مہاراشٹر میں سیاسی کھیل کارخ

0

مہاراشٹر میں سیاسی بحران تو ایکناتھ شندے سرکار کی تشکیل کے ساتھ ختم ہوگیا لیکن سیاسی کھیل ختم نہیں ہوا۔ اصل کھیل اب شروع ہوگا کیونکہ اسپیکر کی کرسی پر بی جے پی کا قبضہ ہوگیا۔ پارٹی کے امیدوار راہل نارویکر نے شیوسینا کے باغی گروپ اور آزاد ممبران اسمبلی کی حمایت سے مہاوکاس اگھاڑی کے امیدوار راجن سالوی کو بڑے فرق سے شکست دے دی۔ باغی گروپ کی یہ دوسری بڑی جیت ہے ۔ پہلی جیت ادھوٹھاکرے کااعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے پہلے ہی وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا اورباغی گروپ کا اقتدار پر قبضہ کرنا تھا۔یہ دوسری جیت اتنی ہی معنی خیز ہے جتنی پہلی تھی، کیونکہ پہلی جیت سے ادھوٹھاکرے کے ہاتھوں سے اقتدارنکلا تھا اور دوسری جیت سے پارٹی نکل سکتی ہے ۔ یعنی باغی گروپ کا اقتدار کے ساتھ ساتھ پارٹی پر بھی قبضہ ہوسکتاہے۔ادھو ٹھاکرے کی مشکلات اسی دن سے بڑھنے لگی تھیں جب پارٹی میں بغاوت ہوئی تھی۔اب اسپیکر کے انتخاب سے اوربھی بڑھ سکتی ہیں ۔مہاراشٹر میں توڑ پھوڑ کا کھیل جب سے شروع ہوا، شندے گروپ کی ہر چال کامیاب ہورہی ہے اور ادھو ٹھاکرے کی چال ناکام۔پہلے اقتدار اوراسپیکر کی کرسی قبضہ میں تھی توکچھ امیدتھی ، اب تو دونوں نہیں ہیں ۔ اس لئے ادھوٹھاکرے کے لئے راحت کی امیدکہیں سے بھی نظر نہیں آرہی ہے ۔
یوں تو اعدادوشمار کے کھیل میں شندے گروپ پہلے دن سے کافی مضبوط ہے۔ اسپیکر کے انتخاب میں کامیابی سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔باغی گروپ کو قانونی طور پر جو بھی خطرہ تھا، وہ اسپیکر کے عہدے پر بی جے پی کے قبضہ کے بعد دورہوجائے گا۔اسپیکرکے انتخاب سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ شندے سرکار کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے اوراسے اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے ۔حکومت کا اعتماد کا ووٹ حاصل کرنارسم کی ادائیگی سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ایکناتھ شندے ہر جگہ اورہر سطح پرجتنے حاوی ہوتے جارہے ہیں، ادھوٹھاکرے اتنے ہی کمزور۔ حالات سے سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے اقتدارکی طرح پارٹی بھی ان کی گرفت سے نکل سکتی ہے ۔شیوسینا کاشندے کو ہٹاکر چیف وہپ بنانے کا کوئی فائدہ اسپیکر کے انتخاب میں نہیں ہوا ۔ اسپیکر کے انتخاب میں ووٹنگ کیلئے وہپ شیوسینا نے بھی جاری کیا اورشندے گروپ نے بھی ، لیکن شیوسیناکا وہپ بے اثرثابت ہوا۔اب توعملی طور پر ظاہر ہوگیا کہ شیوسینا کے ممبران اسمبلی کی اکثریت باغی گروپ کے ساتھ ہے ۔ اسمبلی کا نیا اسپیکر بی جے پی کا ہے ۔جو حکومت میں شامل ہے ۔ایسے میں اس بات کا پورا امکان ہے کہ شیوسینا میں مزید پھوٹ پڑسکتی ہے بلکہ خبریں آرہی ہیں کہ مزید ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ باغی گروپ کے ساتھ جاسکتے ہیں۔ باغی ممبران اسمبلی کو جس نااہلی کا ڈر شیوسینا دکھارہی تھی بلکہ 16ممبران کو نااہل قراردینے کی کارروائی شروع ہوگئی تھی ۔ ان کو سابق اسپیکر نے نوٹس جاری کیا تھا۔نئے اسپیکر کارروائی کو خارج کرسکتے ہیں ۔ ایسے آثارنظر آرہے ہیں کہ مستقبل میں شیوسیناپربھی شندے گروپ پوری طرح قابض ہوجائے ۔
غورطلب امرہے کہ زمین کھسک رہی تھی اور ادھوٹھاکرے حالات بھانپنے میں ناکام رہے ۔قانون ساز کونسل کے انتخاب میں شیوسینامیں کراس ووٹنگ سے کھیل شروع ہواجو راجیہ سبھا انتخابات میں جاری رہالیکن قبل اس کے کہ ادھو ٹھاکرے حالات کو سمجھتے اورنوٹس لیتے کراس ووٹنگ بڑے پیمانے پر بغاوت میں تبدیل ہوگئی ،پھر حالات کو قابو میں کرنا ناممکن ہوگیا ۔ ادھوٹھاکرے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے ۔کہاں مہاراشٹر کی سیاست پر ٹھاکرے کنبہ کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اسے نظر اندازنہیں کرسکتا تھا اورآج یہ کنبہ حاشیہ پر جاتا نظر آرہا ہے ۔ اقتدارتودور پارٹی کا وجود تک بچانامشکل ہوگیا ہے ۔اسپیکرکے انتخاب سے شیوسینا ہی نہیں، پورے مہاوکاس اگھاڑی کو پریشانی ہوسکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS