پروفیسرعتیق احمدفاروقی : گجرات و ہماچل کے انتخابات کے امکانات

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
ہماچل پردیش میں اسمبلی کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالے جاچکے ہیں اوراب نتیجوں کا بے چینی سے انتظار ہورہاہے ۔ گجرات میں یکم دسمبر کو ووٹنگ ہوئی تھی ۔ اگلے مرحلے کی ووٹنگ آج پانچ دسمبر کو ہونی ہے۔ انتخابات بھلے ہی الگ الگ ہوئے ہیں لیکن دونوں ریاستوں کے نتیجے ۸دسمبر کو ہی آنے ہیں جس میں اب زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔ ان ریاستوں کے عوام کی نفسیات بھی الگ ہے۔ جہاں 1971ء میں ہماچل پردیش کی تشکیل کے بعد وہاں برسراقتدار پارٹی کو کبھی دوبارہ اقتدار نہیں ملا وہیںگجرات کے عوام گزشتہ 27سالوں سے بی جے پی کو لگاتار منتخب کرتے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے تاریخ اورروایت کے مطابق زیادہ ترلوگوں کو اس بار ہماچل میں کانگریس اورگجرات میں بی جے پی کی حکومت بننے کاامکان ہے۔ حالانکہ موجودہ انتخاب اورپچھلے انتخابات میں ایک واضح فرق ہے۔ دونوں ریاستوں میں کانگریس اوربی جے پی کے درمیان ہی مقابلے دیکھنے کوملے ہیں ۔تیسری پارٹی کا کوئی خاص وجود نہیں تھا۔ پہلی بار دونوں ریاستوں میں عام آدمی پارٹی مضبوطی سے انتخاب لڑرہی ہے۔ اس پارٹی کو کوئی دوسری پارٹی ہلکے میں نہیں لے سکتی۔ دہلی اورپنجاب میں اس کی کامیابی اس کی مضبوطی کی دلیل ہے۔ حالانکہ بی جے پی کا کہناہے کہ ان دونوں ریاستوں میں عام آدمی پارٹی نے ’ریوڑی سیاست ‘کے سہارے انتخابات میں فتح حاصل کی ہے لیکن یہیں پر یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ ریوڑی سیاست کی باقاعدہ شروعات کس پارٹی نے کی؟ کیابی جے پی اس الزام سے پلّہ جھاڑسکتی ہے؟کووڈ کے عذر پر عوام میں کس کس طرح کی اورکتنی مدت تک ریوڑی بٹی ہے اوراب بھی بٹ رہی ہے، یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے۔ اب ہماچل اورگجرات میں اگرعام آدمی پارٹی اورکانگریس ریوڑیاں باٹنے کا وعدہ کررہی ہیں ، جس میں پرانی پینشن نظام کی واپسی جائز قدم ہوگا، تو کیا بری بات ہے۔ یہاں پر بنیادی سوال یہ ہے کہ آپ چناؤ میں کیسا مظاہرہ کرے گی؟اوراس سے کس پارٹی کو زیادہ نقصان پہنچے گا؟۔
ہماچل پردیش میں عموماً کانگریس اوربی جے پی کے درمیان جیت ہار میں تقریباً پانچ فیصد ووٹوں کا فرق دیکھنے کو ملتاہے۔انہیں ’فلوٹنگ ووٹس ‘کہتے ہیں ۔ یہ فلوٹنگ ووٹس ایک بار بی جے پی تودوسری بار کانگریس کے پالے میں جاکر باری باری سے انہیں برسراقتدار بناتے رہے ہیں۔ 2017ء میں بی جے پی کو یہاں 48ء 7فیصد اورکانگریس کو 41ء6فیصد ووٹ ملے۔ یعنی بی جے پی نے کانگریس کو 7ء1فیصد کے ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ یہاں جو امور قابل غورہیں ان میں اوّل، اگر فلوٹنگ ووٹس کی وجہ سے بی جے پی کے ووٹ فیصد میں اس بار 5فیصد تخفیف بھی ہوتی ہے تواسے 43ء7فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ دوئم، آپ کو بھی کچھ ووٹ ضرور ملیں گے۔کانگریس اوربی جے پی میں داخلی جماعتی بے اطمینانی کے چلتے وہ کہیں کانگریس توکہیں بی جے پی کا ووٹ کاٹے گی۔دوسری طرف ہماچل پردیش میں پرانی پینشن ، سیب باغبانی کے مسئلے، اگنی ویروں کی تقرری اورمہنگائی خصوصی مدعے رہے ہیں۔ اس کااثر ، بھلے ہی بی جے پی کے لوگ نہ مانیں انتخابات کے نتیجے پر پڑے گا۔ اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتا کہ بی جے پی کی طاقت اس کی تنظیمی مضبوطی ،وزیراعظم مودی کا چہرہ،میڈیا کے بڑے حلقے کی حمایت اوران کے دورمیں ہماچل پردیش کی ترقیات ہیں۔ اس ریاست میں بی جے پی کی مقبولیت کافی حدتک محفوظ ہے۔ یہ چیزیں وہاں بی جے پی کوفائدہ پہنچاسکتی ہیں۔ اس ریاست میں ویربھدر سنگھ کے بعدکانگریس جیسے قائد سے محروم ہوگئی ہو۔ راہل گاندھی کی’ بھارت جوڑو یاترا‘اس صوبہ میں کتنا اثردکھاتی ہے یہ دوتین دن بعد پتہ چلے گا۔ یہاں پر کئی بڑے لیڈران کانگریس چھوڑ کر چلے گئے اور گروہ بندی اپنے شباب پر ہے۔
گجرات میں بی جے پی کے اقتدار میں واپسی کولیکر پارٹی میں تواتفاق رائے ہے لیکن پارٹی کے سامنے چیلنجز بھی بہت ہیں۔ گزشتہ 27سالوں سے برسراقتدار رہنے کے سبب عوام میں بی جے پی کی فتح کو لے کر پورا یقین ہے اورپارٹی کارکنان میں بے عملی بڑھی ہے۔ ٹکٹ کو لے کر مارا ماری بہت تھی۔ کانگریس سے بی جے پی میںآنے والوں کو ٹکٹ دینے کی مجبوری سے پارٹی اورعوام میں ناراضگی بھی ہے۔ بے اطمینانی کے اشارے ستمبر 2021 میں ہی مل گئے تھے جب وجے روپاڑی کو ہٹاکر بھوپندر پٹیل کو وزیراعلیٰ بنایاگیا۔ چونکہ وزیراعظم مودی اوروزیرداخلہ امت شاہ دونوںہی کاتعلق گجرات سے ہے اوروزیراعظم بارہ سالوں تک گجرات کے وزیراعلیٰ رہے اس لئے گجرات کا انتخاب پارٹی اورقیادت دونوں کیلئے وقار کاسوال ہے۔ ہاردک پٹیل اورالپیش ٹھاکر سمیت کچھ نوجوان لیڈران کے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں آنے سے بی جے پی کو عوام کی مزید حمایت ملی ہے۔ پچھلے چار انتخابات سے یہاں بی جے پی کی سیٹوں میں کمی کاسلسلہ بھلے ہی قائم رہاہوں، لیکن پارٹی کی عوامی حمایت میں کمی نہیں آئی ۔ وہ 49فیصد پر ٹکی ہوئی ہے۔ کسی پارٹی کیلئے سیٹیں کم ہونا تشویش کی بات ہوسکتی ہے لیکن اس کی عوامی حمایت میں کمی زیادہ تشویش ناک ہوتی ہے۔ وزیراعظم مودی کا قومیت کا تصور ، ہندتوا ، ہمہ جہت ترقی اوربدعنوانی پر حملہ کے ساتھ ملک کے وقار کو بڑھانے کا میڈیاکے پروپیگنڈہ کے سبب آج بھی عوام کا ان پر گہرا یقین ہے۔
کانگریس نے ہماچل سے سبق لے کر گجرات میں 42؍اسٹار لیڈران کو انتخاب کی تشہیر کیلئے میدان میں اتارا ہے۔ 27سالوں سے اقتدار سے باہر کانگریس واپسی کو بے چین ہے مگر ہاردک اورالپیش جیسے لیڈان کے کانگریس چھوڑدینے کے سبب پارٹی کو گہرا دھچکالگاہے۔ وسط گجرات میں ایک تہائی یعنی 61نشستیں ہیں جن میں دس نشستیں ایس سی -ایس ٹی کیلئے محفوظ ہیں۔ ایس ٹی طبقات عموماً کانگریس کے حمایتی رہے ہیں لیکن ان کی بہبودی کے قدم اٹھاکر اوراس طبقے کے لیڈران کو اپناکر بی جے پی انہیں لبھانے کی کوشش کررہی ہے۔ علاوہ ازیں کیجریوال کانگریس کی سیاسی زمین میں کچھ سیند ھ لگاسکتے ہیں جو بی جے پی کیلئے فائدے مند ہوسکتاہے۔
بی جے پی کے ساتھ آج اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ عوام کا عشق بی جے پی کے مقابلے مودی سے زیادہ ہے۔ ووٹر امیدوار کے بجائے مودی کو ووٹ دے رہے ہیں۔اس سے بی جے پی کے امیدوار انتخابی کامیابی کیلئے مودی پر زیادہ منحصر ہوگئے ہیں۔ وہ عوامی مسئلوں کے حل اورحلقۂ رائے دہندگان کے مسئلوں کے حل کے تئیں اتنے حساس نہیں رہے جتنی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ہمیں شخصیت پرستی کے رجحان سے نہ صرف دوررہنا چاہیے بلکہ اس کو ختم کرنے کیلئے عوام کو بیدار بھی کیاجاناچاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS