نوٹ بندی: فیصلہ سرکار کے حق میں

0

حکومتوں کے کئی فیصلوں کی وجہ سے لوگوںکو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ فیصلے اسی لیے متنازع بن جاتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ ان فیصلوں کو متنازع ہی مانا جائے۔ عدالت کے لیے تو اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ قانون کیا کہتا ہے، قانون کے مطابق وہ فیصلہ صحیح ہے یا نہیں، اس لیے حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ حیران کن نہیں ہے۔ یوں بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ عام لوگوں کی عدالت سے جس فیصلے کی امید ہو، وہ اسی کے مطابق دے۔ عدالت بہتر جانتی ہے کہ اسے کیا فیصلہ سنانا ہے۔ عدالت عام لوگوں کی تسکین کے لیے فیصلے نہیں دیتی، قانون کا خیال کرتے ہوئے دیتی ہے۔
8نومبر، 2016کو 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور صرف 4 گھنٹے میں یہ نوٹ چلن سے باہر ہوگئے تھے تو اس پر لوگوں کا اعتراض فطری تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے لوگوں کو پرانے نوٹ بدلوانے، نئے نوٹ حاصل کرنے، اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کے لیے لمبی لمبی قطاروںمیں لگنا پڑا تھا۔ وطن عزیز ہندوستان میں زیادہ تر لوگ اَن آرگنائزڈ سیکٹر سے وابستہ ہیں، سمجھا جاتا ہے کہ نوٹ بندی کا اثر ان پر زیادہ پڑا، کیونکہ اس وقت لوگ بچت پر ایک حد سے زیادہ توجہ دینے لگے تھے۔ اس وقت حکمراں اتحاد کے لیڈروں کی طرف سے یہ دعوے کیے گئے تھے کہ حکومت کے اس قدم سے نقلی نوٹوں کو ختم کرنے میں کامیابی ملے گی، دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی، یہ ملک بدعنوانی سے پاک ہوگا۔ ایسا محسوس بھی ہوا تھا کہ بدعنوانی پر اثر پڑا ہے مگر یہ بات آج دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمارا ملک بدعنوانی سے پاک ہوگیا ہے؟ یہ دعویٰ کرنا بھی مشکل ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے دہشت گردی کے خاتمے میں کامیابی ملی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بعد میں دھیرے دھیرے حالات معمول پرآگئے، لوگوں کو بینک یا اے ٹی ایم سے رقم نکالنے میں وہ دشواری نہیں رہی جو نوٹ بندی کے فوراً بعد کے دنوں میں ہوئی تھی مگر سچ یہ بھی ہے کہ وہ حالات بے حد افراتفری والے حالات تھے، اس لیے نوٹ بندی سے لوگوں کا پریشان ہونا اور اس معاملے پر عدالتوں کا رخ کرنا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ ملک کے مختلف ہائی کورٹوں میں 58 عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ ان عرضیوں میں یہ بات کہی گئی تھی کہ ’حکومت نے آر بی آئی قانون 1934 کی دفعہ (2) 26کا استعمال کرنے میں غلطی کی ہے۔‘ سپریم کورٹ نے تمام معاملوں کی سماعت ایک ساتھ کرنے کی ہدایت دی اورآج فیصلہ سنا دیا۔
سپریم کورٹ کے نوٹ بندی کو صحیح ٹھہرانے پر یہ نہیں سوچا جانا چاہیے کہ اس نے یہ فیصلہ حکومت کے حق میں سنایا ہے بلکہ دیکھا یہ جانا چاہیے کہ کس قانون کے تحت اس نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس عبدالنذیر کی سربراہی والی پانچ ججوں کی بینچ کے خود جسٹس عبدالنذیر ، جسٹس وی راما سبرامنین، جسٹس بی آر گوئی، جسٹس اے ایس بوپنا نے نوٹ بندی کے حق میں فیصلہ کیوں سنایا اور جسٹس بی وی ناگ رتنا نے اس کے خلاف فیصلہ کیوں سنایا۔ جسٹس بی آر گوئی نے کہا کہ ’نوٹ بندی پر فیصلہ لینے کے پروسیس پر سوال نہیں اٹھائے جا سکتے، کیونکہ حکومت اور آر بی آئی نے آپسی بات چیت کے بعد یہ فیصلہ لیا تھا۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’نوٹ بندی کا مقصد حاصل کیا جا سکا یا نہیں، اس کا نوٹ بندی کے پروسیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 8 نومبر، 2016 کو لیا گیا حکومت کا فیصلہ قانوناً ٹھیک ہے۔‘ جبکہ جسٹس بی وی ناگ رتنا کا کہنا تھا کہ ’8 نومبر، 2016 کو مرکزی حکومت کی طرف سے کی گئی نوٹ بندی غیر قانونی تھی۔ اسے پارلیمنٹ میں قانون بناکر نافذ کیا جانا چاہیے تھا، گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے نہیں۔‘ اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’نوٹ بندی کا مقصد صحیح تھا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس سے حکومت بلیک منی، ٹیرر فنڈنگ پر روک لگانا چاہتی تھی، لیکن لیگل گراؤنڈ پر یہ قدم غیرقانونی ہے۔‘ اس طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت کی پانچ رکنی بینچ نے اکثریت سے نوٹ بندی کو صحیح ٹھہرانے والا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نوٹ بندی کے نفع نقصان پر بحث و مباحثے کا سلسلہ بھی کیا ختم ہو جائے گا؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینا فی الوقت مشکل ہے مگر اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات یا 2024 کے لوک سبھا انتخابات کی تشہیر میں اگر نوٹ بندی کا ذکر چھڑتا ہے تو اس سے حکمراں جماعت کو نقصان کا اندیشہ نہیں رہے گا، کیونکہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں جواب دینا اس کے لیے آسان ہوگا۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS