غیر اردو داں طبقے میں معنی اور رنگ بدلتے اردو الفاظ: پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

اردو ایک پیاری اور میٹھی زبان ہے۔اس زبان کا دشمن بھی جانے انجانے میںاستعمال کر تا ہے۔سیاست داں اس زبان کے اشعار کا استعمال اپنی تقریر میں کرتے ہیں۔ دراصل تقریر میں اثر پیدا کر نے اور زور ڈالنے کے لیے اشعار کو بیچ میں ملایاجا تا ہے،مثلاً درج ذیل اشعار ہر طرح کے لیڈر استعمال کر تے ہیں۔پارلیمنٹ ہو یا اسمبلی یاعوامی تقریر، سیا ست داں ان اشعار کا دھڑ لے سے استعمال کرتے ہیں:
یہ جبر بھی دیکھاہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پا ئی
……
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
……
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا،جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزا ج کا شہر ہے،ذرا فاصلے سے ملا کرو
……
گنگناتا جا رہا تھا اک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک
یہ یا اس طرح کے دیگر اشعار سیاست داں اپنی تقریر میں پروتے آئے ہیں۔اردو کے بہت سارے الفاظ آج ہندی اخبارات میں ہوتے ہیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہندی اخبارات میں کبھی 40فیصد اور کبھی30فیصد الفاظ اردو کے ہوتے ہیں۔یہ جہاں اردو کی مقبو لیت کا ثبوت ہے،وہیں اردو کے بعض الفاظ کے غلط استعمال سے عجیب وغریب حالات کابھی بیان ہے۔کبھی کبھی تو ہم اردو والوں کے لیے عجیب حالا ت پیدا ہو جاتے ہیںکیوں کہ اردو کے بعض الفاظ غلط العوام ہوتے ہوتے،صحیح کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔مثلاً متعدَد اور متعدِد،صِفر اورصفرَ، سمَندر اور سمُندر وغیرہ الفاظ اردو والے خوب استعمال کر تے ہیں۔لیکن ہندی اخبارات اور ہندی بولنے والے لوگ جب اردو کے بعض لفظوں کو معنی کے اعتبار سے غلط استعمال کرتے ہیں تو ڈر لگتا ہے کہ کثرت ِاستعمال سے یہ الفاظ اپنے اصل معنی نہ بدل لیں۔ مثلاً لفظ خلافت کو لیں۔ خلافت کے معنی وہ نظامِ حکومت ہے،جس میں بادشاہ کی جگہ خلیفہ ہوتا ہے۔ اسلام میں چار خلیفہ ہوئے ہیں۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ خلیفہ تھے۔ان کی حکومت کو خلافت کہتے ہیں۔لیکن ہندی کے اخبارات اور چینلز پر یہ لفظ مخالفت کے معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔اس لفظ کو ہندی والے اور ہندی میڈیا والے بے ہچک بول اور لکھ رہے ہیں۔ایسا لگنے لگا ہے کہ خلافت کے معنی مخالفت ہی کے ہیں۔
جملہ کے مطلب اور معنی توایک بامعنی جملے یعنی سینٹینس سے ہوتا ہے۔جملہ جس میں فاعل،فعل اور مفعول ہوتا ہے۔جس کے کوئی معنی ہوتے ہیں۔لیکن آج کل سیاسی پارٹیوں نے اس لفظ کا مذاق بنا لیا ہے۔خاص کر حکمراں جماعت نے اس لفظ کو بالکل مذاق بنا لیا ہے۔کیے گئے وعدوں کو جملہ کہہ کرہوا میں اڑایا جا رہا ہے۔مثلاً کئی وعدے دیکھیں۔ہر شخص کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے ا ٓئیں گے۔مہنگائی کم ہوگی۔دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ کسانوں کی آمدنی دوگنی ہو گی۔عورتوں کی ہر طرح حفاظت کی جائے گی۔ملک میں آئی آئی ٹی،آئی آئی ایم،ایمس اور یونیورسٹیزخاصی تعداد میں کھولی جائیں گی۔ کروڑوں اربوں روپے کا کالا دھن واپس لایاجائے گا۔
درجِ بالا وعدے حکمراں جماعت نے عوام سے کیے تھے۔ مگر ان میں سے 90فیصد وعدے پورے نہیں ہوئے۔ بلکہ حد تو اس وقت ہو گئی جب ملک کے وزیر داخلہ سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا یہ تو وزیراعظم کا ’ جملہ‘تھا اور ایسے جملے تو تقریر میں بولے جاتے ہیں،سب پر عمل تھوڑے ہی کیا جا تا ہے۔اس دن ہمیں ’جملہ ‘ کے نئے معنی پتہ چلے۔اب تو یہ عام ہوگیا ہے کہ کچھ بھی کہہ کر نکل جائو اور اسے جملہ کہہ دو۔اردو میں ہم نے ایک دو لفظوںکا مرکب لفظ پڑھا تھا، ’جملہ بازی‘یعنی ایسے جملے استعمال کر نا کہ سننے والا دنگ رہ جا ئے۔سامع پر جملوں کا سحر طاری ہوجائے۔لیکن جملہ کا مطلب دھوکہ دینا کبھی نہیں تھا،جھوٹ بولنا کبھی نہیں تھا۔ ہندی والے جمع لفظ کی بھی جمع بنا کر بولتے اور لکھتے ہیں۔مثلاً ایک لفظ ہے جذبہ۔جس کی جمع جذبات ہوتی ہے۔ہندی والے جذباتوں استعما ل کرتے ہیں۔اسی طرح حالاتوں کا بول چال یہاں تک کہ لکھنے میں بھی استعمال کرتے ہیں۔جب کہ جذبات اور حالات صحیح الفاظ ہیں۔ اوربھی بہت سے اردو لفظ ہیں،جن کا غلط استعمال ہو تا ہے۔
اردو میں ایک لفظ ہے ’ مدعا‘ جس کے معنی مقصد، مطلب، ڈیمانڈ،حاصل وغیرہ ہوتا ہے۔ہندی میں اسی لفظ کو بگاڑ کر ایک تو ’ مدّا‘ کر دیا اوردوسرے معنی بھی موضوع، ایجنڈا، مطلب، حاصل بحث نکات، نکالے جارہے ہیں۔ اسی طرح ایک لفظ ہے ’ورغلانہ‘جس کے معنی کسی کو کسی آدمی یا کام کے خلاف اکسانا ہے۔ہندی میں یہ لفظ ’بر گلانا‘ ہو گیا ہے۔معنی تو وہی ہیں۔ایسے بہت سے لفظ ہیں جنہیں ہندی والوں نے توڑ مروڑ کر اپنا بنا لیا ہے۔ پہلے ہندی والے اردو کے بعض لفظوں مثلاً ذ،ز،ض،ظ،ژ،کے لیے جا میں نیچے بندی لگا کر استعمال کر تے تھے۔اسی طرح دوسرے الفاظ بھی ہیں،لیکن اب بندی لگانے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔
ہندی والوں کا بغیر اردو الفاظ استعمال کیے کام بھی نہیں چلتا۔کچھ لفظ تو ایسے ہیں کہ ہندی والوں کے پاس یا تو ان کے متبادل الفاظ نہیں ہیں یا ہیں تو استعمال میں نہیں ہیں۔مثلاً طلاق، ضلع، بیعنامہ، پیغام، شرارت، خوشی، ختم، زور، حملہ، بھروسہ، پانی، پاجامہ، کرتا، کرسی، نئے، نظر، نگاہ، اعتبار، اعتماد وغیرہ بہت سے ایسے الفاظ ہیں جنہیں ہندی والے لکھنے اور بولنے میں استعمال کر تے ہیں۔خوشی کی بات ہے کہ اردو کے بہت سارے لفظ ہندی میں لکھے اور بولے جا رہے ہیں۔میرے سامنے آج کے ہندی کے تین مشہور اخبار رکھے ہیں،آپ دیکھیں ان کی سرخیوںمیں اردو کے کتنے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
’دینک جاگرن‘،دنیا کا سب سے زیادہ تعداد میں شائع ہونے والا اخبار ہے۔ اس میں (اشتہار سمیت) قدم، چھاپہ، خوب، بیماری، علاج، پریشان، آپ، دبائو، گُل، ہتھیار، ضلع، نیا، سیاہی، روانہ، آتش بازی، شہنائی، ہنگامہ، تلاش، دبش، تار، مقابلے، فتح، انداز، دل، جنگ، تاج، چارپائی، سیاست، رنگ، نیند، جاری، لاگو، بے ہوش، ماہ، کہانی، استعفیٰ، ذمہ داری، بازار، پیش، بیان، دبوچا، مات، واپسی، راحت، قبضہ، شاندار، ہار، داخلے، برآمد، جھنکار، کتاب گھر، لہر، روزگار، ماحول، ضرورت، حصہ داری، چمک، پھیکی، خود، مشہور، خفیہ، کردار، مشکل، بس،بات جیسے الفاظ صرف سرخیوں میں ملتے ہیں۔’امر اجالا‘ بھی ہمارے ملک کا ایک مشہور ہندی اخبار ہے۔ ضروری، غریب، امیر، دم خم، شروع، صحت، مریض، سوال، دبش، موت، قید، آوارہ، معاملہ، حملہ، منظور، نقدی، حوالہ، طلاق، نبض، داوا، خرچ، ترقی، طنز، شہر، آگ، رات، دن، بہتر، گُل، قدم، چھاپ، حاوی، پردہ فاش، نابالغ، برخواست، دریادلی، شکریہ، زندہ، طوفانی، رفتار، نقلی، حال، شرط، خلاف، راحت، خارج، گروہ، دستاویز، تنائو، تاج، چھیڑخانی، پریشان، بیماری، علاج، نعرہ، حاضر، رسم، لائق، شامل، بارش، گلاب، نگاہ، امید، فصل، جاری، سیاسی، خیمہ، اندازِ بغاوت، زیادہ، بعد، خالی، تاناشاہی، نفرت، بدمعاشی، شرمناک، ثابت، قانون، ترقی، ضبط، گرفتار، غائب، سازش، انتظار، تلاش، دلچسپی، دور، قدر، میزبان، زندگی، خطاب، مات، رد، کرتوت، قرض، معاف، گرفتار، زکام، خراب، راحت، لاپتہ، ضروری، فائدہ،صفا جیسے الفاظ خوب استعمال ہوتے ہیں۔’ہندوستان ‘بھی ہمارے ملک کا ایک بڑا ہندی اخبار ہے اب اس میں اردو الفاظ دیکھیں۔ فرصت (اتوار اسپیشل) مقابلہ، تعریف، حیثیت، نظر، پسند، جگہ، جلوہ، فیصلے، خرچ، ذمہ داریاں، رشتے، شاہی، انداز، مصالحے دار، قِسم، نشتر، ہندوستان، بھروسہ، نئے، مضبوط، تندرستی، زندگی، قدم، ہمّت، فائدہ، سفر، صحت، آسمان، ضلع، آواز، تاناشاہی، حق دار، منظور، گرفتار، موت، نقلی، نیت، تیز، نقدی، شروع، کارروائی، حصہ، نشانے، نوجوان، شور، سیاسی، تیر، وعدہ، تلاش، بدلائو، سادگی، لذیذ، مثال، صرف، سفر، دوبارہ، کوشش، دسترخوان، ماں، حملے، استعفیٰ، راحت، غلط، طبیعت، حق دار، آگ، فیصدی، گزارا، طوفانی، بازی، بے تاب، خطاب، قائم، مراد، قرض، معاف، نفرت، سناٹا، کمان، جیت، پیشاب جیسے لفظ خوب استعمال ہو رہے ہیں۔
اردو زبان سے نفرت اور دشمنی کرنے والے بھی اردو کے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔اصل میں اردو کے بہت سارے الفاظ ایسے ہیں،جو عوام کی زندگی سے اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں۔یہ انسان کے نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ہاں! یہ ضرور ہے کہ ہندی والوں اور کچھ سیاسی رہنمائوں نے اردو کے بعض الفاط کے معنی، رنگ، املا وغیرہ کو بدل دیا ہے،جس سے یہ ڈر ہے کہ یہ الفاظ غلط العوام ہوکر صحیح نہ ہو جائیں۔اس کے لیے ہم اردو والوں کو آگے آنا ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS