سوشل میڈیا پر دباؤ : افغان لڑکیوں کیلئے کھولے جائیں اسکول

0

کابل (ایجنسیاں) : سوشل میڈیا کی ایک مہم کے تحت افغان طالبان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ بچیوں کی تعلیم کی راہ میں رخنے مت ڈالیں۔ مقامی اور عالمی سطح پر کیے جانے والے بارہا مطالبات کے باوجود طالبان اس تناظر میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔سماجی رابطوں کے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ’ٹوئٹر‘ پر LetAfghanGirlsLearn# ٹرینڈ کر رہا ہے۔ اس مہم کے تحت افغانستان کے علاوہ عالمی سطح پر ہزاروں صارفین مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغان طالبان بچیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کی راہ ہموار کریں۔گزشتہ برس وسط اگست میں افغانستان پر قبضہ کرنے والے طالبان نے ملک میں ایک مرتبہ پھر اسلامی نظام نفاذ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ان سخت شرعی قوانین کے تحت یہ گروہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں۔البتہ کئی مسلم حلقوں کے مطابق طالبان اسلامی قوانین کی انتہائی سخت اور گمراہ کن تشریح کرتے ہوئے خواتین کو تعلیمی اداروں میں جانے سے روک رہے ہیں۔طالبان نے ملک کا اقتدار سنبھالے کے بعد آہستہ آہستہ خواتین کی آزادیوں کو محدود بنا دیا ہے جبکہ خدشات ہیں کہ مستقبل میں اس ملک میں خواتین پر عائد پابندیاں مزید سخت کر دی جائیں گی۔انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اس وسطی ایشیائی ملک میں لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جانے پر پابندی کے نتیجے میں ان بچیوں، ان کے گھرانوں اور ملک کے مستقبل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔بنیاد پرست طالبان نے اپنے پہلے دور اقتدار سن 1996 تا 2001ء خواتین پر متعدد اقسام کی پابندیاں عائد کر دی تھیں، جن میں ان کے تعلیمی اداروں میں جانے پر روک کے علاوہ گھر سے باہر نکلنے پر ایسا برقع پہنے کی تاکید کی بھی شامل تھی، جس سے وہ سر تا پیر دکھائی نہ دیں۔ یوں افغان خواتین گھروں میں پابند ہو کر ہی رہ گئی تھیں۔
اگرچہ گزشتہ برس ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ وہ بدل چکے ہیں اور خواتین کے بارے میں اپنے گزشتہ مؤقف میں تبدیلی لے آئے ہیں تاہم بظاہر ایسا کچھ محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ طالبان کی نئی نام نہاد حکومت بھی لڑکیوں اور خواتین کی آزادیوں پر غیر محسوس طریقے سے قدغنیں لگانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ٹوئٹر پر #LetAfghanGirlsLearn مقبول ہوتا جا رہا ہے، جس میں طالبان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے سے مت روکیں اور ان کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھول دی جائیں۔اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ وہ بچیوں کی تعلیم کی بحالی کی خاطر ایک نیا طریقہ کار وضع کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن متعدد وعدوں کے باوجود چھٹی جماعت کے بعد بچیاں کلاس روم میں نئے داخلے سے محروم ہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت دینے پر طالبان کی اعلیٰ قیادت میں اختلاف ہے۔
افغانستان کے آزاد ہیومن رائٹس کمیشن کی سابق سربراہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ بچیوں پر ان پابندیوں کی وجہ سے وہ ہر روز کڑھتی ہیں۔ ان کے بقول وہ اس وقت ہی مطمئن ہوں گی، جب یہ صورت بدل جائے گی۔
شہزاد اکبرنے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ باہمت و با صلاحیت افغان خواتین کو مواقع نہیں ملیں گے تو وہ ملک کی ترقی میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گی۔ ان کے مطابق لڑکیوں پر اس طرح کی پابندیاں ان کی جبری شادیوں اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ بن جائیں گی۔کابل کی رہائشی شریفہ نویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ طالبان کی طرف سے تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے ہزاروں دیگر بچیوں کی طرح اب وہ بھی اسکول جانے سے محروم ہو چکی ہیں۔شریفہ (سکیورٹی خطرات کی وجہ سے نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’جب میں اسکول کی کتابیں دیکھتی ہوں اور اپنی کلاس فیلوز سے ملتی ہوں تو اچھے دن یاد آ جاتے ہیں، لیکن جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب میں اسکول نہیں جا سکوں گی تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے ساری امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں اور ہمیں اپنا مستقبل تاریک اور درد ناک نظر آ رہا ہے۔‘کریمہ (سکیورٹی خطرات کی وجہ سے نام تبدیل کر دیا گیا ہے) 2بچیوں اور ایک لڑکے کی ماں ہیں۔ کابل کی رہائشی اس خاتون کا کہنا ہے کہ اسکولوں کی بندش کی وجہ سے وہ بالخصوص اپنی بیٹیوں کی نفسیاتی صحت کے بارے میں پریشان ہیں۔
کریمہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’اسکولوں کی بندش نے صرف بچوں پر ہی نہیں بلکہ مجھ پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ اب مجھے بھی کوئی وقفہ نہیں ملتا کہ میں باہر جا سکوں یا کوئی کام کر سکوں۔ مجھے ان بچوں کے ساتھ گھر پر ہی رہنا پڑتا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ میرے بچے خود کو جسمانی طور پر نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔‘
انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنان نے اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان طالبان پر دباؤ بڑھائیں تاکہ وہ خواتین پر عائد کی جانے والی ان پابندیوں کو اٹھا لیں۔ رواں برس ستمبر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ان کارکنان نے عالمی ادارے کو اس حوالے سے ایک کھلا خط بھی لکھا گیا ہے۔
افغان دارالحکومت کابل میں واقع جرمن سفارت خانے نے بھی طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ جنسی تفریق کے بغیر سب کے لیے تعلیم کے یکساں مواقع یقینی بنائے۔ عید کے موقع پر کی گئی ایک ٹوئیٹ میں جرمن سفارت خانے نے کہا کہ وہ افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی خاطر آواز بلند کرتا رہے گا۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS