مجرمین یکساں صور تحال میں یکساں سزا یا رعایت کے مستحق

0

خواجہ عبدالمنتقم

جیسا کہ ہم سبھی واقف ہیں، مقننہ، عدلیہ اور عاملہ جمہوریت کے تین ستون ہیں۔مقننہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا قانون بنائے جو عوام کے جذبات کی صحیح عکاسی کرتا ہو۔ عدلیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ انصاف رسانی کے معاملے میں سختی کے ساتھ اصول نصفت اور عدل و انصاف کے تمام اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تمام افراد کے ساتھ جو یکساں صورت حال میں ہوں انصاف رسانی کے معالے میں یکسانیت برتے اور اس طرح انصاف کرے کہ طالب انصاف اور تمام انصاف پسند لوگوں کو یہ اطمینان ہو جائے کہ حقیقی معنوں میں انصاف کیا گیا ہے۔ یہی نقطۂ نظر کسی جج کے اعمال و افعال کا ایک جزء لا ینفک بن جاتا ہے اور اس کو اپنے عدالتی فرائض کی بجا آوری میں رشد و ہدایت اور مشعل راہ کا کام دیتا ہے۔اسی طرح عاملہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کا ہر صیغۂ انتظامی تمام معاملات میں بشمول پالیسی سازی مکمل غیر جانبداری سے کام لے۔ اگر وہ غیر جانب داری سے کام نہیں لیتا یا اپنے اختیار تمیزی کاغلط استعمال کرتاہے تو ہمیشہ اس بات کاخدشہ بنا رہتا ہے کہ ایسا فیصلہ یا حکم عدالتی کارروائی کے بعد کالعدم نہ قرار دے دیا جائے۔مگر افسوس کبھی کبھی ایسے جانبدارانہ فیصلے لیے جاتے ہیں یا اختیار تمیزی کا استعمال من مانے ڈھنگ سے کیا جاتا ہے۔
ہمارے آئین کی دفعہ14میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ مملکت کسی کو قانون کی نظر میں مساوات یا یکساں قانونی تحفظ سے محروم نہیں کرے گی لیکن پھر بھی ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے۔اس دفعہ کے دو جز ہیں۔ پہلے جز میں ’’قانون کی نظر میں مساوات‘‘ اور دوسرے جز میں ’’یکساں قانونی تحفظ‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں جہاں تک پہلی اصطلاح یعنی قانون کی نظر میں مساوات کا سوال ہے، وہ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ سبھی لوگ بغیر کسی امتیاز کے ملک کا جو بھی قانون ہے اس کے تابع ہوں گے اور کسی بھی شخص کو خواہ اس کا کوئی بھی درجہ یا حیثیت ہو قانون کی نظر میں کوئی بالادستی حاصل نہیں ہوگی۔ اگر محمود و ایاز یا نربھیا اور بلقیس کے روبرو ایک ہی صورت حال ہے تو انہیںقانون کی نظر میں برابر سمجھا جائے گا یعنیSimilarly situated persons shall be treated equally۔عدالتیں اپنے فیصلوں میں ہو بہو اسی انگریزی جملے کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ جہاں تک دوسری اصطلاح یعنی یکساں قانونی تحفظ کی تعبیر کا سوال ہے، اس اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ یکساں حالات و واقعات کے تحت تمام افراد کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے یکساں قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں نکالا جاسکتا او رنہ ہی یہ تعبیر کی جاسکتی ہے کہ سرکار کچھ لوگوں کوبغرضِ خوشنودی تحفظ فراہم کرنے کے لیے مخصوص رعایتیں یامراعات دے اور کسی دوسرے کو اس سے محروم کر دے۔آئین کی دفعہ 14 کی واحد غرض سب کومناسب تحفظ فراہم کرکے امتیازی سلوک سے محفوظ رکھنا ہے۔ دفعہ14کی خلاف ورزی کی بے شمار نظائر موجود ہیں کیونکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیادہ تر رٹ پٹیشن اسی دفعہ کی خلاف ورزی کی بنیاد پر داخل کی جاتی ہیں۔ یہاں ان تمام نظائر کو پیش کرنا ممکن نہیں ہے لیکن یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ مندرجہ بالا دفعہ میں شامل التزام کا اطلاق،خواہ وہ سزا کی شکل میں ہو یا کسی رعایت کی شکل میں، اگران ظالموں پر بھی ہوتا ہے جنہوں نے ٹرین پر حملہ کرکے بے گناہ لوگوں کی جان لی جو بے چارے یاترا کر کے واپس آرہے تھے تواس کے ساتھ ساتھ اس کا اطلاق بے چاری بلقیس بانو پر بھی ہوتا ہے۔ ایک طرف تو سپریم کورٹ نے وشاکھا اور دیگر بنام ریاست راجستھان والے معاملے((1997) 6 ایس سی سی 241) میں پہلی بار اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ عورتوں کی عصمت کا تحفظ ان کا بنیادی حق ہے اور دوسری جانب بلقیس بانو کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا گیا اور اس کی عصمت دری کی گئی ، مجرمین کو ایک مخصوص انداز میں اختیارتمیزی کا استعمال کرکے قبل از تکمیل مدت سزا رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو دوسری جانب گودھرا ٹرین سانحہ کے مجرمین کے لیے موت کی تمنا کیوں؟ بلقیس بانو کے ساتھ جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا اور جس طرح اس پر جان لیو ا حملہ کیا گیا، اس کے ساتھ اجتماعی طور پر زنا بالجبر کیا گیا اور اس کی ڈھائی سالہ بیٹی صالحہ وخاندان کے دیگر 13افراد کو نہایت بے دردی سے ایک منظم سازش کے تحت ہلاک کردیاگیا، وہ کسی بھی صورت میں اس درندگی سے کم نہیں ہے جو گودھرا میں ٹرین کے مسافروں کے ساتھ کی گئی۔ قانون یہ نہیں دیکھتا کہ ان مجرمین کا تعلق کس مذہب، طبقہ یا کس سوچ سے تھا۔ دریں صورت دونوں صورتوں میں دونوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ اب دیکھئے سپریم کورٹ مجرمین کی سز ا میں رعایت دینے سے متعلق زیر سماعت معاملے میں کیا موقف اختیار کرتی ہے اور وشاکھا والے معاملے کے ساتھ ساتھ درج ذیل نظائر میں اپنے اظہار کردہ خیالات کو کتنا یاد رکھتی ہے اور اسے ان کا کتنا پاس ہے۔ رفیق بنام ریاست اترپردیش والے معاملے 1980)ایس سی سی 262 ) میں سپریم کورٹ نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ کوئی بھی باعزت عورت یہ الزام نہیں لگا سکتی کہ اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا گیا ہے کیونکہ ہر عورت کو اپنی عصمت سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ پرمود مہتو بنام ریاست بہار والے معاملے(1989سپلیمینٹری ایس سی سی 286 )میں اس نے کہا تھا کہ جہاں تک عورت کی عصمت اور جھوٹ بولنے کی بات ہے تو یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس پر فرقہ وارانہ یا مذہبی تعصب بھی غالب نہیں آسکتا۔ کوئی بھی عورت اپنی عزت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض فرقہ وارانہ یا مذہبی مفادات کی خاطر یہ الزام نہیں لگا سکتی کہ اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا گیا ہے، ویسے بھی کون اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ایسے واقعات پیش نہیں آتے۔ ریاست مہاراشٹر بنام چندر پرکاش کیول چند جین والے معاملے(1990) 1 ایس سی سی 550 ) میں اس نے پھر اس بات کو دہرایا ہے کہ ہر ہندوستانی عورت اپنی عزت، آبرو اور عصمت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور وہ آسانی سے ایسی کوئی بات نہیں کہہ سکتی جس سے اس کی عزت وآبرو پر منفی اثر پڑے اور دوسروں کی نظر میں اس کی عزت کم ہوجائے۔ ورکنگ ویمن فورم بنام یونین آف انڈیا والے معاملے 1995) ایس سی سی (14 میںاس نے کہا تھا کہ کسی عورت کے ساتھ زنا بالجبر سب سے زیادہ قابل مذمت ظلم ہے۔ یہ اس کی نسوانیت اور مادریت پرشدید ترین حملہ ہے اور اسے اس سے ایسا شد ید نقصان پہنچتا ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS