صبیح احمد
جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں، سیاسی ہلچل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے سیاسی مقابلے کا فائنل تو اگلے سال ہے، لیکن سیمی فائنل اسی سال کے اواخر میں ہونے جا رہا ہے۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن سے قبل 2023 میں ہی کئی ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے جا رہے ہیں جس کااعلان جلد ہی ہونے والا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ اسی ہفتہ 2 روز قبل وزیراعظم مودی نے جہاں اپنے یوم پیدائش پر کئی سرکاری پروگراموں کا تڑکا لگا کر ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی، وہیں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی اہم ترین فریق کانگریس پارٹی نے اپنی پالیسی ساز کمیٹی ’کانگریس ورکنگ کمیٹی‘ (سی ڈبلیو سی) کا انعقاد تلنگانہ کی راجدھانی حیدرآباد میں منعقد کر کے اپنی جیت کا سلسلہ جنوبی ہند کی ریاستوں سے جاری رکھنے کا واضح پیغام دے دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے زیر قیادت بی جے پی حکومت کو دستکاروں اور غریب فن کاروں کا خیال 10 سال بعد اور وہ بھی انتخابات کے عین قبل آیا ہے۔ چلئے، کم از کم یاد تو آئی ہے! ان اسکیموں کا کیا حشر ہونے والا ہے، اس کا اندازہ الیکشن سے قبل اعلان کردہ اسی طرح کی اسکیموں کی جو حالت ہوئی ہے، اسی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بہرحال جمہوریت کی یہی خوبصورتی ہے۔ جس طرح سب کو اپنے حساب سے اور اپنے صوابدید سے سننے و سنانے اور وعدہ و دعویٰ کرنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح ان وعدوں اور دعوؤں کو قبول یا مسترد کرنے کا بھی اختیار ہے۔ حتمی فیصلہ ووٹروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
بدلے ہوئے سیاسی حالات میں بی جے پی اب ریورس گیئر لگانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ وہ اب اپنے روایتی ووٹ بینک پر توجہ مرکوز کرنے لگی ہے۔ اس بات کا اشارہ حال ہی میں بڑے پیمانے پر اترپردیش کے ضلع صدور کی تبدیلی سے ملتا ہے۔ گزشتہ 2 لوک سبھا انتخابات کے بعد سے او بی سی برادری بی جے پی کا بنیادی ووٹ بینک بن گئی ہے۔ بی جے پی نے 2014 میں نریندر مودی کے چہرے کو سامنے رکھ کر او بی سی ووٹوں کا اعتماد جیتنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اپنا ایک مضبوط ووٹ بینک بنایا ہے۔ دراصل کانگریس کی عدم توجہی کے شکار دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کو آسانی سے اپنی طرف مائل کر کے اقتدار تک پہنچنے کے بعدبی جے پی کو لگنے لگا ہے کہ ان کا روایتی ووٹ شاید اس سے اب دور جانے لگا ہے۔ اس کا احساس اسے ہماچل پردیش اور خاص طور پر کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج سے شدت کے ساتھ ہونے لگا ہے۔ پہلے بی جے پی اپنے روایتی ووٹ بینک سے کافی مطمئن تھی۔ اور جو بھی تھوڑی بہت کمی رہ گئی تھی یا کمی ہونے والی تھی، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اسے نئے ووٹروں کی تلاش تھی۔ اس لیے جنوبی ہند کے ووٹروں کے ساتھ ساتھ حالیہ کچھ دنوں سے ’پسماندہ مسلمانوں‘ پر کافی مہربان ہونے لگی تھی۔ لیکن گزشتہ اسمبلی انتخابات بالخصوص کرناٹک کے نتائج نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ادھر رواں سال کے اواخر میں جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، وہاں سے بھی داخلی رپورٹیں اچھی نہیں آ رہی ہیں۔ اسی لیے اب اسے 2024 کے لوک سبھا الیکشن کے لیے پھر سے اپنے روایتی ووٹ بینک پر بھروسہ کرنے کے سوائے اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ لوک سبھا انتخابات میں چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں، اتر پردیش میں بی جے پی نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے تنظیمی سطح پر بڑے پیمانے پر پھیر بدل کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی نے 98 نئے ضلع صدور کی تقرری کی ہے جن میں 69 ضلع صدور نئے ہیں۔ یعنی صرف 29 پرانے ضلع صدور پر ہی داؤ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے مدنظر سماجی اور علاقائی توازن بناتے ہوئے یہ تقرریاں کی گئی ہیں۔ حالانکہ اس میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے۔ محض 5 خواتین کو ہی ضلع صدر بنایا گیا ہے۔ اس تنظیمی پھیر بدل میں واضح طور پر انتخابی تیاری کے تحت سوشل انجینئرنگ کی جھلک بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ان لوگوں کو عہدہ سے ہٹایا گیا ہے جن کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی ہے۔ پارٹی کی دیرینہ پالیسی کے تحت جیتنے والے یا جتانے والے عہدیداروں کو ہی موقع دیا گیا ہے۔
کانگریس نے بھی آر پار کی لڑائی کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اسی ہفتہ حیدر آباد میں ہونے والی کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کے زیر قیادت سی ڈبلیو سی کی میٹنگ میں راہل اور سونیا سمیت تمام سینئر لیڈر آئندہ لوک سبھا الیکشن میں سنجیدگی سے خم ٹھونکنے کے موڈ میں نظر آئے۔ کانگریس نے اپنی حکمت عملی میں بھی بڑی تبدیلی کی ہے۔ بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کی کوشش کے تحت ریزرویشن کی حد 50 فیصد سے بڑھانے اور ذات پر مبنی مردم شماری کرانے جیسے فیصلے کیے ہیں۔ درحقیقت منڈل کمیشن، رام مندر تحریک اور کانشی رام کی دلت سیاست نے کانگریس کی جڑیں کھود کر رکھ دی ہیں۔ جڑوں کی پھر سے آبیاری کر کے کونپل نکالنے کی کوشش کے تحت کانگریس وزیراعظم مودی کے فارمولے کا ہی استعمال کرتے ہوئے بی جے پی کو شکست دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس کے تحت کانگریس اب دلت، قبائلی اور اقلیتی برادریوں کو ساتھ لے کر او بی سی ووٹوں کو مضبوط کرنے کے لیے بلیوپرنٹ تیار کر رہی ہے۔ راہل گاندھی نے کرناٹک کے کولار میں ایک ریلی میں ’جتنی تعداد ، اتنا حصہ‘ کا نعرہ دیا تھا۔ پارٹی اس سلسلے میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔
آزادی کے بعد کانگریس کا روایتی ووٹ بینک دلت-مسلم-برہمن ہوا کرتا تھا۔ کانگریس طویل عرصہ سے اسی کی بنیاد پر سیاست کرتی رہی ہے۔ او بی سی زمرہ کی تمام ذاتیں کانگریس کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔ منڈل کمیشن کے بعد ملک کی سیاست پوری طرح سے بدل گئی اور او بی سی پر مبنی سیاست کرنے والے لیڈر ابھرے جن میں ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو، نتیش کمار، شرد یادو جیسے مضبوط علاقائی لیڈر تھے۔ او بی سی کی سیاست ان لیڈروں کے گرد ہی محدود رہی اور کانگریس آہستہ آہستہ سیاسی حاشیہ پر پہنچ گئی۔ رام مندر تحریک اور کانشی رام کی دلت سیاست نے کانگریس کے سیاسی کھیل کو مزید خراب کر دیا۔ مسلم سے لے کر دلت اور برہمن ووٹر بھی پھسل گئے۔ او بی سی ووٹوں کی اسی سیاسی طاقت کے مدنظر کانگریس نے اب نہ صرف او بی سی ووٹوں پر توجہ مرکوز کی ہے بلکہ اس حوالے سے جارحانہ سیاست بھی شروع کر دی ہے۔ اشوک گہلوت کو راجستھان، بھوپیش بگھیل کو چھتیس گڑھ اور سدارمیا کو کرناٹک میں وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ اس طرح کانگریس نے 4 میں سے 3 ریاستوں میں او بی سی کمیونٹی سے وزیراعلیٰ مقرر کیا ہے۔ کانگریس کے 85ویں اجلاس میں پالیسی میں بڑی تبدیلی کی گئی۔ کانگریس نے سماجی انصاف اور ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک قرارداد پاس کی۔ او بی سی کا اعتماد جیتنے کے لیے ہی کانگریس نے اپنی پالیسیوں میں ایک بڑی تبدیلی کرتے ہوئے پارٹی تنظیم میں بلاک کمیٹی سے لے کر سی ڈبلیو سی تک 50 فیصد اراکین کو دلت، او بی سی،اقلیتی اور قبائلی برادریوں سے بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کانگریس کی یہ حکمت عملی کس حد تک اس کے کام آتی ہے، یہ آئندہ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے ہی پتہ چل پائے گا۔
[email protected]