کیا ترکی اورامریکہ کے درمیان محاذ تیار ہورہا ہے

0

مغربی ایشیا اورسینٹرل ایشیا ونواح کے خطے میں اب ایک اور فوجی ٹکرائو کے امکانات پیدا ہورہے ہیں اور دوناٹوں ممالک اور امریکہ اور ترکی کے درمیان مغربی ایشیا کے خانہ جنگی سے متاثر شام میں فوجی ٹکرائو کے آثار نظرآنے لگے ہیں۔ 20نومبر کو ترکی کی راجدھانی استنبول میں دہشت گردانہ بم دھماکوں میں 6لوگوں کی موت کے بعد ترکی نے کرد باغیوں کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے اور شام سے متصل اپنی سرحد اور شام کے کُرد غلبے والے علاقے میں بمباری شروع کردی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ کرد باغی جو کہ اس کے ملک میں خودمختار علاقے کے قیام کے لیے طویل مدت سے مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ اس واردات کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ترکی کے حکام نے دہشت گردانہ واقعہ کے چند دنوں کے بعد بڑی کارروائی کے بعد ایک کرد دہشت گرد کو بھی زندہ پکڑ لیا تھا۔ جس کی ویڈیو اور مناظر پوری دنیا کے سوشل میڈیا اور میڈیا پر وائرل ہوئے تھے۔ بہر کیف آج صورتحال یہ ہے کہ ترکی کی حکومت اپنی سرزمین پر دہشت گردانہ واقعات کے لیے کرد باغیوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ پچھلی دفعہ ترکی میں بڑے پیمانے پر جس فوجی بغاوت کو ناکام بنایاگیا تھا اس بغاوت کے پس پشت کرد اور امریکہ میں مقیم عبداللہ گولن کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ امریکہ ترکی میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ان تخریبی عناصر کو شہہ دے رہا ہے۔ بہر کیف اپنے پڑوسی ملک شام میں جہاں پہ ترکی کی فوجی موجودگی ہے اور وہ وہاں کی خانہ جنگی میں ایک فریق ہے ، اس نے پچھلے دنوں فوجی کارروائی شدید کردی ہے۔ یہ تمام صورت حال ایسے وقت میں پیدا ہورہی ہے جب پڑوس میں یوکرین میں انتہائی شدید جنگ ہورہی ہے اور وہاں پر عالمی طاقتوںکی توجہ ہے۔ ناٹو ممالک روس کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے یوکرین کی ہر اعتبار سے مدد کررہے ہیں۔ ایسے میں ناٹو ممبر اور اہم فوجی طاقت ترکی سے الگ راہ اختیار کرنا امریکہ کے لیے مشکل اور گھاٹے کا سودا ہوسکتا ہے۔ امریکہ احتیاط سے کام لے رہا ہے۔ ترکی کی شام میں کارروائی پر اس کا کوئی بڑا بیان سامنے نہیںآیا ہے۔ کئی حلیف امریکہ کی اس حکمت عملی کی نکتہ چینی کررہے ہیں۔ لیکن اب روز مرہ کی فوجی کارروائی پر اچانک ناٹو اورامریکہ کے کئی حلیفوں نے سخت بیانات دیے ہیں۔ جرمنی نے اس صورت حال کو ناپسند قرار دیا ہے۔ مگر ترکی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ دیکھتے ہوئے اب امریکہ نے باقاعدہ واررنگ دی ہے کہ شام کے اندر کشیدگی کو کم کیا جائے۔ امریکی وزارت دفاع لائڈ آسٹن نے اپنے ترکی ہم منصب سے بات کی ہے جس میں اس نے ترکی کے ذریعہ شمالی شام میں فوجی کا رروائیوں پر سخت موقف اختیار کیاہے۔ اس دوران امریکہ کے ایک اہم عہدیدار اورامریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کی ترجمان جان کربی نے پہلی مرتبہ نام لے کر شام میں ڈیموکریٹک فورسیز پر ترکی کی کارروائی کی نکتہ چینی کی ہے ۔ خیال رہے کہ ڈیموکریٹک فورسیز کرد ملیشیا کو امریکہ فوجی مدد پہنچا رہا ہے اور امریکہ کا موقف ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے خاتمے کے لیے کردش ملیشیا Syrian Democratic Forces اورامریکی فوج کارروائیاں کررہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے لیے یہ ایک پیچیدہ معاملہ بن گیا ہے کیونکہ ترکی ناٹو کا ملک ہے اور شام میں دونوں فریقوںکا اختلاف رائے ٹکرائو کی شکل اختیار کرلے یہ مناسب نہیں ہے۔ بہر کیف کئی ماہرین امریکہ جوبائیڈن پر نکتہ چینی کررہے ہیں ان کی رائے ہے کہ یوکرین جنگ کے دوران ایسی صورت حال نہ پیدا ہونے دی جائے جو روس کے لیے موقع ثابت ہو جائے۔ ناٹو اور یوروپین ممالک کے کئی ممالک درپردہ اور کھلے عام دونوں طریقوں سے روس کو مدد دے رہے ہیں۔ یہ صورت حال شام کی موجودہ صورت حال کو اور پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ یوروپی یونین کے دو ممالک فن لینڈ اور سوئیڈن ناٹو کے حفاظتی چھتری میں آنا چاہتے ہیں مگر ترکی کی مخالفت کی وجہ سے ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کسی بھی ناٹو ملک کی مخالفت کے ساتھ ناٹو کے ادارے میں کسی بھی باہری ملک کی شمولیت کا امکان نہیں ہے۔ ترکی کی سخت مخالفت کی وجہ سے ناٹو کی توسیع نہیں ہورپا رہی ہے۔ پچھلے دنوں ناٹو سربراہ کانفرنس میں اس معاملہ پر ترکی اورامریکہ میں اختلاف رائے صاف دکھائی دیا تھا۔ فن لینڈ اور سوئیڈن مسلسل ترکی پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ ان کی مخالفت ختم کردے مگر ترکی کا کہنا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردانہ کارروئی میں ملوث کئی مطلوبہ افراد کو ان دونوں ملکوں نے پناہ دے رکھی ہے۔ لہٰذا اپنے ملک میں دہشت پھیلانے والے کسی بھی ملک کو وہ حمایت دے اس کا امکان نہیں ہے۔ بہر کیف اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے ترکی اور ان دونوں یوروپی ممالک کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں۔ کئی جنگی ماہرین کا خیال ہے کہ آج کے حالات میں امریکہ کا آئی ایس آئی ایس کے خاتمہ اور اس کے خلاف جنگ پر زیادہ زور اس لیے مناسب نہیں ہے کہ آج کے حالات وہ نہیں ہیں جو یوکرین تنازع کے پہلے تھے۔ امریکہ کو چاہیے کہ آج کے بدلے ہوئے حالات میں عملی حکمت اختیار کرے اور مخالف بلاک کو کوئی موقع فراہم نہ کرے۔
کئی ممالک میں ترکی اور مغربی ویوروپی ممالک میں شدید اختلافات ہیں۔ ترکی شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں فوجیں بھیج چکا ہے اور روس کے ساتھ کئی محاذوں پر تعاون کررہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ شام میں روس بشار الاسد کی حکومت کو 2011سے ہی مدد فراہم کررہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS