پروفیسرعتیق احمد فاروقی
گزشتہ برس دسہرہ کے بعد شمالی ہندمیں ہوئی بے موسم برسات نے آلودگی کے مضراثرات کو چند دنوں کیلئے کم ضرور کردیالیکن برسات جانے کے بعد سے شمال مغربی ہندمیں آلودگی کے نقصانات کو لیکر بحث شروع ہوگئی ہے۔ سردیاں شروع ہوتے ہی تقریباً پورے شمال اورمغربی ہند میں فضائی آلودگی سراٹھالیتی ہے اورپھروقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتاجاتاہے۔ آلودگی کی شروعات بھلے ہی پنجاب ،ہریانہ،راجستھان اورمغربی یوپی میں پرال جلانے سے ہوتی ہے لیکن رفتہ رفتہ اس میں دوسرے عناصر بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں برسوں سے پرال جلائی جارہی ہے ۔پندرہ بیس سال قبل تک حکومتیں پرال جلانے کوآلودگی کا سبب مانتی ہی نہیں تھیں ، لیکن جب سے سائنسی طریقے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کم ازکم شمال مغربی ہندوستان کے ایک حصے میں پرال کا دھواں آلودگی کا بڑا سبب ہے تب سے حکومتیں اسے لیکر بیدار ہوئیں۔ اس بیداری کے بعد بھی مسئلے کا تصفیہ نہیںہوپارہاہے۔
آلودگی کے سبب جوتمام نقصاندہ انجارات و گیسیں نکلتی ہیں ان کے چلتے آب وہوا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ آب وہوا میں تبدیلی سے کئی سنجیدہ مسائل جنم لے رہے ہیں:نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پورے عالم میں ۔آب وہوا میں تبدیلی کے سبب آنے والی دہائیوں میں فصلی سائیکل بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ ہندوستان خصوصاً ایک زراعت پیشہ ملک ہے اورہماری ساری زراعت مانسون پر منحصر ہے۔ یہ دیکھاجارہاہے کہ بے وقت بارش کے سبب کسانوں کو اپنی فصلی سائیکل بنائے رکھنا مشکل ہورہاہے ۔ مستقبل میں یہ مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں کیونکہ آب وہوا تبدیلی کے معاملے میں مزید اضافہ ہوسکتاہے کیونکہ آب وہوا میں تبدیلی تھمنے کانام نہیںلے رہی ہے۔ فضائی آلودگی کے سبب فصل متاثرہونے کے ساتھ اوربھی کئی مہلک اثرات رونماہوتے ہیں۔ یہ انسانی صحت پر بھی وسیع اثر ڈالتا ہے۔ آلودگی سے پیدہ شدہ امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جس طرح سگریٹ کا دھواں صحت کیلئے نقصاندہ ہے اسی طرح پرال کا دھنواں بھی بہت مہلک ثابت ہوتاہے۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پرال کو جلنے سے روکنے کیلئے مرکز اورریاستی حکومتوں کی تمام فعالیت ستمبر -اکتوبر میں ہی نظر آتی ہے۔ اس بار جب پنجاب اورہریانہ میں پرال جلنے لگی تب حکومتیں بیدا رہوئیں۔ آخر وہ مسائل کے سراُٹھانے کا انتظار کیوں کرتی ہیں اورباقی وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کیوں بیٹھی رہتی ہیں؟وقت پر بیدار نہ ہونے کے سبب پرال کو جلانے سے روکنے میں محدود کامیابی ہی ملی ہے۔ پرال کھیتوں میں نہ جلائی جائے ،اس کے متبادل تو موجود ہیں پر ان پر عمل کے معاملے میں حکومتیں کتنا ٹال مٹول کرتی ہیں یہ اس بات سے واضح ہوجاتاہے کہ پرال جلناشروع ہوجانے کے بعد مرکزی حکومت نے پرال سے پیلٹ یعنی ایک طرح کا کوئلہ بنانے کا ایک پروجیکٹ شروع کیا۔جب تک اس پر عمل درآمد ہوگا تب تک تو پرال جل چکی ہوگی۔ ہاں اگراس پروجیکٹ کو ٹھیک سے نافذ کیاجائے تو اس سال اس کا پورا فائدہ مل سکتاہے۔
یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ پرال جلانے والے کسان اوردیگر افراد آلودگی کے مضر اثرات کو اپنے مسائل نہیں مانتے۔ اوسط کسان نہ تو پرال جلانے سے ہونے والے نقصانات کی فکر کرتے ہیں اورنہ ہی گرتی آبی سطح کے بعد بھی زیادہ پانی کی مانگ والی فصلیں پیدا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ آخر اُن علاقوں میں دھان کی کھیتی کیوں ہوتی ہے جہاں اُس کی مانگ کم ہے اورکھپت نہیں ہوتی؟شاید حکومتیں ابھی تک پرال جلانے اورپانی کی زیادہ مانگ والی فصلیں پیدا کرنے سے جو مسائل کھڑے ہورہے ہیں اُن سے کسانوں کو صحیح طرح سے واقف نہیں کراسکی ہیں۔ اِسی طرح وہ عام آدمی کو آلودگی روکنے کے طورطریقے اپنانے کیلئے راغب نہیں کرسکی ہیں۔ آلودگی ایک ایسامسئلہ ہے جس کا حل تبھی نکل پائے گا جب حکومتوں کو عوام کابھی تعاون ملے گا۔ یہ بھی سمجھنا ہوگاکہ شمالی ہند میں پرال کا دھواں آلودگی کا ایک بڑا سبب ضرور ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، سڑکوں اورتعمیری جگہوں سے اڑنے والی دھول ، کارخانوں سے نکلنے والادھواں وغیرہ بھی آلودگی بڑھانے کاکام کرتے ہیں۔
شمالی ہند میں موسم سرما میں جب بھی آلودگی کی بات ہوتی ہے توسب سے پہلے پرال سب کے دماغ میں آتی ہے، لیکن گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ، سڑکوں سے اڑتی دھول اور کارخانوں سے نکلنے والے دھویں پر نسبتاً دھیان نہیںجاتا۔ دراصل اسی سبب آلودگی پر مؤثر کنٹرول نہیں ہوپاتا۔ اگریہ سوچاجارہاہے کہ صرف سزا سے پرال کو جلنے سے روکاجاسکتاہے تو یہ درست نہیں ہے۔ اِسی طرح اگر شہری علاقو ں میں نقل وحمل کو آسان بنانے کیلئے اکیلے فلائی اوور بنانے سے سڑکوں پر سوار یوں کا دباؤ کم ہوتا تودہلی یا این سی آرمیں ایسا نہ جانے کب ہوجاتا۔ یہاں لگاتار فلائی اوور اورانڈرپاس بن رہے ہیں ،لیکن آلودگی نہیں تھم رہی ہے۔ جن انجینئروں،پالیسی سازوں اور منصوبہ تیارکرنے والوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہروں کے اندر بنیادی ڈھانچوں کومزید بہتر بنائیں انہیں اوربیدار ہوناپڑے گا اورسائنسی طریقے کو اپناکر آلودگی کنٹرول کاکام کرناہوگا۔ اِس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرناچاہیے کہ شہروں میں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کی رفتار توکافی سست ہے ہی تعمیرکا روایتی طریقہ کار بھی آلودگی میں اضافہ کرنے والاہے۔ ابھی بھی پرانی تکنیک اپناکر شہروں کے بنیادی ڈھانچوں کو تعمیر کیاجارہاہے۔ اس سے بھی آلودگی میں اضافہ ہوتاہے۔
وزیراعظم نریندرمودی نے ’سوچھ بھارت ‘کا جو نعرہ اپنی پہلی مدت کار میں دیاتھا، اُسکا کچھ عرصے تک تو اثر رہا ، پر اب رفتہ رفتہ ختم ساہوگیاہے ۔ عام شہری آلودگی دورکرنے کے معاملے میں پوری طرح حکومتوں پر منحصر ہے۔ استثنا کے طور پر ہندوستان کے کچھ شہر ضرور صاف ستھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن زیادہ ترشہروںمیں دھول، دھواں اورگندگی عام طور پر دیکھی جاتی ہے۔ اگر آلودگی کے مضر اثرات سے بچناہے تو حکومت اورعوام دونوں کو اپنے حصہ کی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔چاہے پرال جلانے پر لگام لگانے کی بات ہو یا پھر شہروں کے اندر دھول اوردھویں پر کنٹرول کی،اِن سب پر بہت تیزی اور مؤثر طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]