سماجی اور سیاسی حالات دیکھ کر ہی رد عمل ظاہر کرنا چاہیے

0

عبیداللّٰہ ناصر

ملک کے موجودہ ماحول پر ممتاز شاعر اور صحافی ڈاکٹر طارق قمر نے کہا تھاکہ حالات ایسے ہیں کہ غزل لکھنے بیٹھو تو وہ مرثیہ ہو جاتی ہے اور یہ مسئلہ صرف شعرا کے ساتھ ہی نہیں ہے، اس کا احساس ہر ادیب و صحافی کرتا ہے۔سیاسی اور سماجی منظر نامہ ہر پل اس تیزی سے بدلتا رہتا ہے کہ کوئی موضوع منتخب کرکے اس پر قلم اٹھاتے ہی کوئی نیا معاملہ کوئی نیا مسئلہ سامنے آ جاتا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے واقعات پر ہی غور کیا جائے تو فوج میں بھرتی کی اگنی پتھ اسکیم کی مخالفت ہو یا شاتم رسولؐ نوپور شرما کی بدزبانی اور اس کے خلاف مسلمانوں کا غصہ، احتجاج، بلڈوزر اور پھر ادے پور میں بہیمانہ قتل، مہاراشٹر کی سیاسی اٹھا پٹخ، اس پر عدالت کا ناقابل فہم رویہ وغیرہ وغیرہ تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامہ تھے، ظاہر ہے کہ یہ سب دل و دماغ کو ہلا دینے والے واقعات ہیں اور سب پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔
نوپور شرما کی بدزبانی اور شان رسالتؐ میں گستاخی پر مسلمانوں کا غم و غصہ سمجھ میں آنے والا ہے لیکن عمومی حالات میں اور آج کے ہندوستان کے سماجی اور سیاسی حالات میں مسلمانوں نے جو کچھ کیا اسے بدترین نا عاقبت اندیشی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔نوپور شرما کے خلاف شہر در شہر پولیس میں رپورٹیں درج کرائی گئی تھیں یہ ایک اچھا قدم تھا، رپورٹوں پر پولیس کارروائی نہیں کر رہی تھی تو عدالتی چارہ جوئی کی جا سکتی تھی۔
لیکن اس طرح سڑک پر اتر کر وہ بھی جمعہ کی نماز کے بعد احتجاج کرنا قطعی عقل مندی اور دور اندیشی نہیں کہی جا سکتی، خاص کر آج کے ماحول میں جب حکومت، عدالت، پولیس انتظامیہ، میڈیا سب اس انتظار میں ہوں کہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی غلطی ہو اور وہ مسلمانوں کی ہڈی پسلی توڑ دیں، انہیں بدنام کریں، ان کے مذہب کو برا بھلا کہیں اور اس طرح برادران وطن کو ان سے بدظن کر کے ووٹوں کی فصل کاٹ سکیں۔مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر دو چار بار ایسا ہی ہوا تو انتظامیہ امن عامہ برقرار رکھنے کے نام پر جمعہ کی نماز پر بھی پابندی لگا سکتی ہے یا نمازیوں کی تعداد محدود کر سکتی ہے۔جن مسلم نیتاؤں کو اپنی نیتاگیری چمکانے کا شوق ہو، وہ کم سے کم جمعہ کی نماز کو بخش دیں، صلاحیت اور طاقت ہو تو کسی اور دن بھیڑ جمع کر کے دکھائیں۔اس ناعاقبت اندیشی اور احمقانہ حرکت کی وجہ سے جن کے مکان زمین دوز ہوئے ان کے دلوں سے پوچھئے، تھانہ کے لاک اپ میں بند کر کے جن نوجوانوں کے ہاتھ پیر توڑے گئے ان کے دلوں سے پوچھئے، جو مقدمہ جھیل رہے ہیں ان کی مشکلات کو سمجھئے اور خدارا جذباتی سیاست سے اجتناب کیجیے۔
ادے پور اور امراوتی کے دو تین نوجوان تو اور آگے نکل گئے، انہوں نے شان رسالتؐ میں مبینہ طور سے گستاخی کرنے والے دو افراد کا گردن ریت کر قتل کر دیا۔سوچئے یہ کون سا عشق رسولؐ ہے کہ آپ نے اس نام نامی پر دو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ’’وما ارسالناک الا رحمت للعالمین‘‘ فرماتا ہے۔ قرآن، حدیث، خلفائے راشدین، آئمہ کرام کے فتوے، اہل بیت اطہار کے قول میں کہیں بھی شا تم رسولؐ کے قتل کی بات نہیں کہی گئی ہے پھر آپ نے کس اسلام کی پیروی کرتے ہوئے یہ بہیمانہ حرکت کی۔آپ کا جو انجام ہوگا وہ تو ہوگا ہی، آپ نے اپنے بزرگ، والدین، بیوی، بچوں، اہل خاندان ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ ہند کی گردن شرم سے جھکا دی۔پہلے سے ہی دیوار کی جانب دھکیلی جارہی قوم آپ کی اس بہیمانہ حرکت کی وجہ سے مزید مشکلات میں پھنس گئی ہے اور برادران وطن کا جو بڑا طبقہ آج ان حالات میں بھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہے، وہ بھی بدظن سا دکھائی دے رہا ہے اور یہ بدظنی جائز بھی ہے، یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے سیکولر خیالات مسلمانوں سے رواداری اور بھائی چارہ دکھانے کی وجہ سے اپنے سماج اور خاندان میں ہی اکیلا پڑتا جا رہا ہے، اسے بھی آپ نے اور کمزور کردیا۔ادے پور کے واقعہ کے سلسلہ میں پتا چلا ہے کہ مقتول کنہیا لال کی حرکت کے خلاف مقامی مسلمانوں میں غصہ تھا، اس کے خلاف پولیس میں شکایت بھی کی گئی تھی پولیس نے اسے گرفتار بھی کر لیا تھا پھر دونوں طرف کے ہوش مند افراد کی میٹنگ ہوئی، آپس میں مفاہمت ہوئی، معاملہ رفع دفع ہو گیا تھا، اس کے باوجود ان جاہلوں نے یہ بہیمانہ حرکت کر ڈالی، یہ اعتماد شکنی اور خود سری کی بدترین مثال ہے۔لیکن یہ معاملہ اتنا سیدھا اور معمولی نہیں دکھائی دیتا۔قتل کے چند گھنٹوں کے اندر ہی راجستھان پولیس نے قاتلوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف یو اے پی اے جیسی سخت دفعات میں مقدمہ درج کرلیا، اس کے باوجود مرکزی وزارت داخلہ نے اس کی تفتیش مرکزی جانچ ایجنسی این آئی اے کے حوالے کیوں کر دی۔قاتلوں کا پاکستان کنکشن بھی تلاش کر لیا گیا۔قاتلوں کے پاکستان کنکشن کے ثبوت تو ابھی نہیں ملے ہیں لیکن بی جے پی کے لیڈروں خاص کر سابق ریاستی وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریا سے ان کے کنکشن کے فوٹو ضرور منظر عام پر آگئے ہے اور پتہ چلا ہے کہ ان میں سے ایک بی جے پی کا کارکن تھا اور گزشتہ تین برسوں سے پارٹی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا ہے۔ظاہر ہے اس کنکشن کی تفتیش نہیں ہوگی لیکن یہ پتہ تو لگنا چاہیے کہ یہ لوگ اپنی اصلیت چھپانے کے لیے بی جے پی کے کارکن بنے تھے یا خود بی جے پی کسی بڑی سازش میں انہیں استعمال کر رہی تھی، دونوں سوالوں کے جواب سامنے آنا ضروری ہے۔
اس کے ساتھ ہی ان ناعاقبت اندیش کٹھ ملاؤں کو بھی نہ صرف بے نقاب کیا جانا چاہیے بلکہ ان کا سماجی بائیکاٹ بھی ہونا چاہیے جو عشق رسولؐ کے نام پر کچے ذہنوں میں تشدد اور لاقانونیت بھرتے ہیں۔گستاخ رسولؐ کی کیا سزا سر تن سے جدا اور گستاخ رسولؐ کو پھانسی دو جیسے جذباتی اور پر تشدد نعروں کی ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ہندوستان کوئی مسلم ملک نہیں ہے، یہ ایک سیکولر آئینی جمہوریہ ہے اور یہاں حکمرانی آئین کے تحت ہوتی ہے۔سزا دینے کا اختیار صرف عدالتوں کو ہے۔ یہاں تعزیرات ہند نافذ ہے اور ہر جرم کی سزا متعین ہے۔ تعزیرات ہند میں کہیں بھی شاتم رسولؐ(یا کسی بھی مذہبی شخصیت کی شان میں گستاخی کرنے والے) کے لیے کسی سزا کا جواز نہیں ہے، آپ کا جو بھی مطالبہ ہو وہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ایسے جذباتی اور تشدد آمیز نعرے لگوانے والے خود تو محفوظ رہتے ہیں اور جذباتی معصوم نوجوان ان کی احمقانہ حرکتوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ والدین اور گھر کے بزرگوں کو بھی اپنے بچوں پر اس بات کے لیے نظر رکھنی چاہیے کہ وہ اچھے مسلمان تو بنیں لیکن مذہبی جنونی نہ بنیں۔
اس پورے معاملہ میں حکومت اور حکمراں بی جے پی اپنے کارڈ بہت ہوشیاری سے کھیل رہی ہے۔عالمی رد عمل پر کارروائی کرتے ہوے اس نے نوپور شرما کو پارٹی کے عہدہ سے برطرف تو کر دیا لیکن آج تک اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی ہے، الٹا اسے سیکورٹی فراہم کر دی گئی ہے جبکہ ایک پرانی فلم کا کوئی منظر ٹوئٹ کرنے کے جرم میں صحافی اور فیکٹ چیکر محمد زبیر کو تو آناً فاناً میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اصل میں حکومت زبیر پر بہت دنوں سے دانت رکھے ہوئے تھی کیونکہ وہ حکومت اور بی جے پی آئی ٹی سیل کے ہر جھوٹ کا پردہ فاش کر کے اسے مشکلات میں مبتلا کر دیتا تھا۔حکومت خاص کر دہلی پولیس کے رویہ پر جب سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان نے ناراضگی ظاہر کی اور نوپور شرما کو ملک کے موجودہ حالات کے لیے ذمہ دار قرار دیا تو سنگھی ٹرول بریگیڈ ان جج صاحبان کے ہی پیچھے پڑگیا حالانکہ جب چند دنوں قبل ہی انہی جج صاحبان نے مہاراشٹر کی سیاسی اتھل پتھل میں وہ فیصلہ دیا جس سے بی جے پی کا مقصد پورا ہو گیا تو یہ گالی باز( ٹرول) ان کی جے جے کار کر رہے تھے ۔
ملک کے موجودہ سماجی حالات پر راہل گاندھی کا یہ تبصرہ بالکل سچ ہے کہ آر ایس ایس نے ملک میں مٹی کا تیل چھڑک دیا ہے اور ماچس کی ایک تیلی اسے کسی بھی وقت جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔سیاسی حالات اسی سماجی حالات کی وجہ سے ایسے ہوگئے ہیں کہ کوئی بھی سیاست داں ماسوا راہل گاندھی اور کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک پر بولنے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب بی جے پی ان حالات سے لہلہاتی ہوئی سیاسی فصل کاٹ رہی ہے۔ اعظم گڑھ اور رام پور جیسے مسلم اکثریتی حلقوں سے بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی اسی سیاسی اور سماجی ماحول کی مرہون منت ہے ۔ تمام آئینی ادارے بھی ان حالات سے متاثر ہو کر اپنا فرض منصبی ادا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، یہاں تک کہ عدالتوں پر سے بھی اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ٹھیک ہے کہ نوپور شرما کے معاملہ میں فاضل جج صاحبان نے اس کی سرزنش کی، دہلی پولیس کے رویہ پر بھی ناراضگی ظاہر کی مگر دہلی پولیس کو یہ تحریری حکم نہیں دے سکے کہ نوپور شرما کو گرفتار کر کے قانون کے حوالہ کرے جیسا کہ اس نے ذکیہ جعفری صاحبہ کے معاملہ میں تیستا سیتلواڑ اور بی سری کمار کے لیے کہا تھا۔انصاف کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ انصاف نہ صرف کیا جائے بلکہ ہوتا ہوا بھی دکھائی دے اور عدالتوں یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے بھی درجنوں فیصلے ایسے ہیں جو اس پیمانہ پر کھرے نہیں اترتے۔جب عدلیہ کی یہ حالت ہے تو دیگر آئینی اداروں کا کیا رونا ۔
یہ آئینی ادارے جمہوریت کے محافظ ہوتے ہیں، یہ تشکیل اسی لیے ہوئے تھے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اکثریت ملنے کے بعد کوئی حکومت مطلق العنان نہ بن جائے اور من مانی نہ کرسکے، اسی لیے بڑی ہوشیاری سے ان سب کے سربراہ ایک خاص مکتبہ فکر کے لوگوں کو بنا کے ان کے دانت توڑ دیے گئے ہیں اور سب کو سرکس کا شیر بنا دیا گیا ہے۔سرکس کا شیر تو دکھانے کے لیے دہاڑ بھی دیتا ہے، یہ بیچارے وہ بھی نہیں کر پاتے بس عوام کی گاڑھی کمائی سے ادا کیے گئے ٹیکس کے پیسوں سے ملنے والی اجرت اور سہولیات کے بل پر عیاشی کر رہے ہیں اور عوام ہر پانچ سال بعد ووٹ دینے کی رسم ادا کر کے ملک کے جمہوری ہونے کا بھرم بنائے ہوئے ہیں۔ اصل میں جمہوریت کے سب سے بڑے بلکہ واحد محافظ عوام ہی ہو سکتے ہیں اگر عوام ہی جمہوریت کی بقا کے لیے حساس نہ ہوں تو کوئی ادارہ اس کی حفاظت نہیں کر سکتا اور افسوس ہے کہ اکثریتی طبقہ شاید آئینی جمہوریت اور ملک کے سیکولر سوشلسٹ کردار میں دلچسپی کھو چکا ہے، اس کا خواب ہندوراشٹر ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS