پولیس مخصوص ذہنیت کے تحت کام کرتی ہے

0

 اس کا تعلق سیاست سے بہت گہرا، پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل وبھوتی نارائن رائے کا دعویٰ
نئی دہلی:پولیس پر ایک مائنڈ سیٹ کے تحت کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل اورسابق وائس چانسلر مہاتما گاندھی بین الاقوامی ہندی یونیورسٹی وبھوتی نارائن رائے نے کہا کہ سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں وہاں وہاں تشدد ہوا ہے، جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ انہوں نے یہ بات آج یہاںسروائیورس کی داستاں، لکھنو¿ وائلنس پر ایک دستاویز یوپی میں آگے کاراستہ‘نامی رپورٹ کو جاری کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر اترپردیش میں پولیس تشدد کے متاثرین بھی موجود تھے، جن میں لکھنو¿ اور مظفر نگر کے متاثرین شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پولیس ایک مائنڈ سیٹ سے کام کرتی ہے اور اس کا تعلق سیاست سے بہت گہرا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آئین میں بہت ساری اصلاحات کی گئی ہیں، لیکن پولیس کی اصلاحات وہیں کی وہیں ہے اور ٹریننگ کے دوران پولیس کو یہ نہیں بتایاجاتا کہ کس طرح قانون پر عمل کرنا ہے۔ لوگوں کے ساتھ کس طرح سلوک کرنا ہے۔انہوں نے پولیس تشدد کےلئے دفعہ 144کو اہم ہتھیار قرار دیتے ہوئے کہاکہ اگر اس کا خاتمہ ہوجائے تو لوگوں کو بڑی پریشانی سے نجات مل جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ اترپردیش مظاہرین پرپولیس کے تشدد اور رویے کے بارے بتاتے ہوئے کہاکہ اس معاملے میں کھلم کھلاقانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجسٹریٹ کو دیکھنا چاہئے کہ پولیس نے گرفتاری کے پیرامیٹر اور پروٹوکول پر کتنا عمل کیا ہے۔مشہور سماجی کارکن اور سابق رکن پارلیمنٹ سبھاشنی علی نے اترپردیش کے پولیس تشدد کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران میرٹھ، مظفرنگر،بجنور،سنبھل اور لکھنو¿ وغیرہ میں پولیس نے بدلے کی کارروائی کی ہے اور ان کو یہ حوصلہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان سے ملا ہے، جس میں انہوں نے کہاتھا کہ ’بدلہ لوں گا، پوری طاقت سے کچل دوں گا اور جو نقصان ہوگا، اس کی بھرپائی کراو¿ں گا‘۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہاں بھی تشدد ہوا ہے، جہاں کوئی احتجاج نہیں ہوا تھا، لوگ نماز پڑھ کر جارہے تھے اور پولیس نے ان پر حملہ کردیا۔ انہوں نے کہاکہ مارے جانے والوں میں 22لوگوں پر گولیاں کمر سے اوپر سینے پر، آنکھ میں،گلے میں، سر میں ماری گئی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کی منشیا کیا تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے یہ زیادتی کی ہے، ان کے نام اور عہدہ سب کو معلوم ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے یہ زیادتی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اشارے پر کی ہے ۔
لکھنو¿ میں متاثرین کا مقدمہ لڑنے والی اور ضمانت کرنے والی وکیل اسماءعزت نے کہاکہ پورا اترپردیش اسلام فوبیا کا شکار ہے۔ ضمانت کروانے میں ہونے والی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ضمانت ہونے کے باوجود پولیس ویری فکیشن میں ٹال مٹول کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں متاثرین سے ملاقات کرنے تک نہیں دی جارہی تھی۔ زخمیوں کو دوا تک نہیں دی جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے کہاکہ ’میں اگر آپ کو دوائی دینے دوں گا تو میری چمڑی ادھیڑ دی جاے گی‘۔ انہوں نے کہاکہ پولیس نے صرف نام پوچھ کر اور داڑھی دیکھ کر گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے انہیں دنگائی بتاکر ان کے ساتھ اذیت والا سلوک کیا۔ انہوں نے کہاکہ پولیس نے نابالغ، بیمار اور بزرگوں کوبھی نہیں بخشا اور گرفتار کرکے پہلے تھانے میں بری طرح سے مار پیٹ کی اور پھر جیل بھیج دیا۔ انہوں نے کہاکہ ضمانت کی رقم اتنی رکھی گئی ہے، تاکہ کوئی ضمانت نہ کرواسکے اور ضمانت کی رقم نہ بھرسکے ۔ڈاکٹر پون ورمانے پولیس کی زیادتی بیان کرتے ہوئے کہاکہ پولیس والوں نے انہیں اس طرح سے مارا، جس طرح کوئی جانور کو بھی نہیں مارتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاتون کانسٹبل کو جیسے ہی معلوم ہوا ہے کہ میں ڈاکٹر پون ورما ہوں، وہ اپنے ہیلمیٹ اس وقت تک مارتی رہی جب تک اس کا ہیلمٹ ٹوٹ نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بھی لے جایا گیا پہلے پولیس والوں نے میری جم کر پٹائی کی۔ انہوں نے کہاکہ تھانے میں سادہ لباس میں موجود لوگوں نے ان کی لاٹھی اورڈنڈوں سے پٹائی کی۔ انہوں نے کہاکہ ایسا محسوس ہورہا تھا جان بوجھ کر ایک سماج سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مجھے نشانہ بنایاگیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS