آبادی میں اضافہ یا افاقہ اقتصادی وسماجی مسئلہ ہے نہ کہ مذہبی

0

خواجہ عبدالمنتقم

کسی ملک کی آبادی میں اضافہ یا افاقہ اس بات پر منحصر نہیں کہ وہاں کی آبادی کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والے، ہندوستان کے تعلق سے مسلمان، جا ن بوجھ کر اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں۔ یہ محض خیال خام ہے۔ اگر اضافہ آبادی کا تعلق مذہب سے ہوتا تومسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے منصوبہ بندی کے پروگرام کو تمام دنیا کے لیے رول ماڈل قرار نہیں دیا جاتا۔بنگلہ دیش میں خاندانی منصوبہ بندی کا کام 1950 میں ہی شروع ہوچکا تھا۔ جب وہ پاکستان کا حصہ تھا۔جی ہاں،وہی پاکستان جسے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ مملکت خداداد کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ وہ ایک اسلامک جمہوریہ ہے اور ان کے بیشترقوانین ، ما سوائے کچھ ترامیم یا اضافہ جات کے، میکالے کے وضع کیے گئے وہی قوانین ہیں جو ہندوستان کو برطانوی حکومت سے ورثہ میں ملے ہیں۔بنگلہ دیش میںیہ پروگرام کسی قانون یا کسی بھی طرح کی سختی برتنے کی شکل میں شروع نہیں ہوا بلکہ یہ طبی و سماجی جہد کاروں نے رضا کارانہ طور پر شروع کیاتھا اور کافی عرصہ گزر جانے بعد یہ سرکاری سیکٹر کا حصہ بنا۔وہاںبلا کسی مذہبی مخالفت کے سب لوگوں نے بہ رضا و رغبت قبول کیا۔ کسی بھی ہدف کو پورا کرنے کے لیے قانون بنانا کوئی بری بات نہیں لیکن اس کے لیے پہلے سازگارماحول تیارکرنا ضروری ہے۔
جہاں تک ہمارے ملک میں سازگار ماحول پیدا کرنے کی بات ہے تو اس کایہ طریقہ نہیں کہ ایک مقبول عام ٹی وی چینل پر یہ دکھایا جائے کہ ایک مسلم فیملی کے 19بچے ہیں، جیسے کہ ہر ہندوستانی مسلمان دو یا دو سے زیادہ بیویاں رکھ رہا ہے اور ہر ایک کے لگ بھگ ڈیڑھ درجن بچے ہیں۔اسے (yellow journalism) یعنی سنسنی خیز صحافت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس سے بہتر تو یہ ہوتا کہ کسی ایسی مسلم فیملی کے دو ایسے بچوں کو دکھایا جاتا جو آئی اے ایس بنے یا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج بنے۔اسے دیکھ کر متعلقین کو بہتر ترغیب ملتی۔طنز یا طعنہ زنی سے کسی کو کسی بھی غرض کے لیے مائل کرنا قرین مصلحت نہیں۔
دراصل خاندانی منصوبہ بندی ایک سماجی و اقتصادی مسئلہ ہے، اس کے لیے بیداری کی ضرورت ہے۔اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں ہر کم پڑھے لکھے شخص کو مذہبی چشمہ لگائے بغیر یہ سمجھانا چاہیے کہ بچوں کی تعداداتنی ہو جس سے آپ ان کی بہتر پرورش کرسکیں۔ ہم نے پتھر توڑتی عورتوں کو اپنے کئی کئی چھو ٹے چھوٹے بچوں کو کڑی دھوپ میں اپنی گود میں لے کر پتھر توڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمارے دماغ میں تو کبھی یہ بات نہیں آئی کہ ان کا تعلق کس مذہب سے ہے اور نہ ہی یہ ہندی کے نامور شاعر سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا کے، جنھوں نے الٰہ آباد کی سڑک پر سخت گرمی اور دھوپ میں پتھر توڑتی ایک عورت کی حالت زار کو نظمیہ جامہ پہنایا۔
اب سے تقریباً سوسال قبل شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس میں سروں یعنی افراد کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۔ علامہ اقبال کا یہ قول آج بھی سوفیصد سچ ہے کہ جمہوریت میں افراد کو گنا جاتا ہے مگر اس بات سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ اب افراد کو تولا بھی جاتا ہے۔اب ایسے کسی خاندان کوجس میں پانچ چھ بچے ہوں اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے سڑکوں پر آوارہ گھوم رہے ہوں اس خاندان کے مقابلہ میںاچھا نہیں سمجھا جاتاجس میں کم بچے ہوں اور وہ اچھی تعلیم حاصل کررہے ہوں۔دریں صورت اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ سماج کے تمام طبقات کو آئین کی دفعہ 14کی رو سے صحیح معنوں میں یکساں پلیٹ فارم مل سکے اور ان سب کو مساویانہ طور پر معاشی، سیاسی، شہری، معاشرتی وثقافتی اختیارات و مراعات حاصل ہوسکیں۔جہاں تک مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے تناسب کے balancing کی بات ہے تو اس کا فیصلہ آئین پہلے ہی کرچکا ہے۔ جب اس کی تمہید میں ’We the people of India‘ درج کردیا گیا تھا اور ہر طرح کے انصاف اور آزادی کی ضمانت دے دی گئی تھی توپھر یہ ’ توازنی مشق‘ چہ معنی دارد۔ہمارا آئین تو اصل باشندوں و دیگران میں کوئی فرق نہیں کرتا۔اس میں یوروپی ممالک کی طرح عوام کو natives یا non-natives جیسے درجات میں نہیں بانٹا گیا ہے۔ اب ضرورت ہے دولت کی مساویانہ تقسیم کی نہ کہ طبقات کی مذہبی بنیاد پر ہمہ وقت تقسیم کی۔ ہم سب ہندوستانی ہیں، کسی کی آبادی کم ہو یا بڑھے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہمیں ضرورت ہے مہذب اور ایسے روشن خیال ہندوستانیوں کی جو ملک کو ہر میدان میں آگے لے جائیں۔
رہی بات آبادی پر کنٹرول کی یہ غرض کئی طریقے سے پوری کی جا سکتی ہے جیسے عوام میں بیداری پیدا کر کے،ترغیبی اسکیمیں بنا کر اورحالات ساز گار ہونے پر قانون بناکر۔ قانون بنانے سے قبل حالات کا سازگار ہونا اس لیے بھی ضروری ہے چونکہ اگر قانون بنے اور اس پر سو فیصد عمل نہ ہو تو وہ قانون کس کام کا؟ آج ممانعت جہیزقانون موجود ہے مگر قانون شکنی کی مثالیں اور سزایابی کا فیصد ہم سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح لوگوں کے دماغ میں یہ بے بنیاد بات بیٹھانے کی کوشش نہیںکرنی چاہیے کہ جیسے ہر مسلمان کی چار بیویاں اور ایک درجن بچے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز جیسے اداروں کوایسی اسٹڈیز کرانی چاہئیں جن سے یہ بات صاف ہوجائے کہ یہ بے بنیاد الزامات ہیں۔اب سے کئی دہائی قبل خشونت سنگھ نے اپنے ایک مضمون میں مصدقہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ان الزامات کو بے بنیاد بتایا تھا مگر جب کسی کی ذہنیت اسٹیریو ٹائپ ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اگر اس قسم کے اعدادوشمار حکومت کے پاس ایک معتبر دستاویز کی شکل میں دستیاب ہوں اور ان کی غیر جانبدارانہ تشہیر کی جائے تو یہ غلط فہمی دور ہوسکتی ہے۔جیسے جیسے لوگوں میں شرح خواندگی بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے وہ خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت کو سمجھنے لگتے ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ دریں صورت قانون لانے سے قبل مناسب ہوم ورک کی ضرورت ہے۔ قانون جب بن جاتا ہے تو اس پر عمل کرنا لازمی ہو جاتا ہے لیکن قانون اگر اس طریقے سے لایا جائے کہ وہ سب کو قابل قبول ہو تو ایسا قانون لانے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے بھی بیشتر قوانین میں relaxation clauses اور مشکلات کو دور کرنے سے متعلق التزامات تو ہوتے ہی ہیں۔ ایسی صورت میں کم از کم ہم ایسے افراد سے، جو شعبۂ تعلیم و تدریس سے جڑے ہوئے ہیں اور جن کی ذمہ داری علم کی شمع کو صرف روشنی ہی فراہم کرنا نہیں بلکہ اس کی حدت اور روشنی کو برابر برقرار وسلامت رکھنا بھی ہے، یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے طلبا کو خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد اور اس کی اہمیت سے باور کرائیں اور سماجی جہدکارو انسانی حقوق کے علمبردار بھی اس ضمن میں مثبت رول ادا کریں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS