹا کے رتھ نے ہندوستان کی سیاست کو ہی بدل دیا۔ یہ 1990 میں تھا جب لال کرشن اڈوانی نے رام جنم بھومی تحریک کے لیے رتھ یاترا کا آغاز کیا۔ اس دورے نے سیاسی واقعات کے ایک سلسلے کو متحرک کیا جس کے نتیجے میں دو سال بعد بابری مسجد کا انہدام ہوا۔ اس نے گجرات کے سومناتھ سے یاترا شروع کی، لیکن ایودھیا پہنچنے سے قبل اڈوانی کو بہار میں گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم، رتھ یاترا ہندوستان کو پولرائز کرنے میں کامیاب رہی۔ پنجاب میں 1987 کے فسادات سے دلبرداشتہ سنیل دت نے اپنے ممبئی کے گھر سے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل تک ’پیدل چلے گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی پریا دت اور 80 سے زائد ان کے مداح بھی موجود تھے۔ سنیل دت کے ارادے نیک تھے اور انہیں بعد کے عام انتخابات میں اس کا صلہ ملا۔
مرحوم ٹی این راما راؤ نے تیلگو دیشم پارٹی کا آغاز کرنے کے فوراً بعد 1982 میں چیتنیا رتھم یاترا کا آغاز کیا۔ اس یاترا سے اپنے ہی وہ اقتدار میں آئے۔ اور وہ 9 جنوری 1983 کو آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ فلم اداکار سے سیاست لیڈر بنے رامارائو نے تقریباً 40,000 کلومیٹر کا سفر کیا، نو مہینوں میں چار بار ریاست کا دورہ کیا اور جنوری 1983 تک وطن واپس نہیں آئے۔ 1991-92میں اس وقت کے بی جے پی صدر مرلی منوہر جوشی نے کنیا کماری سے سری نگر تک ’قومی یکجہتی یاترا نکالی۔ انہوں نے 26 جنوری 1992 کو پہلی بار لال چوک پر ترنگا لہرایا۔ پرچم کشائی کی تقریب ٹھیک 13 منٹ تک جاری رہی۔ پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس حکومت نے اس حساس تقریب کے لیے سیکورٹی فراہم کی تھی۔ پرچم کشائی پر سیکورٹی ایجنسیوں نے خبردار کیا اور جموں و کشمیر کے گورنر گریش چندر سکسینہ نے مرکز سے کہا کہ وہ دستہ نہ بھیجے۔
کانگریس اس کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی، کرشن لال شرما اور مرلی منوہر جوشی نے فوج کی موجودگی میں ترنگا لہرایا۔ اس دوران دہشت گردوں کی گولیاں بھی چل رہی تھیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک؛ کی ایس سدرشن نے جلد ہی مرلی منوہر جوشی کو بی جے پی صدر کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اس کے علاوہ بی جے پی یوتھ ونگ کے سربراہ اور وزیر اطلاعات و نشریات وزیر انوراگ ٹھاکر نے 12 جنوری 2011 کو کولکتہ سے لال چوک، سری نگر تک 26 جنوری کو ترنگا لہرانے کے لیے ایکتا یاترا’ دوم‘ کو ہری جھنڈی دکھائی۔ دو ہفتے طویل یاترا نے نو ریاستوں میں 3,037 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ لیکن ٹھاکر اور اس کے ساتھیوں کو لکھن پور میں جموں و کشمیر میں داخل ہونے کے فوراً بعد روک دیا گیا اور ریاستی حکومت کے نافذ کردہ ’احکامات امتناعی‘ کی خلاف ورزی کرنے پر دفعہ 144 کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ ویسے ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ آخر میں لب ولباب یہ ہے کہ ہر سیاسی یاترا کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ سیاسی حریف راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو ’کانگریس جوڑو یاترا‘ کا نام دے رہے ہیں! بہتر ہو گا کہ راہل گاندھی خود اپنا جائزہ لیں اور کانگریس کے دشمنوں سے دور رہیں۔ راہل گاندھی کے اس یاترا سے انہیں کافی سیاسی شہرت ملی ہے، لیکن کیا ’ہندوستان چھوڑو یاترا‘ کانگریس کو زندہ کرنے میں مدد دے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ سیاسی نظریات میں رنگا رنگی ایک مضبوط جمہوریت کی اساس ہے۔ عوامی مسائل اور حکومت کے سامنے سوالنامہ صرف عوامی مفادات کو فروغ دے گا۔ سماجی جدوجہد کے اس دور میں، ہندوستان کی ہر پد یاترا کا بنیادی مقصد فرقہ وارانہ اتحاد ہونا چاہئے! ہم سب فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم رنگا رنگی میں اتحاد ہندوستانی شہری ایک ہیں!
(مضمو ن نگار سینئر صحافی اور سالیٹسر برائے انسانی حقوق ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS