غزہ جنگ کے 6 مہینے مکمل

0

غزہ کوئی ملک نہیں ہے بلکہ فلسطینیوں کے خوابوں کے ملک فلسطین کا ایک حصہ ہے۔ 45 مربع کلومیٹر پر مشتمل غزہ گھنی آبادی والا علاقہ ہے۔ 7 اکتوبر، 2023 کے حماس کے حملے کو جواز بناکر اسرائیل نے اہل غزہ کے خلاف اس طرح جنگ چھیڑ رکھی ہے جیسے اس علاقے کے تمام لوگ حملے کے لیے ذمہ دار تھے۔ اس نے خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں نے اسپتالوں، اسکولوں، ایمبولینسوں پر بھی بمباری کرنے سے گریز نہیں کیا ہے۔ صحافیوں اور امدادی کام میں لگے ہوئے لوگوں کو بھی ان کی طرف سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے اب تک 33 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 75 ہزار سے زیادہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ غزہ جنگ کے 6مہینے مکمل ہو جانے کے بعد اسرائیل نے کیا پایا ہے؟ امریکہ اور برطانیہ جیسے اسرائیل کے حامی ملکوں کا کیا رول رہا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ غزہ جنگ اب تک جاری ہی اسی لیے ہے کہ امریکہ نے اسے ختم نہ ہونے دینے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے۔ جب جب غزہ جنگ ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی گئی، امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ امریکی صدر بائیڈن نے یہ دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ان کے لیے اہمیت بس اسرائیل کے مفاد کی ہے، فلسطینیوں کا خیال انہیں بس قول کی حد تک ہے مگر ان کے لیے مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ صدارتی انتخاب کی تشہیری مہم شروع ہو چکی ہے اور غزہ جنگ کی وجہ سے کئی لوگ ناراض ہیں۔ حال ہی میں مسلمانوں نے ان کی افطار پارٹی میں شرکت کرنے سے منع کر دیا تھا، اس لیے جو بائیڈن یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس بار کا صدارتی انتخاب ان کے لیے کتنا مشکل ہوگا لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو زیادہ ناراض نہیں کرسکتے۔ اسی لیے غزہ جنگ پر پچھلی قرارداد کو تو امریکہ نے ویٹو نہیں کیا، البتہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی پر روک بھی نہیں لگائی۔ غزہ جنگ پر امریکی صدر کی یہ عجیب پالیسی کئی امریکیوں کے لیے بھی ناقابل فہم ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی نے امریکی صدر جو بائیڈن اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو خط لکھ کر اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی روکنے پر زور دیا ہے مگر یہ بات طے سی نظر آتی ہے کہ بائیڈن اسرائیل کو ناراض کرکے امریکہ کی اسرائیلی لابی کو ناراض کرنا نہیں چاہیں گے۔ ادھر برطانیہ کے وزیراعظم رشی سنک غزہ جنگ کو ’خوفناک‘ بتا رہے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں کہ ’اس خوں ریزی سے پورا برطانیہ صدمے میں ہے۔‘ اور ’یہ جنگ ختم ہونی چاہیے۔‘ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’حماس کے خطرے کو شکست دینے اور اسرائیل کی سلامتی کے دفاع کے حق کے لیے ہم مسلسل اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘ سوال یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت بھی تو یہی کہہ رہی ہے کہ وہ حماس کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ ایسی صورت میں وہ جنگ کیوں ختم کرے گی؟
پہلے ایسا لگتا تھا کہ غزہ جنگ کی حزب اللہ کی وجہ سے لبنان اور شام تک توسیع ہوجائے گی لیکن شام میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی بمباری کی خبر نے یہ اندیشہ پیدا کر دیا ہے کہ اس جنگ میں کبھی بھی ایران شامل ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا اور عرب ملکوں نے اسرائیل کا ساتھ دینے کی کوشش کی تو پھر یہ جنگ کافی بھیانک روپ اختیار کر لے گی۔ اس لحاظ سے آنے والے دن بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ ادھر غزہ جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے الجھ جانے اور یوکرین کو کسی حد تک تنہا چھوڑ دینے کی وجہ سے روس کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ اس کی پوزیشن بہتر بنانے میں شمالی کوریا کے ہتھیاروں کا خاص رول رہا ہے مگر امریکہ کے لیے شمالی کوریا کو سبق سکھانا آسان نہیں۔ شمالی کوریا، عراق جیسا کوئی ملک نہیں ہے،اس کے پاس ایٹم بم ہیں۔ یوکرین کے خلاف روس کی بہتر پوزیشن نے یوروپی ممالک کو ڈرا دیا ہے۔ ایک سے زیادہ یوروپی ممالک جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ پولینڈ جیسے ملکوں کو یہ لگتا ہے کہ یوکرین جنگ یوکرین تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ غزہ جنگ کے اثرات عالمی اقتصادیات پر بھی پڑ رہے ہیں، کیونکہ اس جنگ میں راست یا بالواسطہ طور پر مدد کرنے والی کمپنیوں کے مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم پوری طرح ختم نہیں ہو پا رہی ہے، چنانچہ غزہ جنگ اگر فوراً نہ ختم کی گئی تو یہ دنیا کو بدل کر رکھ دے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS