مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی!

0

عمیر انس

آپ مسلمانوں کی سبھی نمائندہ جماعتوں اور تنظیموں کے جلسے جلوس میں شرکت کرکے آئیں اور اگر ممکن ہو تو انہی جماعتوں کے بلکہ انہی مقررین کی دس، بیس، تیس سال پرانی تقریروں اور جلسوں کو بھی سنیں، آپ اس کی بنیاد پر اپنے مشاہدے پوری غیر جانبداری سے نوٹ کریں، ان تقاریر میں کیا اہم ہے، کیا کم اہم ہے، کیا قابل عمل ہے، کیا محض جذباتی باتیں ہیں، کیا اس میں ترجیحات کے اعتبار سے سب سے ضروری اور کم ضروری میں فرق ملحوظ رکھا جا رہا ہے؟ کیا ان میں عملی کام کرنے کا کوئی مشن بھی دیا جا رہا ہے؟ کیا ان میں ترجیحات کو حاصل کرنے کی حکمت عملی بھی ظاہر ہو رہی ہے۔اگر آپ کسی تنظیم کی کسی مخصوص شخصیت یا کسی ادارے سے گہری وابستگی رکھتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ان سوالات پر اپنی تنظیموں میں ہونے والی تقریروں اور گفتگو کا جائزہ لینے کی آپ کو کوئی ضرورت محسوس نہ ہوتی ہو لیکن وہ لوگ جو اس قسم کی وابستگیاں نہیں رکھنا چاہتے اور اس کے بغیر ہی کام کررہے ہیں، آپ ان سے اپنے کاموں کا جائزہ کروائیں تو شاید آپ کو زیادہ نئے پہلوؤں پر دیکھنے کا موقع ملے گا۔
اب مثال کے طور پر مسلمانوں کے بنیادی مسائل اور ضرورتوں اور ترجیحات کے اعتبار سے اگر کوئی فہرست بنائی جائے تو شاید اس میں سب سے پہلی سطح پر مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی سب سے بڑا چیلنج قرار پائے گی۔ سیاسی بے وزنی کا مطلب پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلمان ممبران کے زیادہ کم ہونا نہیں ہے، نہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس کتنی سیاسی جماعتیں ہیں یا نہیں یا کتنے مسلمان ملکی اور ریاستی سطح پر سیاسی طور پر نمایاں ہیں، سیاسی وزن ہونے کا سب سے جمہوری مفہوم یہ ہے کہ کیا مسلمان شہریوں کو اپنے حقوق اور اختیارات کو حاصل کرنے میں غیر مسلم شہریوں کے مقابلے میں کیا اتنی ہی ہمدردی، اتنی ہی توجہ، اُتنی ہی برابری محسوس ہوتی ہے یا نہیں؟ مثلاً کسی حادثے میں پانچ ہندو جاں بحق ہوگئے اور کسی حادثے میں پانچ مسلمان شہری فوت ہو گئے تو کیا ہماری انتظامیہ، سیاسی طبقہ برابر کا افسوس کرتے ہیں یا مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ان کے سر پر کوئی سایہ ہی نہیں ہے، سیاسی بے وزنی یہ ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کی تصویر ملک کے معروف سیاسی رہنماؤں میں عزت اور احترام سے لی جائے اور اس کے لیے مسلمانوں کو مہم نہ چلانی پڑے، سیاسی بے وزنی یہ ہے کہ ایک معمولی ایف آئی آر کے لیے، اسکالرشپ کے لیے، آپ کو زمین آسمان کی مہم چلانی پڑے! خیر سے میرے نزدیک کسی جمہوری انتظامیہ اور جمہوری سیاست کے لیے یہ بات سب سے زیادہ تشویش کی بات ہونی چاہیے، لیکن اگر آپ مسلمانوں کی تقریروں کو سننے کے عادی ہیں تو آپ کو محسوس ہوگا ان کے یہاں یہ بات محض چلتے چلتے ہی ذکر میں آتی ہے۔تو ظاہر ہے کہ ملت کا اتحاد اور اجتماعی غور و فکر کے لیے کوئی مضبوط مشترکہ وجہ ہے ہی نہیں۔
مسلمانوں کے مسائل، ضرورتوں اور ترجیحات میں پہلی سطح پر اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے فروغ کی ضرورت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے، کیونکہ اسی سے وابستہ تیسری سب سے اہم ترجیح معاشی ترقی اور غربت کا خاتمہ ہے۔آپ مسلمانوں کے محلوں میں بلکہ امیر ترین مسلمانوں کے محلوں میں جائیں اور غریب ہندوؤں کے محلوں میں جائیں اور فرق کو محسوس کریں، بہت واضح فرق ہے۔مسلمان محلوں میں اسکولوں کی کمی، کوچنگ کی کمی، اچھے ٹیوٹرس کی کمی بہت صاف نظر آئے گی، لیکن آپ مسلم رہنماؤں کی دو چار سالوں کی تقریروں کو ایک جگہ مرتب کر کے تعلیمی مسائل اور معاشی مسائل پر ان کی توجہ کو نوٹ کریں۔آپ کو لگے گا مسلمانوں میں غربت جیسا کوئی مسئلہ پایا ہی نہیں جاتا۔
مسلمانوں کے مسائل میں اولین ترجیح میں جگہ پانے کے لائق موضوعات میں سے پولیس انتظامیہ اور عدلیہ کا مسلمان شہریوں کے تئیں بے حس ہونا بلکہ مسلم مخالف ہونا بھی ہے۔ کسی ملک کی پولیس کا نظم اگر وہاں کی ایک بڑی آبادی کے تئیں نفرت اور بے حسی کے جذبات کا اظہار کر رہا ہو تو یہ بات اس ملک کی جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس محاذ پر کام کرنے کے لیے محض تقریر، پریس بیانات ناکافی ہیں، بہت سے لوگ نفرت بھرے بیانات کو بہت زیادہ تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ زیادہ اہم نہیں ہے کیونکہ نفرت انگیز بیانات دینے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے والے، اس کے لیے سیاسی پناہ دینے والے، پولیس کے عمل سے اس کو تحفظ دلانے والے زیادہ قابل گرفت ہیں۔لیکن یہ موضوع بھی ملک کے ملی رہنماؤں کے خطابات، بیانات اور ان کی حکمت عملی میں برائے نام ہی ظاہر ہوتا ہے، اگر مسلمانوں کی کوئی سب سے اہم پانچ ترجیحات ایک بار عوامی مباحثے میں مقبول ہوجائیں تو ایک نئی عوامی بیداری کی اُمید کی جاسکتی ہے۔کئی بار آپ کو محسوس ہوگا کہ مسلم عوام کو جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کرنا، احتجاج کی سیاست کرنا، مطالبوں کے لیے عوامی پریشر بنانے والے سارے کام کرنے سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، مثلاً آپ کے محلے میں مہینوں اور سالوں سے کوڑا اٹھانے کا مسئلہ ہو یا اسپتال نہیں ہونے کا مسئلہ ہو، ان مسائل کے لیے غیرمسلم عوام خوب احتجاج کرتے ہیں اور اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سیاسی قیادت کے ابھرنے اور سیاسی طور طریقے سیکھنے کا سب سے بڑا مدرسہ یہی عوامی سرگرمیاں ہیں۔ آپ سوچیں کہ مسلمانوں کی جتنی بھی ناقابل برداشت والی ریڈ لائنز تھیں، انہیں ایک ایک کرکے منہدم کیا جا چکا ہے لیکن مسلم عوام کا ردعمل بالکل نارمل ہے یہاں تک کہ اعظم خان جیسے قد آور رہنماؤں پر زیادتی کے بعد بھی کوئی احتجاجی سیاست نہیں ہوئی کیونکہ مسلم عوام میں اس سیاست کے لیے زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔ عوام کو طاقتور بنانا، عوامی طاقت پیدا کرنا، عوام کے ذریعہ اپنے جمہوری مطالبات کے لیے سازگار ماحول بنانے کی پہلی شرط ہے، جہاں مسلم سیاست ناکام ہے اور نتیجے کے طور پر عوامی طاقت سے حاصل ہونے والے مطالبات بھی حاشیہ پر ہیں۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS