علی خان محمودآباد
اگر مختلف ممالک کی ثقافتی، سیاسی اور ادبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ہر مجتمع میں شعرا کا اہم کردار رہا ہے۔ ہر مشاعرہ میں شاعری اور خاص کر سیاسی شاعری کے ذریعہ لوگوں اور حکومتوں کو ان کی کمزوریوں اور کمیوں کی طرف متنبہ و متوجہ کیا جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ شاعری ہر زمانہ کی عکاسی کرتی ہے۔ مثلاً آزادی سے پہلے اگر برطانوی حکومت کی بعض خفیہ دستاویزوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ انگریز نہ صرف شعرا پر نظر رکھتے تھے بلکہ ان پر پابندیاں بھی عائد کی جاتی تھیں۔ ’دی پریس ایکٹ‘ کے تحت کئی رسالے، اخبارات، مجلے اور جرائد کو جرمانہ دینا پڑتا تھا اور ان میں سے بعض کو بند بھی کروایا جاتا تھا کیوں کہ ان اخباروں میں استعماری حکومت کے خلاف مضامین اور اشعار شائع کیے جاتے تھے۔
ہندوستان اور فلسطین میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آج بھی شعرا کا کتنا اہم کردار ہے۔ یا تو شعرا کی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا ان کا پیغام سمجھا ہی نہیں جاتا ہے اور اس غلط فہمی کی وجہ سے ان کو بدنام کیا جاتا ہے۔ کسی بھی حکومت کی سنجیدگی اور پختگی کی ایک خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی تنقید برداشت کرپاتی ہے یا نہیں۔
کچھ عرصہ قبل تیلگو شاعر وراورا راؤ کی ایک کتاب پینگوئن(Penguin) نے شائع کی، لیکن ان کے کلام سے کئی الفاظ غائب ہوگئے: انقلاب، ہندوتوو، گھر واپسی وغیرہ محتسب کے کلام سے مٹا دیے گئے۔ گزشتہ سال بی جے پی کے سابق ایم ایل اے وشنوسوریہ واگھ کی ایک نظم کو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول گوا میں اس لیے نہیں شائع کیا گیا کیوں کہ انہوں نے اس نظم میں ذات اور برادری کی سخت تنقید کی تھی۔ 2020میں فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو آئی آئی ٹی کانپور کے کچھ طلبا نے ’’ہندو ورودھی‘‘(ہندو مخالف) قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ فیض اور حبیب جالب کی شاعری سی اے اے قانون کے خلاف احتجاجات میں تقریباً نعروں کے طور پر استعمال کی جارہی تھی۔ 2021میں کامیڈین ویر داس کو غدار قرار دیا گیا کیوں کہ انہوں نے اپنی نظم میں لکھا کہ ہم دو ہندوستان کے باشندے ہیں جہاں دن کو عورت کی پوجا ہوتی ہے اور رات کو ان کا ’’بلاتکار‘‘(عصمت دری) ہوتا ہے۔2022میں آسام کی شاعرہ برشاشری براگوہیں کو 63دن قیدخانہ میں گزارنا پڑے کیوں کہ انہوں نے حکومت کے خلاف فیس بک پر اپنی نظم اپ لوڈ کی تھی۔ ان کو بھی غدار قرار دیا گیا۔
تقریباً 10یا 12سال قبل مہاراشٹر پولیس کے انسپکٹر شیواجی راؤ تمبرے نے سیمی کے خلاف ایک رپورٹ فائل کی تھی۔ اس میں یہ درج کیا تھا کہ سیمی کے ضبط کردہ کاغذات میں مرزا غالب کا ایک شعر نقل کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیمی ایک متعصب اور خطرناک تنظیم ہے اور اس کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ شعر ملاحظہ ہو:
موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اُٹھ جائیں کیا
لفظ ’خوں‘ دیکھ کر شاید انسپکٹر صاحب پریشان ہوگئے ہوں گے۔ یہ وہی شعر ہے جو مولانا قطب میاں صاحب مرحوم فرنگی محلی نے 1947میں پڑھا تھا جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ پاکستان تشریف لے جانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک کمسن بچہ بھی یہ بتا دے گا کہ یہ شعر مرزا غالب کی حب الوطنی کی دلیل ہے، لیکن صدافسوس کہ کچھ لوگوں کو اردو ادب کی ایسی عظیم شخصیت کے اشعار میں بھی دہشت گردی نظر آتی ہے۔اتفاق سے اس ہی زمانہ میں جرمنی میں بھی ایک نظم کی وجہ سے ساری دنیا میں سنسنی پھیل گئی۔ گنٹرگراس(Gunter Grass) جرمنی کے مشہور ادیب تھے اور ان کو نوبل پرائز بھی مل چکا ہے۔ جرمنی کے ‘Suddeutsche Zeitung’ اخبار میں انہوں نے اسرائیلی حکومت کی تنقید میں ایک نظم لکھی تھی۔ اس میں اسرائیلی حکومت کی جابرانہ حرکتوں کا ذکر کیا اور ان طاغوتی طاقتوں کا بھی ذکر ہے جو اسرائیل کے مظالم کو نظرانداز کرتی رہتی ہیں۔ نظم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی حرکتیں ہٹلر کی حکومت کی حرکتوں سے متشابہ ہیں۔ نظم کا عنوان ’’What must be said‘‘ ہے یعنی ’جو کہنا لازم ہے‘۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ گراس نے صرف صہیونی حکومت کی تنقید نہیں کی تھی بلکہ اپنے ملک کی بھی تنقید کی تھی کیوں کہ ایک ایک مدت مدید سے جرمنی نے اسرائیل کے ہاتھ کئی جنگی اسلحے فروخت کیے ہیں اور اسرئیل سے اس کی پوری قیمت بھی نہیں لی۔ بلکہ جرمنی کے باشندوں نے ٹیکس کے ذریعہ ان اسلحوں کی بقیہ قیمت ادا کی۔ آج بھی جرمن حکومت ان احتجاجات کے خلاف تشدد کا استعمال کررہی ہے جو فلسطینیوں کے لیے ہورہے ہیں۔ بلکہ جرمنی میں تو اب صہیونی نظریہ کی تنقید کو یہودیوں کے خلاف نفرت کے مترادف قرار دیا ہے۔ نظم کے شائع ہونے کے دوسرے ہی دن اسرائیلی وزیرداخلہ ایلی یشائے (Eli Yishai) نے کہا کہ گراس کی نظم یہودیوں کے خلاف ہے اور انہوں نے حکم جاری کیا کہ گراس اسرائیل میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ صہیونیت کی تنقید کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی یہودیت کو برا کہہ رہا ہو، لیکن اسرائیل نے دونوں کو ایک دوسرے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اب اگر کوئی اسرائیل کی سیاست پر اعتراض کرے تو اسرائیلی حکومت کو اس میں مذہبی تعصب نظر آتا ہے۔
شاید بہت سے لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ ایک جرمن نے ایسی نظم کیسے لکھ ڈالی کیوں کہ جرمنی ہی میں یہودیوں پر اتنا ظلم ہوا تھا۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں یہودیوں کو اتنا پریشان کیا گیا تھا کہ ان کو عثمانی حکومت میں پناہ ملی تھی۔ لیکن یوروپی جرائم کی سزا آج فلسطینیوں کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔
اسرائیلی شاید یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ صرف انہی کے خلاف ظلم نہیں ہوا ہے۔ آرمینیا، روانڈا، سربیا، چیچنیا، برما، کمبوڈیا، ڈیاگوگارسیا، شمالی امریکہ میں قبائل کے ساتھ اور جنوبی امریکہ میں وہاں کے قبائلیوں کے ساتھ بھی ایسے دردناک مظالم ہوئے ہیں کہ ان کو بھی ہولوکاسٹ کہا جاسکتا ہے۔ جرمنی نے افریقہ میں نمیبیا میں ہیریرو(Herero) اور ناما(Nama) قوموں کا قتل عام کیا، لیکن آج وہ خود اسی تاریخ کو بھلا چکا ہے۔ یہ سب تو درکنار آج اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ پر قتل عام کی لائیواسٹریم چل رہی ہے، لیکن غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کو جینوسائڈ کہنے سے دنیا ہچکچا رہی ہے۔
مرزا غالب کے شعر میں تو کوئی منفی فکر بھی نہیں ہے لیکن یہ بات تو ضرور واضح ہوگئی ہے کہ اردو زبان کو دیکھ ہی کے بعض لوگوں کے ذہنوں میں دہشت گردی کا تصور آجاتا ہے۔ظاہر ہے کہ گراس اور غالب کے ساتھ جو حادثات ہوئے ان کی نوعیت مختلف ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زبان اور بالخصوص شاعری آج بھی حکومتوں کو ہلا ڈالتی ہے۔ کچھ ماہ قبل اسرائیل نے بالخصوص فلسطینی شاعر رفعت العریر کو قتل کردیا۔ آج بھی آپ ان کی نظم ان کے ٹوئیٹر کے پیج پر پڑھ سکتے ہیں جس کا عنوان ہے ’’اگر مجھے مرنا ہے‘‘۔
آج کچھ لوگ تو کہتے ہی ہیں کہ مسلمان ہندوستان کو اپنا وطن نہیں سمجھتے ہیں اور اب تو حد ہوگئی کہ ایک مسلمان شاعر کے حب الوطنی کے اظہار کو بھی غلط قرار دے کر اس کو مجرموں کی صف میں بٹھا دیا گیا ہے۔ غالب اگر زندہ ہوتے تو کیا کہتے؟
آج کے دور میں سب سے اثردار سیاسی اسلحے دو ہیں، زبان اور قلم۔ ظلم کے مقابل میں خاموش رہنا گویا ظلم کی تائید کرنا ہے۔ سب میں بولنے کی جرأت نہیں ہوتی، لیکن شاعر عوام کی آواز بن کر ڈنکے کی چوٹ پر حق بات کہتا ہے۔ ایک شخص کے الفاظ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ قلعہ حکومت کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ رفعت العریر کی نظم کے آخری مصرعے ہی دہرانا کافی ہے:
اگر میرا مرنا لازم ہے
تو کم از کم اس سے امید پیدا ہو
کم از کم وہ ایک نئی داستان کی آغاز ہو
[email protected]