مساجد کی آبادی’ ہر مسلمان کی ذمہ داری

0

از قلم : محمد عمر قاسمی کاماریڈی

اسلام کی تعلیمات ہمہ گیر اور ہدایات عالمگیر اور آفاقی ہے ، جس نے بندگان خدا کو خدائے وحدہ لاشریک لہ کی عبادت و بندگی اور اطاعت و فرماں برداری کا پابند کیا ؛ اسی لئے ایک بندۂ مؤمن اپنے معبودِ حقیقی و مسجودِ اصلی کے سامنے اپنی عاجزی و بےبسی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سر تسلیم خم کرتا ہے ، جوکہ درحقیقت ایک گم شدہ بندے کے اپنے آقا کے دربار میں حاضری کا سبق ہے ، اور اس حقیقت کی خوبصورت ترجمان اور بہترین شکل نماز ہے ، ” نماز “ اسلام کا مہتم بالشان رکن اور بنیادی ستون ہے ، جو ایمان و کفر کے مابین حد فاصل اور خطِ امتیاز ہے ، جس کی ادائیگی ہر صاحبِ عقل ، بالغ مسلمان پر فرض و لازم ہے اور اس کی ادائیگی کے لئے شریعت مطہرہ نے ایک مخصوص و مقدس مقام بنایا ہے ، اور وہ مقدس و پاکیزہ جگہ شریعت کی اصطلاح میں ” مسجد “ کہلاتی ہے ، مسجد درحقیقت پروردگار عالم کا بابرکت گھر اور پر عظمت دربار ہے ، خیر و برکت کا منبع اور نور و ہدایت کا سرچشمہ ہے ، عبادت و بندگی کا مظہر اور اسلام کی نشر و اشاعت کا مرکز ہے ، امن و سلامتی کا گہوارہ اور رحمت و برکت کی منزل ہے ، اور ملائکہ کا مسکن اور اسلام کی عظیم درسگاہ ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ مسجدیں ہر علاقے اور ہر بستی کی وہ بنیادی ضرورت ہے ، جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ، اور اس کا کوئی نعم البدل بھی نہیں ، اس کا ادب و احترام ہر صاحب ایمان پر لازم و واجب ہے ؛ کیوں کہ اس کی حیثیت اور مقام دیگر جگہوں سے بلند و بالاتر ہے۔

مساجد کی فضیلت:
مسجد خانۂ خدا اور خیر البقاع (دنیا کی بہترین جگہ) ہے ، کتاب و سنت میں بیشتر مقامات پر اس کی فضیلت و عظمت وارد ہوئی ہیں : چنانچہ ” مسجد اللہ کا گھر ہے، مسجد آسمان والوں کو ایسے ہی چمکتے اور روشن نظر آتی ہے ، جس طرح زمین والوں کو آسمان کے ستارے چمکتے نظر آتے ہیں “‌۔ ( مجمع الزوائد : ۱۹۳۴)
خطۂ ارض پر عند اللّٰہ محبوب ترین جگہیں ”مساجد “ ہیں ؛ جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ” (مساجد) جنت کے باغ ہیں ، اللہ تعالیٰ کی نظر میں روئے زمین پر سب سے بہترین جگہیں مسجدیں ہیں اور سب سے بد ترین جگہیں بازار ہیں‘‘ ( مسلم باب فضل الجلوس فی مصلاہ :۶۷۱ )
صرف یہی نہیں ؛ بلکہ مسجد امن و سلامتی کا گہوارہ ہے ، ہر مؤمن متقی کا گھر ہے ؛ نیز جماعت کی نماز منفرد کی نماز سے ۲۷ درجہ ثواب مضاعف رکھتی ہے ، (بخاری و مسلم، مشکوٰۃ : ۱۰۵۲ )
لہٰذا ہر صاحبِ ایمان شخص کو چاہیے کہ پنچ وقتہ فرض نمازوں کا اہتمام کریں اور ان کی ادائیگی کے لئے مسجدوں کا رخ کریں ۔

مساجد کی آبادی اور حاضری کی فضیلت :
کتنا خوش نصیب اور نیک بخت ہے وہ مسلمان جس کو باری تعالیٰ نے نماز کی ادائیگی اور مسجد میں حاضری کی توفیق ارزانی فرمائی ہے ، یہ صرف فضیلت ہی نہیں بلکہ بہت بڑی سعادت بھی ہے ؛ اس لئے کہ حدیث مبارکہ میں ہے : ” اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والے بندے سے اس طرح خوش ہوتے ہیں ، جس طرح گم شدہ آدمی کے ملنے سے گھر والے خوش ہوتے ہیں ؛ نیز یہ کہ مسجد میں آنے والے کی اللہ ربّ العزت والجلال خود میزبانی اور مہمان نوازی کرتے ہیں ؛ گویا مسجد میں آنے والا اللہ کا مہمان بن جاتا ہے، ( بخاری :باب فضل من غدا الی المسجد :۶۳۱ )
مسجد میں پیہم حاضری اور آمد و رفت کمال ایمان کی نشانی اور متقی شخص کی علامت ہے:
اللہ تعالیٰ اس (مسجد میں آنے والے) بندے سے محبت فرماتے ہیں ، اور ملائکہ اس کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں ، ( مسند احمد : ۴۹۱۴)
نیز اکثر وقت مسجد میں گذارنے والے بندہ کو بشارت دیتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا : کہ” صبح و شام مسجد میں حاضر ہونے والا گناہوں اور خطاؤں سے اس طرح منزہ و مبرہ ہو جاتا ہے ، جس طرح اس وقت تھا ، جب ماں کی پیٹ سے پیدا ہوا“ ( مسلم : ۶۶۶)
اور مسجد میں آنے والا کبھی خیر سے محروم نہیں رہتا ؛ کیوں کہ سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے : ” مسجد میں بیٹھنے والا تین فائدوں میں سے ایک فائدہ ضرور حاصل کرتا ہے۔ (۱) کسی بھائی سے کوئی دینی فائدہ ہو جاتا ہے۔ (۲) یا کوئی حکمت کی بات سننے کو ملتی ہے۔ (۳) یا اللہ کی رحمت مل جاتی ہے،(جس کا ہر مسلمان منتظر رہتا ہے) ( مسند احمد :۴۹۱۴)
بہ ہر حال مسجد میں بیتنے والا وقت بھی قیمتی ہوجاتا ہے اور آدمی کسی نہ کسی خیر سے مالامال ہوجاتا ہے ؛ لیکن مساجد کی آبادی بھی خدائے بزرگ و برتر کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ” اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اور نمازوں کے پابند ہوں اور زکاۃ دیتے ہوں اوراللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں“۔ (سورۃ التوبۃ: ۱۸)
مساجد کی آبادی کی ترغیب دیتے ہوئے محبوب کل جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ’’ جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو خوب چرو ، سوال کیا گیا کہ: جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: مساجد۔‘‘ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، ۲/۱۹۱)
مختصر یہ کہ ہر فردِ مؤمن کو اس بات کے ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہئے کہ وہ ان سب فضائل و برکات سے مستفید ہو۔

مسجد سے بے التفاتی و بے توجہی کا نقصان:
مسجد میں بکثرت آمد و رفت کمالِ ایمان کی نشانی ہے اور نہ آنا نفاق کی علامت ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے جو کہ کائنات میں سب سے بڑھ کر رحیم و بردبار ہے ، ” مسجد میں نہ آنے والوں کے بارے میں آپ ﷺ یہ ارادہ فرماتے ہیں کہ ان کے گھروں کو جلا دوں“۔ ( بخاری : کتاب الجماعت و الامامۃ : ۶۱۸ ) ذرا اندازہ لگائیے کہ کتنی بڑی بات ہوگی اور کیا عظمت ہوگی نماز کی کہ آپ اس کوتاہی پر اس قدر ناراضگی کا اظہار فرمارہے ہیں، پس مسجد میں حاضری کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ؛ لیکن یہ بات بھی مہتاب نیم شب کی طرح عیاں ہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی حق و باطل کا تصادم اور ٹکراؤ جاری رہا ہے کہ ہر زمانے میں دشمنانِ اسلام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں ،کبھی تو احکامِ شریعت میں ترمیم اور تبدیلی کر کے ، تو کبھی شعائر اسلام کا استہزا اور مذاق بنا کر ،کبھی تو اذانوں پر پابندیاں لگا کر ، کبھی مسجدوں کی بے حرمتی و تقدس پامالی کرکے ؛ لیکن یاد رکھیں کہ یہ سب ہمارے شامتِ اعمال اور دین سے دوری کا نتیجہ اور اثر ہے ، پس ہمارے ملک ہندوستان میں سب سے پہلے بابری مسجد کو ہدف بنایا گیا ، اور ناجائز قبضہ کر کے اس کو مندر میں تبدیل کیا گیا ، اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے اویس زمانہ قاری سید صدیق صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس طرح کہا تھا
وہ میر باقی کی تھی جو مسجد جو عہد بابر کی تھی نشانی
خدا کا گھر وہ گرا کے ظالم یہ کیسا مندر بنا رہے ہیں
لیکن پھر بھی جب تک ظالم کی آتشِ ظلم ٹھنڈی نہ ہوجائے تو وہ کچھ نہ کچھ شرانگیزی ضرور کرتا رہتا ہے، ابھی سال دو سال قبل شہر حیدر آباد میں بھی دو مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی ، اور ان کو مسمار کردیا گیا ، اس طرح کے اور بھی واقعات رونما ہوئے ہیں یہ سب ہمارے شامت اعمال کا نتیجہ اور قرب قیامت کا قرینہ ہے ، ہم سے صرف بابری مسجد ہی نہیں چھینی گئی ؛ بلکہ بابری مسجد تو ہدف اور نشانہ ہے ، اس کے علاوہ دلی کی جامع مسجد ، حیدرآباد کی مکہ مسجد وغیرہ بھی نشانے پر ہے ، وقفہ وقفہ سے دشمن ہماری رگِ غیرت و حمیت کو بھڑکا رہتے ہیں ، یکے بعد دیگر مسجدوں پر ناپاک حملے کیے جاتے ہیں ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم تو بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ، خود ” مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے “ ہمارا طرز عمل تو محض رمضانی مسلمان ہونے کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے ، جیسے ہی رمضان آجائے ، تو مسجد میں آمدورفت شروع ہوجاتی ہے، قرآن کی تلاوت کا خوشگوار ماحول پیدا ہو جاتا ہے ، روزوں کے اہتمام کی خوشبو دار فضا چلنے لگتی ہے ، تسبیحات کی پابندی کے دلچسپ مناظر نظر آتے ہیں ، غریبوں کی امداد، مسکینوں کی داد رسی، بیماروں کی مزاج پرسی ؛ بلکہ ہر اعتبار سے انسانیت نوازی اور خدمت خلق جیسی نمایاں صفات کا ظہور ہوتا ہے ، خیر خواہی کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں ، ہم دردی کے حوصلے پروان چڑھنے لگتے ہیں ؛ لیکن پھر جوں ہی ہلالِ عید نظر آ جائے ، تو دفعۃ ماحول بدل جاتا ہے ، مزاج میں تبدیلی آجاتی ہے ، بہار کے بجائے خزاں جیسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ، اور در پردہ چھپے ہوئے سب شروروفتن عود کر آجاتے ہیں ،مسجدوں سے بیگانگی و بے التفاتی، نمازوں کی غفلت و لاپرواہی کا ایسا منظر ہوتا ہے ،جو ناقابل بیان ہے ؛گویا شاعر مشرق علامہ اقبال نے امت کی اسی زبوں حالی کا رونا رویا ہے :
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ،ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اب بھی وقت ہے سدھر جانے کا ، مزاجوں کو بدلنے کا ، عادات کا رخ موڑنے کا ، تو اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمیں ان حالات میں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، اولاً تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خاموش رہنے کے بجائے جائز اور جمہوری حدود میں رہتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کرے ، ثانیا ہم خود اپنے طور پر مسجدوں کو آباد کرنے کی فکر کرنی چاہیے؛ اس لیے کہ جب تک ہماری مسجدیں آباد اور نمازیوں سے پر ہوگی ، تو کسی بھی مائی کا لال میں جرأت اور ہمت نہیں کہ وہ اس کے خلاف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں، اور اس کے خلاف اپنے ذہن کو دوڑا سکے ؛ لیکن ہمارا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ مسجدوں کی کوئی فکر ہے نہ نماز کا شوق ، اور جب مسجدوں پر حملے اور انگشت نمائی ہوتی ہے ، اور اس کی بے حرمتی کی جاتی ہیں ، تو تب کف افسوس ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا ، پھر ہائے ہائے کرنا کچھ نفع بخش اور سودمند نہیں ہوتا ، اس لئے ہمارا اولین ذمہ داری ہے کہ ہم خود محلہ واری سطح پر مسجدوں کو آباد کرنے کی فکر کریں ، آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمان بھائیوں سے ترغیب اور تشویق کی باتیں کرکے انہیں مسجد کا پابند بنائیں، جس طرح مسجد کی تعمیر اور آباد کاری باعثِ سعادت اور اجروثواب کا موجب ہے ، بس یوں ہی اس کے برخلاف مسجد ڈھانا اور تخریب کاری و ویرانی کے اسباب و ذرائع کو پیدا کرنا بدبختی و حرماں نصیبی ہے ، جو سنگین گناہ اور ظلم عظیم ہے ؛ جیساکہ قرآن کریم میں آیا ہے : ” ومن اظلم ممن منع مساجد الله “

 خلاصۂ تحریر :
مختصر یہ کہ ہم قرآنی پیغام ” انما یعمر مساجد اللہ من امن بالله واليوم الاخر“ کا عامل بنتے ہوئے اپنے مؤمن کامل ہونے کا ثبوت دیں اور مساجد کی حفاظت کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کی آبادی کی کوشش کی جائے ، اس کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں ، ہر شخص کو شعوری طور پر یہ کوشش کرنا چاہیے کہ وہ جس علاقے میں رہتا ہے ، اگر وہاں مسجد نہ ہو تو مسجد کی تعمیر کی فکر کریں ، اور اگر ہو تو اس کی آبادی کی کوشش کرے ، اسی طرح ہر نمازی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی دعاؤں میں مسجد کی آبادی اور علاقے کے لوگوں کے لئے دعا کریں کہ پروردگارِ عالم ہر مسلمان کو پکا نمازی اور سچا دین دار بنائیں ، اور مساجد کے آئمہ و مؤذنین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اذان و نماز تک محدود رکھنے کے بجائے مسجد کی آبادی کی بھی کوشش کرے ، اپنے آپ کو اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہ سمجھیں ؛ بلکہ یہ بھی ان کے فریضہ میں داخل ہے، اللہ تعالی توفیقِ عمل نصیب فرمائیں ربي اجعلني مقيم الصلاه ومن ذريتي ربنا وتقبل دعاء آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS