قیاسی یکساں سول کوڈ پھرپردۂ حجابی سے باہر

0

خواجہ عبدالمنتقم

اکثر اوقات یکساں سول کوڈکی حمایت اور مخالفت میں مختلف حلقوں سے آواز اٹھتی رہتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ آواز کبھی نعرہ بازی کی شکل میں ہوتی ہے تو کبھی نعرہ سازی کی مگر جب ارباب حکومت اور عدلیہ کی جانب سے اس معاملے میں اپنی کسی رائے کا اظہارکیا جاتا ہے یا اس طرح کا قانون جلد بنانے کی بات کی جاتی ہے تو ایک ہلچل سی پیدا ہو جاتی ہے۔
بھارت کے آئین کی دفعہ 44میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ مملکت اس بات کی کوشش کرے گی کہ ہندوستان میں سبھی شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ ہو مگر یکساں سول کوڈ کی نوعیت کیا ہوگی، اس کے بارے میں ابھی تک ہمارا آئین بالکل خاموش ہے۔البتہ ہمارے واضعین قانون،قانون سازی کے اس اصول سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی بھی ملک کا قانون، وہاں کے عوام اور وہاں کے قانون ساز اداروں کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ایساقانون نہ بنائے جس سے کسی کے جذبات کسی بھی طرح مجروح ہوں۔
سپریم کورٹ دیگر معاملوں کے ساتھ ساتھ پنالال بنسی لال بنام ریاست آندھرا پردیش (1996)جے ایس سی سی498والے معاملے میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ کسی قانون کے سب پر اطلاق سے متعلق فیصلہ ایک دم نہیں کیا جاناچاہیے۔ یہ کام بہت دھیرے دھیرے کیاجاناچاہیے اور صرف تبھی کیا جاناچاہیے جب اس کی ضرورت نہایت شدید ہواور اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں اور ملک کا اتحاد وسالمیت قائم رہے۔ دریں صورت یکساں سول کوڈ کے نفاذمیں عجلت چہ معنی دارد۔’’سجن سنگھ بنام ریاست راجستھان والے معاملے (اے آئی آر 1965 ایس سی 845)اور ریاست پنجاب بنام بلدیو سنگھ والے معاملے (1999) 6ایس سی سی 172 میں سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں اس رائے کا اظہار بھی کرچکی ہے کہ فیصلہ پر قائم رہنے کے اصول(Stare Decisis)کے مطابق عدالتوں کو فیصلوں پر قائم رہنا چاہیے اور ان کوالٹ پلٹ نہیں کرنا چاہیے۔ اس اصول کے بغیر قانون عامہ بر قرار نہیں رہ سکتا۔آئین نے سپریم کورٹ کے ججوں پر کوئی بھی ایسی پابندی نہیں لگائی ہے کہ وہ پرانے فیصلوں پر نظر ثانی نہ کر سکیں۔ لیکن متذکرہ بالا اصول کے مطابق ایسے فیصلوں کو منسوخ کرنے یا انہیں بدلنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
یکساں سول کوڈ کایہ مسئلہ کسی ایک فرقہ کا نہیں، اس سے سبھی کے لیے دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں اور کوئی بھی حکومت ہو عام نوعیت کے فیصلے لینے سے پہلے اس کے تمام مثبت و منفی پہلوؤں پر غور کرتی ہے اور کبھی بھی جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہیں لیتی۔ موجودہ حکومت بھی ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد ہی فیصلہ لے گی۔ یکساں سول کوڈ کی بات تو سب کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ قیاس بھی کرلیتے ہیں کہ مسلمانان ہند اس کی مخالفت کریںگے مگر کوئی یہ سمجھنے یا بتانے کے لیے تیار نہیں کہ مجوزہ سول کوڈ کی نوعیت کیا ہوگی؟ ذرا ان سوالات پر بھی غور کیجیے۔
-1 کیا ہندوؤں کے دونوں مکاتب فکر یعنی Mitakshara (میتاکشر) اور Dayabhaga (دائے بھاگ) پر ہر عائلی معاملے میں یکساں سول کوڈ کا اطلاق ممکن ہے؟
-2 کیا عام ہندوؤں اور پہاڑی و قبائلی ہندوؤں پر،جو Polyandry (بیک وقت کئی خاوند رکھنا) میں یقین رکھتے ہیں،یکساں سول کوڈ کا اطلاق ممکن ہے؟
-3 کیا مسلمانوں کے ہرمکتب فکر اور مسلک پر ہرعائلی معاملے میں یکساں سول کوڈ کا اطلاق ممکن ہے؟
-4 اگر مسلم عائلی قوانین کی اچھی باتوں کو یکساں سول کوڈ میں شامل کیا جاتا ہے تو کیا ہندو صاحبان انہیں قبول کریں گے؟
-5 کیا قوانین اہل ہنود کی اچھی باتوں کو مسلمانان ہند قبول کریںگے؟
-6 کیا شادی کی رسوم میں یکسانیت لانا ممکن ہے؟
-7 کیا ہندوؤں اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر اور مسالک کی کبھی ایک رائے ہوسکتی ہے یا کبھی ہوئی ہے؟
-8 کیا وہ قوم جو بابری مسجد جنم بھومی مسئلہ پر ایک نہ ہوسکی تو وہ اتنے اہم ایشو پر ایک ہوسکتی ہے؟
-9 کیا سول کوڈ تمام مذاہب کی بنیادی باتوں اور آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کو نظرانداز کرکے نافذ کیا جاسکتا ہے؟
مختلف مذاہب کے علما اور دھرم گروؤں کو اس مسئلے کے ہر پہلو پرمکمل طور پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے پورا پورا و قت دیا جانا چاہیے۔ ماہرین قانون کے لیے بھی قانونی بحث کے نقطۂ نظر سے یہ یقینی طور پر غذائے پرمغز ہے۔ لا کمیشن کے سابق چیئرمین جسٹس چوہان نے بھی مسلمانوں کے ایک وفد کو یہ یقین دلایا تھا کہ حکومت یا سپریم کورٹ کا مسلمانوں کے شرعی قانون میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں۔اگر موجودہ حکومت پھر اس معاملے کو نئے لا کمیشن کے پاس بھیجتی ہے تو وہ بھی اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کرے گا۔
ہندوستان جیسے مذہبی اعتبار سے حساس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور ان میں بھی مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یکساں سول کوڈ کے اطلاق کی تو بات کیا، اسے وضع کرنا بھی آسان کام نہیں اور غالباً اس کی حمایت اور مخالفت کرنے والے دونوں ہی اس کی محض قیاسی شکل کی بنیاد پر قیاس آرائی کررہے ہیں۔ اگر یکساں سول کوڈ وضع کیا بھی جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسلمانوں پر ہندو کوڈ تھوپ دیا جائے گا۔ ہندوستان میں اگر ایک طرف مسلمانوں کو Polygamy (ایک سے زائد بیویاں رکھنا، کثیر زوجگی) کی آزادی ہے تو دوسری جانب پہاڑی اور قبائلی علاقوں میں ہندوؤں کو Polyandry (بیک وقت کئی خاوند رکھنا) کی۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پالی گیمی کی ابتدا مسلمانوں نے کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے تعدد ازواج کو محدود کیا ورنہ اس سے قبل نہ صرف عرب بلکہ غیر عرب جتنی چاہے بیویاں رکھ سکتے تھے۔کیا یہودی اور حضرت موسیٰؑ کے پیروکاروں نے ایسا نہیں کیا؟ کیا قدیم عیسائی چرچ نے کبھی اس کی مخالفت کی؟ کیاAnabatism (تجدید اصطباغ)کے حامیوں نے پالی گیمی کو منظوری نہیں دی؟ کیا افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ کے Mormons میں پالی گیمی رائج نہیں تھی؟ کیا 1955 کے ہندو میرج ایکٹ کے نفاذ سے قبل ہمارے ہندو بھائی ایک سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتے تھے؟آج بھی آپ کو شاذونادر ہی مسلمانوں میں ایسے لوگ ملیںگے جن کی ایک سے زیادہ اور خاص کر 4بیویاں ہوں۔ اسٹیریو ٹائپ نفرت آمیز تشہیر کا تو کوئی علاج نہیں۔ موجودہ حکومت اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کو چاہیے کہ مندرجہ ذیل امور کی نسبت سروے کرائیں تاکہ بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔
-1 مسلمانوں اور غیرمسلموں میں طلاق کا تناسب کیا ہے خواہ طلاق باہمی رضامندی سے ہی کیوں نہ لی گئی ہو؟
-2 عدالتوں میں طلاق، خانگی تشدد اور خواتین کو جلاکر مار ڈالنے سے متعلق زیر سماعت اور فیصل شدہ معاملوں میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کی تعداد کتنی ہے؟
-3 ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والے ہندو اورمسلم شوہروں کا فیصد کیا ہے؟
دریں صورت یکساں سول کوڈ کی بابت قانون سازی کے لیے عجلت کا کوئی جواز نہیں۔ اس کی عمل درآمدگی میں آنے والی مشکلات پر عمل درآمدگی کے قانونی اصول Doctrine of feasibilityکی پیچیدگیوں پر بھی غور کرنا ہوگا۔یکساں سول کوڈ پر عمل درآمدگی جوئے شیر لانے سے کم نہیں،باقی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی،مصنف و سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ این سی پی یو ایل کے لاء پینل کے رکن بھی ہیں اورامیٹی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS