نمبروں کی دوڑ میں پستی صلاحیتیں

0

پنکج چترویدی

جن گھروں میں نوعمر بچے ہیں، وہاں عجیب سا تناؤ ہے۔ علی الصباح یا دیر رات تک اسکول کے بچے کندھے پر تھیلا لٹکائے ادھرسے اُدھر بھٹکتے نظر آرہے ہیں۔ آخر ان کے بورڈ کے امتحانات اب سر پر آگئے ہیں۔ کہنے کو تو سی بی ایس ای نے نمبروں کے بجائے گریڈ کو نافذ کردیا ہے، لیکن اس سے اس جدوجہد کا دائرہ مزید بڑھ گیا ہے جو بچوں کے آگے کے ایڈمیشن، مستقبل یا زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں۔زیادہ نمبر لانے کی ہوڑ، دباؤ، جدوجہد اور اس کے درمیان پستا نوعمر! ابھی ابھی بچپن کی دہلیز چھوڑی ہے اور پہلا تجربہ ہی اتنا تلخ؟ دنیا کیا ایسی ہی اذیت ناک مقابلہ آرائی سے چلتی ہے؟ ایک طرف کالجوں میں داخلہ کی مارامار ہوگی تو دوسری جانب ہائرسیکنڈری میں اپنی پسند کے مضامین لینے کے لیے مناسب نمبروں کی ضرورت کا کھیل۔
کیا کسی بچے کی صلاحیت، قابلیت اور ذہانت کا تقاضا صرف نمبروں کا فیصد ہی ہے؟ وہ بھی ایک ایسے امتحانی نظام میں جس کی اپنی میرٹ شکوک و شبہات میں گھری ہوئی ہے۔ تشخیص کی بنیاد بچوں کی صلاحیت نہ ہوکران کی کمزوری ہے۔ یہ سراسر منفی سوچ ہے، جس کی وجہ سے بچوں میں خودکشی، پیپر کی خرید و فروخت کا رجحان، نقل کرنا یا جھوٹ کا سہارا لینا جیسی بری عادتیں جنم لے رہی ہیں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد اس نمبر کی دوڑ میں کھو کر رہ گیا ہے۔
چھوٹی جماعتوں میں سیکھنے کے عمل کے مسلسل پست ہوتے جانے اور بچوں پر پڑھائی کے بڑھتے بوجھ کو کم کرنے کے ارادے سے مارچ1992میں انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت نے ملک کے آٹھ ماہرین تعلیم پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی قیادت پروفیسر یشپال کررہے تھے۔ کمیٹی نے ملک بھر میں کئی اداروں اور لوگوں سے رابطہ کیا اور جولائی 1993 میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی۔ اس میں صاف لکھا گیا تھا کہ بچوں کے لیے اسکولی بستے کے بوجھ سے زیادہ برا ہے نہ سمجھ پانے کا بوجھ۔ حکومت نے سفارشات کو قبول بھی کرلیا اور یکبارگی محسوس ہوا کہ انہیں نافذ کرنے کے لیے بھی قدم اٹھائے جارہے ہیں۔ دو سال قبل آئی نئی تعلیمی پالیسی میں بھی بچوں کی صلاحیتوں کی تشخیص کے حوالے سے کئی باتیں کہی گئی ہیں لیکن فی الوقت ان پر عمل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
چونکہ امتحان کی موجودہ شکل پرلطف تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے اس کے بجائے اجتماعی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انعام و اکرام سے نوازا جانا چاہیے۔اس کے برعکس گزشتہ ایک دہائی میں کلاس میں اوّل آنے کی دوڑ میں نہ جانے کتنے بچے مایوسی کی وجہ سے موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ ہائر سیکنڈری کے نتائج کے بعد ایسے واقعات پورے ملک میںہوتے رہتے ہیں۔اپنے بچے کو پہلے نمبر پر لانے کے لیے کلاس ون یا ٹو میں ہی سرپرست جنگ سی لڑنے لگتے ہیں۔
کمیٹی کی دوسری سفارش نصابی کتب کی تحریروں میں اساتذہ کی شمولیت بڑھا کر اسے decentralized کرنے کی تھی۔ سبھی اسکولوں کو نصابی کتب اور دیگر مواد کے انتخاب سمیت تمام جدت کے لیے بڑھاوا دیے جانے کی بات بھی اس رپورٹ میں تھی۔ اب پرائیویٹ اسکولوں کو اپنی کتابیں منتخب کرنے کا حق تو مل گیا ہے، لیکن یہ اچھا کاروبار بن کر بچوں کے استحصال کا ذریعہ بن گیا ہے۔ پبلک اسکول زیادہ منافع کمانے کی خواہش میں بچوں کابستہ بھاری کرتے جارہے ہیں۔ حکومت بدلنے کے ساتھ کتابیں بدلنے کا دور این سی ای آر ٹی کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں کی ٹیکسٹ بک کارپوریشنوں میں بھی جاری ہے۔ نصابی کتابوں کو اسکول کی ملکیت سمجھنے اور انہیں بچوں کو روزانہ گھر لے جانے کی جگہ اسکول میں ہی رکھنے کی تجاویز نہ جانے کس لال بستہ میں گم ہوگئیں۔ جب کہ بچے اسکول بیگ کے بوجھ، کورس کی زیادتی، والدین کی توقعات سے عاجز آتے جا رہے ہیں۔
مجموعی طور پر امتحان اور اس کے نتائج نے ایک خوفناک خواب، بے یقینی اور بچوں کی فطری نشوونما میں رکاوٹ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کہنے کو تو نمبروں کی فہرست میں فرسٹ کلاس کا اندراج ہے لیکن ان کی آگے کی پڑھائی کے لیے سرکاری اسکولوں نے بھی دروازوں پر شرائط کی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے؟امتحان میں خود کو برتر ثابت کرنا، مضامین کا عملی علم دینا یا پھر ایک عدد نوکری حاصل کرنا؟ نچلے طبقوں میں داخلہ بڑھانے کے لیے سرو شکشا ابھیان اور اسی طرح کی کئی اسکیمیں چلائی جارہی ہیں۔ ہر سال حکومت اپنی رپورٹ میں ’ڈراپ آؤٹ‘ کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اپنی پسند کے مضمون یا ادارے میں داخلہ نہ ملنے سے کتنے ٹیلنٹ کچل دیے گئے ہیں۔ ایم اے اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والوں میں کتنے ایسے طلباء ہیں جنہوں نے اپنی پسند کے مضامین پڑھے ہیں۔ مضمون کے انتخاب کا حق بچوں کو نہیں بلکہ اس ممتحن کو ہے جو کہ بچوں کی صلاحیتوں کا جائزہ ان کی غلطیوں کے حساب سے لے رہا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی 2020 کی دستاویز سے یہ آواز نکلتی تھی کہ مواقع میں برابری دلانے اور خلا کو کم کرنے کی بنیادی تبدیلی سے تعلیم میں بدلاؤ آجائے گا۔دستاویز میں بھی تعلیم کے مقاصد پر غور کرتے ہوئے ذرائع کی بات آگئی ہے۔ اس میں بار بار آمدنی کے اخراجات اور بجٹ کی طرف اشارے کیے گئے تھے۔ اسے پڑھ کر ذہن میں ایک سوال آسانی سے اٹھتا تھا کہ ملک کے پورے معاشی نظام کا تعین کرتے وقت ہی تعلیم کے بدلتے ڈھانچے پر غور کیا جائے گا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلے معاشی ڈھانچہ طے کیا جائے گا پھر تعلیم کا۔
آزادی کے بعد ہماری حکومتوں نے محکمہ تعلیم کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس میں اتنے تجربات کیے گئے کہ عام آدمی مسلسل کندذہن ہوتا گیا۔ ہم معیار کے لحاظ سے پیچھے چلے گئے، کوئی مقداری ترقی بھی نہیں ہوئی۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو تعلیمی نظام کا مقصد اور نصاب کے اہداف ایک دوسرے میں الجھ گئے اور غفلت کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ تعلیم ہو یا اسکول ایک سلیبس کو مکمل کرنے کی جلدی، کلاس میں بلیک بورڈ، سوالات کو حل کرنے میں الجھ کر رہ گیا۔
این سی ای آر ٹی کی طرف سے روزانہ بیان آرہے ہیں جو کہ تعلیم اور امتحانی نظام کو بدلنے کے خواب دکھا رہے ہیں۔ لیکن اس سال کی صلاحیتیں تو نمبروں کے مقابلے میں کھو گئی ہیں۔ کیا یہ لوگ اپنے پرانے تجربات سے کچھ سیکھیں گے اور بچوں کی ذہنی خوشحالی اور اپنی بالغ زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کی نشوونما کے لیے موثر اقدامات کرتے ہوئے نمبروں کی اندھی دوڑ پر قدغن لگانے کے لیے ہوش کے ناخن لیں گے؟
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 12ویں جماعت کے امتحان کو میرٹ کا سرٹیفکیٹ سمجھا جا رہا ہے، اسے پیشہ ورانہ کوچنگ کرانے والے محض ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے ہیں۔ انجینئرنگ، میڈیکل، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ،جس کسی بھی کورس میں داخلہ لینا ہو، ایک داخلہ امتحان پاس کرنا ہوگا۔ بات یہیں نہیں رکتی ہے،بچے کو 12ویں پاس کرنے کے عوض میں دیا جانے والا سرٹیفکیٹ بھی اس کی اعلیٰ تعلیم کی ضمانت نہیں دیتا ہے۔ ڈگری کالجوں میں بھی زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کی فہرست تیار ہوتی ہے اور اندازہ ہے کہ ہر سال ہائر سیکنڈری(ریاست یا مرکزی بورڈ سے) پاس کرنے والے بچوں کا 40فیصد آگے کی تعلیم سے محروم رہ جاتا ہے۔ ایسے میں امتحان کے پورے عمل اور اس کے بعد کے نتائج کو بچوں کے نظریہ سے تولنے پرکھنے کا وقت آگیا ہے۔
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS