نفرتوں کی مسموم آندھی اور باد بہاری کے جھونکے

0

محمد فاروق اعظمی

ملک کے حالات پرگزشتہ ہفتہ یکے بعد دیگرے تین ایسے تبصرے سامنے آئے ہیںجنہیں آندھیوں میں روشن چراغ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔پہلا تبصرہ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین کا ہے ۔ امرتیہ سین کاکہناہے کہ ملک کے موجودہ حالات خوف کا باعث بن رہے ہیں ۔ سماج کے ہر شعبے سے رواداری اور برداشت و تحمل جیسے انسانی جذبے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ آج ہندوستان کو ’ زوال ریاست‘ کے سنگین بحران کا سامنا ہے ۔اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ماہر معیشت نے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تاریخ کا بطور خاص ذکرکیا۔ایک طرف البیرونی کی خدمات بتائیں تو دوسری طرف آریہ بھٹ کا بھی ذکر کیا۔ مغل بادشاہ داراشکوہ کو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا سالار قافلہ بتاتے ہوئے کہا کہ آج جولوگ ہندوتو کی محبت میں مغلوں کی ہر نشانی کو فناکرنے کی کوشش کررہے ہیں اور تاج محل کا بھی تمغہ اپنے سر سجانا چاہتے ہیں، ان کی انہیں شاید یاد نہیں کہ ایک مغل بادشاہ داراشکوہ نے ہی 50اپنشدوں کا اصل سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا اور اس سے دنیا کو ہندو صحیفوں، ہندو ثقافت اور ہندو روایات کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔امرتیہ سین نے کہا کہ ہندوستان کبھی بھی صرف ہندوثقافت یاصرف مسلم ثقافت کا نمائندہ ملک نہیں رہاہے،مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودی، عیسائی اور پارسی بھی صدیوں سے ہندوستان میں رہتے آئے ہیں۔ اس ملک میں رواداری کاایک موروثی کلچر ہے، جسے برقرار رکھناہوگا۔ ملک کو زوال سے بچانے کیلئے برداشت و تحمل سے کہیں بڑھ کر اتحاد کی ضرورت ہے اوریہ اتحاد ہندواور مسلمان دونوں کو مل کر کرنا ہوگا۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کے خطرات سے بچانے کیلئے اب صرف رواداری اور برداشت کی باتیں کرنا ہی کافی نہیں ہے، اب باہمی تعاون اور اتحاد عمل لازم ہوگیا ہے ۔اپنے طویل تبصرہ میں امرتیہ سین نے جمہوریت میں عدلیہ کے کردار پر بھی بات کہی اور کہا کہ ہندوستانی عدلیہ اکثر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے خطرات کو نظر انداز کرتی ہے، جوکہ خوفناک ہے۔ ملک کے محفوظ مستقبل کیلئے عدلیہ، مقننہ اور بیوروکریسی کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت پر بھی انہوں نے زوردیا۔ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف حکومتی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے کئی خطرات کا بیان کرتے ہوئے امرتیہ سین نے کہا کہ ہمیں بطور شہری خطرہ مول لینا ہوگا اور اپنی قوم کی مشترکہ تاریخ اور سچائیوں کی حفاظت کیلئے لڑنا ہوگا۔
ملکی حالات پر دوسرا تبصرہ عدالت عظمیٰ کا ہے ۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا نے آج ہندوستان میں مذہبی منافرت اور تقسیم جیسے حالات پر سخت ترین تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک بی جے پی کی سابق بدگوترجمان نوپورشرما کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ملک میں آج جو کچھ بھی ہورہاہے،اس کیلئے یہ عورت اکیلی ذمہ دار ہے، اسے ٹیلی ویژن پرآکر پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے ۔ اسے خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن گئی ہے ۔ان دونوں جج حضرات نے مقتدر افراد کے خلاف پولیس کارروائی نہ کیے جانے پر بھی اپنی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس حکمراں طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہے جب کہ بے گناہوں اور کمزوروں کے خلاف ادنیٰ سی شکایت پر بھی حرکت میںآجاتی ہے اور انہیں فوراً گرفتار کرلیاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی معزز جج صاحبان نے باتیں کہیں ۔
تیسرا تبصرہ ملک کے چیف جسٹس این وی رمنا کا ہے، ان کے تبصرہ میں ہر چند کہ زور عدلیہ اور مقننہ پر تھا لیکن انہوں نے ملک کو درپیش حالات پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ۔امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں ایسوسی ایشن آف انڈین امریکنز کے زیر اہتمام ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس رمنا نے کہا کہ لوگوں کو ان مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو ملک کو متحد کرتے ہیں نہ کہ ان پر جو ملک کو تقسیم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے سے معاشرے میں اتحاد مضبوط ہوتا ہے جو کہ امن اور ترقی کی کنجی ہے۔ ہمیں ان مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں متحد کرتے ہیں۔ ان پر نہیں جو ہمیں تقسیم کرتے ہیں۔ 21 ویں صدی میں ہم چھوٹے، تنگ اور تفرقہ انگیز مسائل کو انسانوں پر ڈکٹیٹ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہمیں تمام تفرقہ انگیز مسائل سے اوپر اٹھ کر انسانی ترقی پر توجہ دینی ہوگی۔عدلیہ سے سیاسی جماعتوں کی توقعات پر انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت کا خیال ہے کہ ہر حکومتی اقدام عدالتی حمایت کا مستحق ہے۔ حزب اختلاف توقع رکھتا ہے کہ عدلیہ اپنے سیاسی عہدوں اور عوامل کو آگے بڑھائے گی جبکہ عدلیہ صرف آئین کے سامنے جوابدہ ہے۔ جمہوریت سبھی کی شراکت داری سے آتی ہے کسی مخصوص فرد یا گروہ کی بالادستی جمہوریت نہیں کہی جاسکتی ہے ۔ چیف جسٹس نے آئین میں دیے گئے چیک اینڈ بیلنس کو نافذ کرنے کیلئے ہندوستان میں آئینی ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زوردیاہے۔
یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ آج ہندوستان میں نفرتوں کی مسموم آندھی چل پڑی ہے جس نے اتحاد، اتفاق، ہم آہنگی، بھائی چارہ، جمہوریت،امن پروری، انسان دوستی جیسے ارفع اخلاقی ضابطوں کو جھلسادیا ہے، یہ بھی درست ہے کہ نفرت کی اس مسموم آندھی کو حکومت ہوادے رہی ہے ۔ اس آندھی میں بالادستی قائم کرنے کا جنون، نفرت، غصہ، انتقام،جبر، ظلم، ایذا دہی اورا نسان کشی جیسی مہلک بیماریوں کے جراثیم شامل ہیں جو لوگوں کے دلوں میں پیوست ہو رہے ہیں اورملک میں خانہ جنگی جیسے حالات پیدا کررہے ہیں۔ ایسے میں یہ تبصرے بادبہاری کا ایک جھونکا ہیں۔ ان تبصروںمیں ملک سے بے پایاں محبت، ملک کی بقا، استحکام اور ترقی کیلئے فکرمندی اور یہاں رہنے والوں سے دردمندی جھلکتی ہے۔ ان تبصروں میں حالات کے بیان کے ساتھ ساتھ حالات پیدا کرنے والوں کی کھلی نشاندہی بھی ہے اور حالات کو بہتر بنانے کاعلاج بھی بتایاگیا ہے جسے اپنا کر ملک کے حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔
لیکن حیرت کی بات ہے کہ اسی ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ان کے خلاف آمادہ پیکار ہوگیا ہے ۔ تبصرہ کرنے والے ماہر معاشیات اور جج حضرات کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہیں سیاست کا شکار، عورتوں کا دشمن حتیٰ کہ ملک کا بھی دشمن بتایاجارہاہے ۔ ماہر معیشت امرتیہ سین نے کولکاتا میں تبصرہ کیاتھا، اس لیے بنگال میں بھارتیہ جنتاپارٹی ان کے خلاف بیان بازی پر اترآئی ہے ۔ ان کے تبصر ہ کوسیاسی تعصب بتاکر انہیں ہی ملک دشمن قرار دے رہی ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی کردار کشی کی مہم بھی شروع کردی گئی ہے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ جج صاحبان ہندوستان میں ’اسلامی جہاد پسندوں ‘ کی سرپرستی کررہے ہیں اور شرعیہ قانون کی راہ ہموار کررہے ہیں۔سپریم کورٹ کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے زبان و بیان کے تمام قرینوں کو در کنار کرکے بداخلاقی اور توہین عدالت کی ساری حدیں پار کرگئے۔ ٹوئٹر پر باقاعدہ #ShariaCourtofIndia اور #BlackDayForIndianJudiciaryجیسے ہیش ٹیگ چلائے گئے۔ ہر چند کہ جج صاحبان نے کوئی باقاعدہ ہدایت جاری نہیں کی اور نہ اپنے ریمارکس کو ریکارڈ پر لایا بلکہ مقدمہ کی سماعت کے دوران صرف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔فیصلہ ہوتا یا عدالت کوئی ہدایت جاری کرتی تو اس کے اختلاف یا اسے چیلنج کرنے کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں تو اظہار رائے پر ہی اور وہ بھی جج صاحبان جیسے معزز شہریوں کی رائے کے اظہار پرقیامت بپا ہوگئی ہے ۔یہ قیامت اٹھانے والوں میں صرف عام شدت ہی نہیں بلکہ حکمراں طبقہ میں شامل بڑے بڑے نام ہیں جنہیں جج صاحبان کی رائے میں ملک دشمنی کے مواد نظرآرہے ہیں اورا نہوں نے احترام عدالت کی دھجیاں اڑادی ہیں ۔اختلاف رائے پر یہ شدید ردعمل ملک میں عدلیہ کی نفی کے تیزی سے بڑھتے رجحان کی نشاندہی کررہا ہے اگر یہی صورتحال برقرا ررہی تو بہت جلد ملک کو انتشاراور انارکی جیسے حالات کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS