آگ سے کھیلتے گورنر

0

آئین کے مطابق ہندوستان ریاستوں کا ایک ایسا وفاق ہے، جس میں مرکز اور ریاستوں کے نظم و نسق سے متعلق الگ الگ انتظامات کیے گئے ہیں۔ ماہرین آئین کا کہنا ہے کہ اس وفاقی نظام میں گورنر ریاستوں میں مرکز کا نمائندہ محض ہے۔ لیکن آج کے ہندوستان میں خاص کران ریاستوں میں جہاں بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت نہیں ہے،صورتحال انتہائی متنازع ہوگئی ہے۔مرکز کی پشت پناہی میں ان ریاستوں کے گورنر اپنے ’آرائشی عہدہ ‘ پر مطمئن ہونے کے بجائے ’ مہم جوئی ‘ پرآمادہ ہیں۔ گورنروںکی یہ مہم جوئی ریاستوں میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کی نہ صرف توہین بلکہ اسے ملنے والے عوامی مینڈیٹ کے تقدس سے بھی کھلواڑ ہے۔مغربی بنگال سے دہلی، آندھراپردیش، کیرالہ، مہاراشٹر اور تمل ناڈو تک میں مرکز کے نامزد گورنروںنے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان ریاستوں میں جو مہم جوئی کی، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مغربی بنگال میںاس وقت کے گورنر اور موجودہ نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھن کھڑ، موجودہ گورنرمغربی بنگال ڈاکٹر سی وی آنند بوس اور ممتاحکومت کے تنازعات کی گونج اسمبلی سے سڑکوں تک سنائی دی، کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان اور پینارائی وجین حکومت کا تنازع ، تمل ناڈو میں گورنر آر این روی اورڈی ایم کے حکومت، مہاراشٹر میں گورنر بھگت سنگھ کوشیاری- ادھو ٹھاکرے حکومت اور چھتیس گڑھ میںاس وقت کی گورنر انوسیایوکے تنازعارت بھی راج بھون اور اسمبلی سے نکل کر سڑکوں، چوراہوں تک پہنچے۔ دہلی میں لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ اور وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے تنازعات کی یکسوئی کیلئے عدالت کے کئی اجلاس ہوئے،اب تازہ ’ واردات‘ پنجاب میں کی گئی ہے، جہاں کے گورنربنواری لال پروہت کے بھگوت مان حکومت کے خلاف اقدامات کو سپریم کورٹ نے ’ آگ سے کھیلنا ‘قرار دیا ہے۔
گورنر بنواری لال پروہت نے پنجاب اسمبلی سے منظور سات بل روک رکھے ہیںاور اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے بلائے گئے اجلاس کو غیرقانونی بتارہے ہیں۔یہ تنازع اتنا شدید ہوا کہ ریاستی حکومت کو گورنر کے خلاف سپریم کورٹ جانا پڑا،جہاں اسپیکر کی جانب سے بلائے گئے اسمبلی اجلاس کو غیرقانونی قرار دینے اور ایوان سے منظور شدہ بلوں کی منظوری نہ دینے کے معاملے کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ سنگھ نے گورنر کے وکیل سے پوچھا کہ وہ کس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اسپیکر کے ذریعہ بلائے گئے اجلاس کو غیرقانونی طور پر بلایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس سے خوش نہیں، یہ انتہائی تشویشناک ہے۔گورنر پنجاب کی جانب سے اسمبلی سے منظور کیے گئے بلوں کو روکنے پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ ہمارا ملک مستحکم آئینی روایات پر چل رہا ہے اور ان پر عمل کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے گورنر پنجاب کے وکیل سے سوال کیا کہ اگر اسمبلی کا کوئی اجلاس غیرقانونی قرار دے بھی دیا جائے تو ایوان سے پاس ہونے والا بل کیسے غیرقانونی ہو جائے گا؟ سپریم کورٹ نے کہا کہ بتائیں گورنر کے پاس یہ کہنے کا کیا اختیار ہے؟ اس سے قبل کی سماعت میں بھی سپریم کورٹ نے اپنی برہمی کا اظہار کیا تھا کہ ریاستی حکومتوں کو گورنر کے ذریعہ اسمبلی سے منظور شدہ بلوں کو پاس کرانے کیلئے بار بار سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے تبصرہ کیا ہے کہ گورنروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ منتخب حکام نہیں ہیں۔ ریاستی حکومتوں کے عدالت سے رجوع ہونے کے بعد ہی گورنر بل پر کارروائی کیوں کرتے ہیں؟ اس صورتحال کو روکنا ہوگا۔ گورنر پنجاب کے اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے دوسری ریاستوں کے گورنرز کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی حدود سے باہر نہ جائیں۔
ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار گورنروں کے اقدامات تنقید کی زد میں آئے ہوں ،اس سے قبل اندراگاندھی کی حکومت میں بھی گورنروں کے کردار پر سوال اٹھتے رہے ہیں، لیکن آج عدالت کے تبصرہ کے بعد یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ریاستوں میں گورنر کے عہدہ کی موزونیت پر نئے زاویہ سے سوچا جانا چاہیے۔ کیا ریاستوں میں واقعی گورنروں کے کردار کی ضرورت ہے؟ اگر ضرورت ہے تو پھر گورنر کی تقرری کے وقت اتفاق رائے قائم کرناچاہیے، متعلقہ ریاست کے وزیراعلیٰ سے مشاورت کے بعد ایسے شخص کو اس عہدہ پر نامزد کیا جانا چاہیے جو کسی سیاسی تعصب کا شکار نہ ہو،جو عہدہ کا وقار قائم رکھتے ہوئے نہ صرف غیر جانبدار رہے بلکہ اس کے اقدامات اور افعال میں غیرجانبداری کی جھلک میں ملنی چاہیے۔ورنہ یہ تماشائے بے ذوق ختم کردیا جانا ہی ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS