تقسیم ہند سانحہ یادگاری دن میںپنہاں سیاسی مفاد

0

ایم اے کنول جعفری
ملک کی سیاسی اعلیٰ قیادت اور انگریزوں کے درمیان مذاکرات کے اختتام پر دو قومی نظریہ پر مہر لگاتے ہوئے 14 اگست 1947کو الگ مملکت کی منظوری کے ساتھ پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا ۔ بھارت کی آزادی کے اعلان کے وقت گھڑی کی سوئی رات بارہ بجے سے تجاوز کر چکی تھی۔اس لیے ہندوستان کی آزادی کا دن 15اگست قرار پایا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ہر سال آزادی کا جشن 15 اگست اور پاکستان میں ایک روز پہلے 14اگست کو منایا جاتا ہے۔ ساڑھے 7 دہائی کا سفر طے کرنے کے بعد ملک بھر میں آزادی کا امرت مہوتسوانتہائی مسرت، جوش و خروش اور عقیدت کے ساتھ منایا گیا۔ اس یادگار جشن کے انعقاد کے لیے سال بھر سے تیاریاں چل رہی تھیں۔ مادر وطن کے لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ شہریوں کی خوشی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بغیر تفریق مذہب و ملت اپنے گھروں پر قومی پرچم لگائے اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ ریلیاں نکال کر عقیدت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب اسکولوں،سرکاری ونیم سرکاری دفاتر اوربینکوں کے علاوہ نجی بائیکوں، گاڑیوں،رہائشی مکانوں اور دکانوں پر ترنگے جھنڈے لگا کر ’ہر گھر ترنگا‘ کے نعرے کو عملی جامہ پہنایا گیا۔مسلمانوں کی سب سے بڑی دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے علمائے کرام کے ساتھ مدارس،مکاتب اور خانقاہوں کی جانب سے قومی پرچم ہاتھ میں لے کر ریلیاں نکالی گئیں۔ایسے خوش گوار ماحول میں تقسیم ہند کے سانحہ کو یادگاری دن کے طور پر مناتے ہوئے’خاموش جلوس‘ اور مجلسوں کے انعقاد سے ماحول میں کشیدگی پیدا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اس سے انسانی اذہان میں یہ خیال آنا لازمی ہے کہ تقسیم ہند سانحہ یادگاری دن کی منانے کے پیچھے کہیںسیاسی مفاد تو نہیں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی سرکار نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ تقسیم کا سانحہ برداشت کرنے والوں کی یاد میں ہرسال14اگست کووبھاجن وبھیشکا اسمرتی دیوس(تقسیم ہند سانحہ یادگاری دن) کے طور پر منایا جائے گا۔1947میں بھارت کی تقسیم کے بعد پاکستان وجود میں آیا تھا۔ تقسیم کے دوران جہاں لاکھوں لوگ موت کا شکار ہوئے تھے، وہیں بے شمار لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا۔ اس غیر انسانی سانحے میں مرنے والے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیاجایا کرے گا۔ آزادی کے جشن سے ایک روز قبل بی جے پی کی مرکزی حکومت اور صوبائی سرکاروں کے ذریعہ تقسیم ہند سانحہ یادگاری دن زبردست طریقے سے عقیدت کے ساتھ منایا گیا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی سے متعلق دیگر زعفرانی اداروں نے ضلع ، تحصیل، بلاک شہر اور دیہی سطح پر تقسیمِ ہندسانحہ یادگاری دن منایا۔ اس موقع پر ملک کے بٹوارے کے دوران سرحد کے آرپار ہوئی خونی وارداتوں کو یادکرتے ہوئے نئی نسل کو سانحے میں ہوئے جان مال کے نقصانات سے واقف کرایا گیا۔ صدر محترمہ دروپدی مرمو نے یوم آزادی سے ماقبل شام قوم سے اپنے خطاب میں تقسیم ہند سانحہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 14اگست کے دن کو’ تقسیم ہند سانحہ یادگاری دن‘ کے طور پر منا یا جا رہا ہے ۔ اس ہولناک یادگاری دن کو منانے کا مقصد سماجی ہم آہنگی، انسانی طاقت، افراد کو بااختیار بنانا اور اتحاد کو فروغ دینا ہے۔بی جے پی کے قومی صدر جے پرکاش نڈا کی قیادت میں جنتر منتر سے خاموش جلوس نکالا گیا۔ نڈا نے یاد دلایا کہ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ کس طرح اپنے مفاد کی سیاست نے تقسیم اور درد کو جنم دیا۔وزیراعظم نریندر مودی نے تقسیم ہند سانحہ یادگاری دن پربٹوارے کے دوران جان گنوانے والے سبھی لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور تاریخ کے اس سانحہ کو جھیلنے والوں کے صبر اور ہمت کی تعریف کی۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے تقسیم ہند سانحہ سے دوچار ہونے والے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے اس غیر انسانی باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تقسیم کے جبروتشدد اور نفرت نے لاکھوں لوگوں کی جان لے لی اور بے شمار لوگوں کو گھر سے بے گھر کیا۔ ’ وبھاجن وبھیشکا اسمرتی دیوس‘ نئی نسل کو ملک کے عوام کے ذریعہ برداشت کئے گئے تشدد اور درد کی یاد توکرائے گاہی، ملک کے لوگوں کو ہمیشہ امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے بیدار کرتا رہے گا۔
تقسیم ہند یادگاری دن کے موقع پر بی جے پی نے سات منٹ کا ویڈیو جاری کر بٹوارے کے لیے خاص طور پرپنڈت جواہر لعل نہرو اور کمیونسٹوں کو ذمہ داربتاتے ہوئے ان پر مسلم لیگ کے پاکستان بنانے کے مطالبے کے آگے جھکنے کا الزام لگایا۔دوسری جانب کانگریس کے میڈیا انچارج جے رام رمیش نے 14اگست کو تقسیم ہند کی زیادتیوں کے یادگاری دن کے طور پر منانے کے پیچھے وزیر اعظم کا اصل مقصد انتہائی تکلیف دہ تاریخی واقعات کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا بتایا۔ کہا کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی فطرت ہے کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے ہر موقع کاا ستعمال کرتے ہیں۔اسی ضمن میں وہ تقسیم ہند سانحہ کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے تقسیم کی زیادتیوں کا یادگاری دن’وبھیشکا اسمرتی دیوس‘ مناکر سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سانحے میںجہاں لاکھوں لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا وہیں لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ ان کی قربانیوں کو فراموش نہ کیا جائے اور نہ ان کی تذلیل کی جائے۔ نفرت اور تعصب کو ہوا دینے کے لیے ملک کی تقسیم کے سانحے کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ سچ یہ ہے کہ ویر ساورکر نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا اور محمد علی جناح نے اسے آگے بڑھایا۔سردار پٹیل کو لگا کہ اگر تقسیم کو قبول نہ کیا گیا تو ہندوستان کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ کانگریس کے ترجمان نے سوال کیا کہ کیا آج وزیر اعظم جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کو بھی یاد کریں گے، جنھوں نے سرت چندر بوس کی مرضی کے خلاف بنگال کی تقسیم کی حمایت کی اور آزاد ہندوستان کی پہلی کابینہ میںاُس وقت شمولیت اختیار کی، جب تقسیم ہند کے دردناک نتائج واضح شکل میں سامنے آرہے تھے۔
دراصل،ملک کی تقسیم اور تقسیم کے بعدپیدا ہونے والے مسائل کے لیے کچھ غیر مسلم مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اَن کا کہنا ہے کہ جب مسلمانوں نے تقسیم کراکر الگ ملک حاصل کرلیا،تو اُنھیں پاکستان چلے جانا چاہئے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان ملک کی تقسیم اورمذہب کی بنیاد پر نیا ملک چاہتے تھے،وہ پاکستان چلے گئے اور جنھوں نے اپنے عزیز وطن ہندوستان میں رہنا اور مرنے کے بعد یہیں کی مٹی میں دفن ہوناپسند کیا وہ یہیں رہ گئے۔تاریخ کے اوراق میں درج تحریر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تقسیم ہند کے لیے مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو دونوں کو ذمہ دار مانتے ہیں،تو کچھ دیگر افراد گاندھی جی کو تقسیم سے الگ رکھتے ہوئے اس کا ذمہ دارپنڈت نہرو کوبتاتے ہیں ۔حالانکہ، گاندھی جی نے ملک کے تقسیم کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ تقسیم میری لاش پر ہوگی،لیکن بعد میں وہ بھی بٹوارے پر راضی ہو گئے۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گاندھی جی ملک کی تقسیم روکنے کے لیے محمد علی جناح کو بھارت کا وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے، لیکن اس کے لیے سردار پٹیل راضی نہیں ہوئے۔ تاریخ کے صفحات پر یہ بھی درج ہے کہ کانگریس تقسیم چاہتی تھی،جبکہ محمد علی جناح خلاف تھے۔ خیر کچھ بھی ہو لیکن اتنا طے ہے کہ ہندوستان کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے محمد علی جناح، جواہر لعل نہرو، مہاتماگاندھی، سردار پٹیل ،مولانا آزاد اور پھوٹ ڈال کر ہندوستان پر راج کرنے والے انگریزاہم کردار میں تھے۔ 1940میں لاہور میں الگ پاکستان کی قرارداد کو منظور کیا گیا۔ کئی رہنما ملک کی تقسیم کے حق میں تھے،تو کئی مخالفت کر رہے تھے۔ اس پیچیدہ مسئلہ کے حل کے لیے 24 مارچ 1946 کو انگلینڈ سے کیبنٹ مشن بھارت آیا۔ سربراہ لارینس سکریٹری آف اسٹیٹ انڈیا مشن نے کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈران سے بات کر ان کا موقف جانا۔
15اپریل1946کو کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد نے پارٹی کے مشورے سے تقسیم ہند کو نقصان دہ بتاتے ہوئے ملک کے تین زونس بنانے کی تجویز پیش کی۔ ہندو اکثریت کے صوبے بمبئی ،سی پی،یوپی اوربہار کو زون’اے‘، مغربی سرحد کے مسلم اکثریت والے صوبے پنجاب، سندھ، بلوچستان کو زون’بی‘ اور بنگال و آسام کو زون ’سی‘ میں رکھا گیا تھا۔ انھیں10برس تک اپنے اپنے زون میں رہنے کی پابندی کے ساتھ اپنا الگ آئین بنانے کی چھوٹ دی گئی تھی۔آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے اسے منظور کر لیا۔
مسلم لیگ نے مطالبہ پاکستان چھوڑ کر کیبنٹ پلان کو منظور کیا۔آزاد کے بعد کانگریس کے نئے صدر جواہر لعل نہرو نے بمبئی میں پریس کانفرس میں کہا کہ کانگریس خود کو اس بات کے لیے آزاد سمجھتی ہے کہ کیبنٹ پلان کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرے۔ جناح نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پلان پر نظر ثانی کی بات کی۔ اسی تکرار کے ساتھ کیبنٹ مشن پلان ناکام ہو گیا۔ 16اگست 1946کو مسلم لیگ کے ڈائرکٹ ایکشن پلان کے اعلان کے بعد ملک میں مظاہرے اور فسادات شروع ہوگئے۔تقسیم ملک کے بعد سرحد کے دونوں طرف خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ،تو پاکستان میں ہندوؤں کو مارا گیا۔لوٹ مار، قتل و غارت گری شباب پر تھی۔ مہاجروں کی دونوں جانب سے نقل مکانی کرانے والی گاڑیاں لاشوں سے بھری تھیں۔
آزادی کی پون صدی گزرنے کے بعد بھی ملک میں آبادی، غریبی،بے روزگاری،غذائی قلت، بدعنوانی، استحصال اطفال،آبروریزی، جنسی تفریق اور نابرابری جیسے کئی مسائل موجود ہیں۔ ان کے حل کے بجائے تقسیم ہند کے بعددل دہلانے اور عوام کو گہرے گھاؤ دینے والے غیر انسانی سانحہ کو ’تقسیم ہند سانحہ یادگاری دن‘ کے طور پرمنانے سے پرانے زخم تو ہرے ہوں گے ہی، بی جے پی کو اس کا سیاسی فائدہ بھی پہنچے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS