مولانا ابوالکلام آزادؒکی سیاسی اور صحافتی خدمات: نعمت اللہ عقیل

0

نعمت اللہ عقیل

مولانا ابوالکلام آزادؒ ایک عالم دین مفسر،ادیب،مصلح اور خطیب جیسی خوبیوں کے مالک تھے۔آپ کی شخصیت خود میں ایک انجمن تھی۔آپ کو نہ صلہ کی خواہش تھی اور نہ ستائش کی تمنا۔ انہوں نے تحریر اور تقریر دونوں سے عوام کو انگریزی سامراج کے خلاف بیدار کیا۔مولانا کے دل میں مسلمانوں کے لیے ایک تڑپ ، محبت اور یہ چاہت تھی کہ مسلمان اسلام پر قائم و دائم رہ کر ہندوستان کی آزادی میں بھرپور حصہ لیں اور غلامی کی زنجیروں کو پیرو تلے روندنے کی کوشش کریں،۔آپ نے سیاست میں بھی قدم رکھا اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے۔مولانا آزاد اپنی عمر کے آخری وقت تک مسلمانوں کو بیدار اور متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد 1888میں محلہ قدوہ متصل باب السلام مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے آپ کا نام احمد رکھا ، جبکہ تاریخی نام فیروز بخت، لقب ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا۔ حالانکہ مولانا آزاد کی تحریروں میں آپ کے مختلف ناموں کا تذکرہ ملتا ہے خلیق انجم لکھتے ہیں’’ آپ کے والدمولانا خیر الدین نے مولانا آزاد کا تاریخی نام فیروز بخت رکھا تھا۔مولانا نے یہ نام غالبا کبھی استعمال نہیں کیا۔وہ مختلف اوقات میں اپنا نام مختلف انداز میں لکھتے رہے ہیں۔ اس کی تفصیل ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے اپنی کتاب میں دی ہے۔مثلا مولانا 1900 میں اپنے دوست عبد الرزاق کانپوری کو خط لکھا اور اس میں اپنا نام ’غلام محی الدین آزاد‘لکھا۔اسی طرح جنوری 1900 کے ’خدنگ نظر‘ لکھنؤ میں بھی ان کا یہی نام مذکور ہے۔ دو سال بعد ’مخزن‘میں مولاناکانام ’ابوالکلام محی الدین احمد آزاد‘طبع ہوا۔ نومبر 1930 میں مولانا نے ماہنامہ’لسان الصدق‘ جاری کیا تو اس پر ایڈیٹر کی حیثیت سے آپ کا نام’ابوالکلام آزاد دہلوی‘تھا۔ 13 جولائی 1912 کو ہفت روزہ’الہلال‘جاری ہوا تو اس پر مدیر مسؤل و محرر خصوصی کے طور پر مولانا کا نام ’احمد المکنی بابی الکلام آزاد الدہلوی‘تھا۔ پانچ چھ سال بعد ’تذکرہ‘نامی تصنیف میں آپ کا نام ’احمد‘ملتا ہے۔مولانا کی ایک تصنیف ’رسالہ مسئلہ خلافت و جزیرہ عرب‘مطبوعہ البلاغ پریس کلکتہ میں آپ کا نام ’ابوالکلام‘دیا گیا۔ نقش آزاد میں شامل خط 117 میں مولانا لکھتے ہیں نام ابوالکلام آزاداور احمد سے لوگ آشنا نہیں، گو نام وہی ہے’1930 میں جب مولانا کی’ترجمان القرآن‘کی پہلی جلدشائع ہوئی تو اس پر مولاناکا نام ’ابوالکلام احمد‘چھپا۔‘‘
خلاصہ یہ کہ مولانا ابو الکام آزاد مختلف رسالوں اور کتابوں میں مختلف نام لکھنا پسند کرتے تھے۔ اورمولانا آزاد آگے چل کر‘امام الہند’کے لقب سے سرفراز کئے گئے اور آپ کی ایک شان لوگوں میں معروف ہو گئی، آج کے دور میں آ پ مولانا آزاد کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے والد محترم مولانا خیر الدین بہت بڑے عالم اور بڑے پایہ کے صوفی تھے اور آپ کے مریدین ہندوستان کے اکثرعلاقوں میں پائے جاتے تھے۔ والدہ مشہور محدث طاہر وتری کی بھانجی تھیں، سلسلہ نسب جمال الدین افغانی سے ملتا ہے،اور یہ خاندان اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آیا تھا اور پھر واپس چلا گیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی عمر 7 یا 8 برس کی تھی کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان آئے۔ اس حیثیت سے مولد مکہ مکرمہ اور متوطن ہندوستان ہے۔یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ اکثر اپنے آپ کو دہلی کی طرف منسوب کرتے رہے،آپ کی وفات 22 فروری 1958کو دہلی میں ہوئی اور جامع مسجد کے سامنے آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
مولانا کی ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں حرم کے اندر بسم اللہ سے ہوئی اور گھر پر ہی تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا۔چنانچہ اپنی خالہ سے ناظرہ قرآن مجیداور کئی سورتیں حفظ کر لیں۔ گاہے بگاہے حرم کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔
کلکتہ آنے کے بعد اپنے والد محترم مولانا خیر الدین سے تعلیم حاصل کرنا شرع کر دیا چونکہ والد محترم مغربی تعلیم کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے مولانا کو اسکول میں نہ ڈال کر گھر میں ہی تعلیم دلواتے رہے۔
عملی کارنامے
مولانا ابوالکلام آزاد کو ادب سے بھی بہت دلچسپی تھی چنانچہ، آپ نے مطالعے کے ساتھ ساتھ صحافت میں قدم رکھا اور ’لسان الصدق‘ماہنامہ اور اس کے علاوہ کئی رسالے جاری کیے جس سے آپ کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔ پروفیسر وہاب قیصر رقمطراز ہیں کہ:
’’مولانا آزاد کی شخصیت کا تابناک پہلو ان کی صحافت نگاری ہے۔ اس میں یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ ان کی صحافت نگاری خود ان کی ایجاد کردہ تھی جو ان ہی کے ساتھ ختم ہو گئی۔ چنانچہ گلدستہ ’نیرنگ عالم‘ کے بعد انہوں نے ’المصباح’کے نام سے جنوری 1901 میں ایک ہفتہ وار جاری کیا۔ یہ اخبار بھی زیادہ دنوں تک نکل نہ سکا۔ ایک ماہنامہ ’خدنگ نظر‘لکھنؤ سے نوبت رائے نظر کی ادارت میں 1897 سے نکلا کرتا تھا۔ ابتدا میں یہ شعری گلدستہ تھا جس میں مختصر سا نثری حصہ بھی شامل رہتا تھا۔مولانا آزاد اس گلدستہ میں نہ صرف دلچسپی لیتے تھے بلکہ ان کے علاوہ ان کے بڑے بھائی ابو النصراہ اور ان کی دونوں بہنیں فاطمہ بیگم آرزو اور حنیفہ بیگم آبرو کے کلام اس میں شائع ہوا کرتے تھے۔ 1902 میں جب اس گلدستہ میں نثری حصہ بڑھایا گیا تو اس میں مولانا آزاد اور ان کے بڑے بھائی کے مختلف موضوعات پر مضامین شائع ہونے لگے۔ 1903 میں مولانا آزاد بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر اس کی مجلس ادارت میں شامل ہوئے اور نثری حصہ کی ایڈیٹنگ کے فرائض انجام دینے لگے، سوا سال بعد ’خدنگ نظر‘سے ان کا تعلق بالکل ہی ختم ہو گیا۔ اسی عرصہ میں انہوں نے شاہ جہاں پور کے اخبار’ایڈورڈ گزٹ‘کی ادارت قبول کی اور بہت جلد اس سے وہ علیحدہ بھی ہوگئے۔ ان اخبارات کے تجربات نے ان کی مدیرانہ صلاحیتوں کو جلا بخشی اور انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں نومبر 1903 میںکلکتہ سے ماہنامہ ’لسان الصدق‘جاری کیا اور لسان الصدق کے جاری ہوتے ہی بقول مالک رام دھوم مچ گئی۔‘‘
مولانا آزاد کو اور بھی کئی اخبارات و رسائل کے معاون مدیر اور مدیر اعلی بننے کا شرف حاصل رہا جس میں احسن الاخبار، تحفہ احمدیہ،الندوہ، وکیل، دارالسلطنت، اقدام، پیغام اورالجامعہ قابل ذکر ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی زیر قیادت ایک ہفتہ وار ’’الہلال‘‘ 13 جولائی 1912 میں کلکتہ سے جاری ہوا۔ 18 جنوری 1914 کی اشاعت کے بعدیہ سلسلہ انگریزوں کے لگائے گئے دو ہزار روپے کی ضمانت کی بنا پر بند کرنا پڑا۔ اسی طرح ہفتہ وار’’البلاغ‘‘ 12نومبر 1915 کو مولانا آزاد کے زیر ادارت جاری ہوااوران کو صوبہ بدر کئے جانے پر اپریل 1916 کو اس کو مسدود کرنا پڑا۔الہلال کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب ہندوستان میں آزادی کی روح پھونک دی گئی تھی۔ 15 جنوری 1927 کو مولانا کے زیر قیادت نکلااور اس کا آخری شمارہ 9 دسمبر 1927 کو جاری ہوا۔اس پورے عرصے کو اگر بغور دیکھا جائے تو مولانا آزاد جس مقصد کے لیے ان رسائل و جرائد کو جاری کیے تھے،اس میں آپ کامیاب نظر آتے ہیں۔الہلال کا مقصد مسلمانوں کو اسلام سے جوڑنے اور آزادی کی روح پھونکنے اور ہند و مسلم اتحاد تھا‘‘۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیف کردہ اہم کتابوں میں ’غبار خاطر، تذکرہ، آزاد کی کہانی خود ان کی زبانی اور ترجمان القرآن قابل ذکر ہیں،اس کے علاوہ اور بھی کئی تصانیف موجود ہیں اور کتابچہ ورسالوں کی تعداد کافی ہیں۔
سیاسی خدمات
مولانا ابوالکلام آزادنے تصنیفات وتالیفات کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی قدم رکھااور اس میں آخری دم تک کام کرتے رہے۔ مولانا کا سیاسی دور، 1920 میں خلافت تحریک سے شروع ہوتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ آپ اس وفد میں شریک نہیں ہوئے لیکن تحریک میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا تھا۔مگرجب مہاتما گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک چلائی تو آپ نے نہ صرف اس تحریک میں حصہ لیا بلکہ مہاتما گاندھی کی تائید بھی کی۔ویسے آپ کا اصل سیاست کا دور 1923 ہی سے شروع ہوتا ہے جب آپ نے پہلی مرتبہ دہلی میں کانگریس کے ’اجلاس خاص‘ میں صدارت کا فریضہ انجام دیا اور اس کے بعد کانگریس پارٹی سے جڑے رہے۔بعدہ 1940 میں کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اور مسلسل 1946 تک اسی عہدے پر فائز رہے۔1955 میں دوبارہ کانگریس پارٹی کے ڈپٹی لیڈر بنے اور 15 اگست 1947 کو ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بننے کا شرف ان کوحاصل ہوا۔اس عہدے پرگیارہ برس تک لگاتار خدمت انجام دیتے رہے 1952 میں پہلے عام انتخابات میں منتخب ہوئے اور تعلیمی،قدرتی ذرائع اور سائنسی تحقیقات کی وزارت سنبھالی‘‘۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمات اس قدر ہیں کہ آپ کی خدمات پر کئی کتابیں لکھی گئیں، متعدد سمینار ہوتے رہے ہیں۔
12سال کی عمر سے مولانا کی خدمات شروع ہوئیں اور آخری عمر میں بھی وزیر تعلیم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے اور بالآخر وہ دن بھی آگیا جب دہلی میں آپ پر بیہوشی طاری ہوئی اور اس دنیا کو داغ مفارقت دے گئے، عبد الرزاق ملیح آبادی رقمطرازہیں کہ:
’’فروری 1958 کی صبح، غسل خانے تشریف لے گئے۔ ناگاہ فالج کا حملہ ہوا اور وہیں گر گئے۔ رات کو ان کے سکریٹری نے فون پر اطلاع دی اور یہ بھی کہا کہ آپ بے ہوش ہیں۔ فورا ًکوٹھی پہنچا۔ ہر چند اصرار کیا گیا کہ چل کردیکھ لوں، مگر میں مولانا کو اس حال میں دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ (مولانا آزاد)…‘‘
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS