دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا

0

ایم اے کنول جعفری

زندہ رہنے کے لیے ہوا میں شامل آکسیجن انسان کی پہلی بنیادی ضرورت ہے،تودوسری اہم ضرورت پانی ہے۔ ان کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے۔ پانی ہماری پیاس بجھانے کے علاوہ دیگر مختلف کاموں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ افراد کے گھروں میں لگاتار پانی بہنے کے سبب پانی برباد ہوتا ہے،تو دنیا بھر میں ایک بڑی آبادی تک پینے کے صاف پانی کی رسائی نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا بھر میں ہر چار میں سے ایک شخص پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ پانی کی طلب میں اضافہ، دن بہ دن بڑھتی مانگ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پانی کے شدید بحران کی بنا پر دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی پانی کی زبردست قلت سے دوچار ہے۔ ’پانی کا بحران‘ اصطلاح سے مراد پانی کے وسائل بمقابلہ انسانی مانگ ہے۔ اس کا اطلاق اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے کیا ہے۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں پینے کے قابل تازہ پانی کی کمی ہے۔ آبادی اور فی کس استعمال میں اضافے اور عالمی حدت کی بنا پر بہت سے ممالک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ(ڈبلیو آر آئی) کی نئی رپورٹ کے مطابق پانی کی طلب بڑھنے کی بنا پر تمام دستیاب وسائل استعمال کرنے سے پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا کی 25فیصد آبادی کی نمائندگی کرنے والے25ممالک کو ہر برس پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پانی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں بحرین، قبرص، کویت، لبنان اور عمان شامل ہیں۔ ان ممالک میں تھوڑی سی مدت کے لیے بھی خشک سالی ہونے سے پانی کی دستیابی ناممکن حد تک بڑھ کر شدید بحران پیدا کر دیتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی ہماری زمین کا اہم ترین خزانہ ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ زندگی کی بقا کے لیے اس خزانے کی اہمیت کے مطابق انتظامات نہیںکیے جانے سے کئی قسم کی دقتوں کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ 1960 کے بعد سے اب تک پانی کی طلب میں دوگنے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اتنے پر ہی بس نہیں، 2050تک اس طلب میں مزید 20 سے 25فیصد اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
پانی کی طلب میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں آبادی میں تیزی سے اضافہ اور صنعتوں میں پانی کا بڑی مقدار میں استعمال شامل ہیں۔ دوسری جانب پانی کے استعمال کے لیے تیار کی جانے والی پالیسیاں غیرمستحکم تو ہیںہی،انفرااسٹرکچر پر سرمایہ کاری کا بھی فقدان ہے۔ رپورٹ میںمشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو دنیا میں پانی کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر خطے بتایا گیا ہے۔ رواں صدی کے وسط میں تمام آبادی کے پانی کی قلت سے متاثر ہونے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اُدھر شمالی امریکہ اور یوروپ میں پانی کے صحیح استعمال کے لیے کیے گئے مؤثر اقدامات پر سرمایہ کاری کیے جانے سے پانی کی طلب میں کمی درج کی گئی ہے۔ یہ بات سو فیصدی صحیح ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو پانی کی کمی سے متاثر ہونا پڑرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث خشک سالی اور گرم لہروں کی شدت کی بنا پرپانی کی سپلائی کے ذرائع پر مرتب غیر مثبت اثرات نے حالات کو بد سے بدتربنا دیا ہے۔مستقبل قریب میں ان حالات سے لوگوں کا بچ پانا ناممکن نہیںتو مشکل ضرور ہوجائے گا۔ رپورٹ میں انتباہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر دنیا کسی طرح عالمی درجہ حرارت کو صنعتی عہد سے پہلے کے مقابلے میں 1.3 سے 2.4ڈگری سیلسیس اضافے تک محدود بھی کرلے تو بھی ایک اَرب لوگوں کو 2050تک پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالات سے مقابلہ اور صورت حال کو بہتر بنانے کے مقصد سے کچھ حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ ان میں کسانوں کوآبپاشی کے مؤثر طریقے اپنانے کے لیے تیار کیا جانا، جنگلات اور دل دل والے علاقوں کو مکمل طور پر محفوظ یا بحال کیا جانا اور پالیسی سازوں کو پانی کے کم انحصار والے توانائی کے ذرائع پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سنگا پور اورلاس ویگاس میں اس حوالے سے اپنائی گئی پالیسیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر اس طرح کے اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان سمیت دنیا بھر کے25ممالک میں پانی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں،جن میںپانی کی سپلائی کا80فیصد سے زیادہ حصہ استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ان ممالک میں گرمی کے موسم میں ہی پانی کا بحران پیدا نہیں ہوتا،بلکہ پورے سال پانی کی کمی برقرار رہتی ہے۔ پانی کی لگاتار ہورہی کمی ان ممالک کے لوگوں کی زندگی، روزگار، خوراک کی فراہمی، زراعت، صنعتوں اور توانائی کے تحفظ کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ یہ بات ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ(ڈبلیو آر آئی) کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایکویڈکٹ واٹر رسک ایٹلس کے تازہ ترین اعداد و شمار میں سامنے آئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ 25ممالک دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کی مستقل رہائش گاہ ہیں۔ ان میں کچھ ایسے علاقے بھی شامل ہیں، جہاں قدرتی آفات یا شدید بارش کی وجہ سے پانی کی تقسیم کا نظام بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ علاقائی طور پر پانی کے بحران کی صورت حال مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سب سے زیادہ سنگین ہے۔ اس خطے میں 83فیصد آبادی پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں تقریباً 74 فیصد آبادی پانی کے بحران کا شکار ہے۔1960کی دہائی کے مقابلے اس وقت پانی کی طلب دوگنی ہوگئی ہے۔اس کے لیے کہیں نہ کہیں بڑھتی آبادی، صنعت، زراعت، مویشی، توانائی کی پیداوار،تعمیرات اور آب و ہوا میں تبدیلی جیسی وجوہات ذمہ دار ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 400کروڑ آبادی کو ہر سال ایک مہینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہم گلوبل وارمنگ کو 1.3ڈگری سیلسیس سے2.4ڈگری سیلسیس کے درمیان محدود کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی2050تک100کروڑ اضافی لوگ اس سنگین بحران کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اتنا ہی نہیں پانی کا بحران عالمی معیشت کو بھی متاثر کرے گا۔ ایک اندازے کے مطابق2050تک تقریباً 5,818.9 لاکھ کروڑ روپے کی معیشت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر پانی کے انتظام کی پالیسیوں میں بہتری نہ لائی گئی تو بھارت،چین اور وسطی ایشیا کو27برسوں میں اپنی جی ڈی پی کے7سے12 فیصد حصے کے برابر معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ قابل استعمال پانی کے تحفظ کے لیے پانی کی مستقل فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں تک بھی پینے کے پانی کی رسائی ممکن ہوسکے۔ دنیا بھر میں واٹر چیریٹی، کلین واٹر فنڈ، گلوبل واٹر چیلنج، گلوبل واٹر لیڈر، پیپسی-کو، دی نیچرل کنزروینسی، اسٹاک ہوم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ،ورلڈ واٹر ویک آف اسٹاک ہوم،واٹر فولیو آف ورلڈ بینک،ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ، ورلڈ واٹر کونسل اورورلڈ وائلڈ لائف فنڈ سمیت کئی سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو بیدار کرکے اُن میں شعور پیدا کر رہی ہیں، تاکہ عالمی سطح پر پینے کے صاف پانی کی محفوظ فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اگرہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہر سال گندہ پانی پینے سے لقمہ اجل بننے والے بچوں کو بچانا ممکن ہوسکے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس نعمت عظمیٰ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش سے آنے والی نسلوں کوصاف اور محفوظ پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS