اہل اسلام دعوت و تبلیغ اور پیغام رسانی کا فریضہ انجام دیں

0

ڈاکٹرحافظ کرناٹکی

دنیا کے سبھی مذاہب نے اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اچھے اعمال و اخلاق اپنائیں اور اہل دنیا کو اچھائی اور خیر کی طرف بلائیں۔ لوگوں کو خیر کی طرف بلانے اور اچھائی کا پیغام دینے اور دنیا میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی عقیدے اور دین کی ضرورت پڑتی ہے جس کی حقانیت سے انکار ممکن نہ ہو۔
اسلام چوں کہ دین حق ہے اور اس کی حقانیت ہر عقل و شعور رکھنے والا انسان تسلیم کرتا ہے تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اہل اسلام دعوت و تبلیغ اور پیغام رسانی کا فریضہ انجام دیں۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم سبھی نبی آخر الزماںؐ کے امتی ہیں۔ ان کے جانشین ہیں، لہٰذا ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ ہم دین اسلام کا پیغام لوگوں تک پہونچائیں۔ اس کی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کریں تا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اے خداوند عالم مجھ تک تو آپ کا پیغام کسی نے پہونچایا ہی نہیں۔
حضورؐکی وراثت کی حفاظت کرنا اور اسے لوگوں تک پہونچانا ہم پر واجب ہے اگر ہم اس معاملے میں چوک جائیں گے تو یقینا قیامت کے دن ہمیں شرمندہ ہونا پڑے گا۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ؛
’’اس نے تمہیں منتخب فرمالیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے، پیروی کرو اس دین کی جو تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔ اس نے پہلے ہی سے تمہیں مسلم کے نام سے نوازا تھا اور اسی سلسلے میں کہ رسول تمہارے لیے دین حق کی شہادت دیں اور تم دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے دین حق کی شہادت دو۔‘‘
یعنی امت مسلمہ رسولؐکی جانشین ہے اور اس کو وہی کام انجام دینا ہے جو رسولؐنے انجام دیا، جس طرح رسول پاکؐنے اپنے قول و عمل اور شب و روز کی محنت اور عبادت و ریاضت سے خدا کے دین کو واضح کرنے کا حق ادا کردیا۔ ٹھیک اسی طرح امت کو بھی دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے خدا کے دین کو واضح کرنا ہے اور اسی احساس فرض اور داعیانہ تڑپ کے ساتھ دین حق کی زندہ شہادت بن کر زندگی گزارنا ہے۔لہٰذا ہمیں ہر حال میں اپنی اصل حیثیت کو نظر میں رکھنی چاہیے اور اس کے شایان شان اپنی زندگی کو بنانے اور بنائے رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ کیوں کہ ہم دنیا کی دوسری امتوں کی طرح ایک عام امت نہیں ہیں بلکہ خدا نے ہمیں امتیازی شان بخشی ہے۔ ہمیں دنیا کی ساری قوموں کے درمیان صدر کی سی حیثیت حاصل ہے اور ہمیں اسی صدارت کے احساس کے ساتھ دنیا کی رہنمائی کی ذمہ داری قبول کرنی ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ؛’’اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک ’’امت وسط‘‘بنایا تا کہ تم سارے انسانوں کے لیے دین حق کے گواہ بنو اور ہمارے رسول تمہارے لیے گواہ ہوں۔‘‘ (البقرہ ۱۴۳)
ہمیں ہر حال میں اپنے نصب العین سے آگاہ ہونا چاہیے اور شرح صدر کے ساتھ اس کو اپنانے کی جی توڑ کوشش کرنی چاہیے۔ خدا کی نظر میں امت مسلمہ کا نصب العین قطعی طور پر یہ ہے کہ وہ کامل یکسوئی اور خلوص کے ساتھ اس پورے دین کو قائم اور نافذ کرے جو حضورؐلے کر آئے اور جو عقائد و عبادت، اخلاق و معاشرت، معیشت و سیاست، اخلاق و افعال، کردار و سیرت، صلہ رحمی و اتحاد، مساوات و عدل، ایثار و قربانی، انکساری و انصاف پسندی، امن و امان، دوستی و بھائی چارا غرض انسانی زندگی سے متعلق تمام آسمانی ہدایات پر مشتمل احکام کی پابندی ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے؛’’مسلمانو! خدا نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوحؑ کو کی تھی۔ اور جس کی وحی اے رسول! ہم نے آپؐ کی طرف بھیجی ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں کہ اس دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ (الشوریٰ ۱۳)
برائیوں کو اور ظلم و ستم کو مٹانے اور بھلائیوں اور امن و امان اور عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے امت محمدیہ کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ یہی ایمان کا تقاضہ ہے۔ خدا کا حکم ہے؛’’تم خیرامت ہو، جو سارے انسانوں کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور خدا پر کامل یقین رکھتے ہو۔‘‘
حضورؐکا ارشاد ہے؛’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم لوگ لازماً نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ عنقریب خدا تم پر ایسا عذاب بھیج دے گا کہ پھر تم پکارتے رہو گے اور کوئی شنوائی نہ ہوگی۔‘‘خدا کا پیغام پہونچانے اور بندگان خدا کو عذاب الٰہی اور تباہی سے بچانے کے لیے داعیانہ تڑپ، دعوت اور پیغام رسانی کے لیے اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھنا چاہیے۔ اپنے آپ کو صبر و تحمل کا پیکر بنانا چاہیے۔ محبت اور شفقت کا نمونہ بنانا چاہیے۔ سخاوت و دل داری کا خوگر بنانا چاہیے۔ حضورؐکی داعیانہ تڑپ کا ذکر اللہ نے اس طرح کیا ہے؛’’شاید آپ ان لوگوں کے پیچھے اپنی جان ہلاک ہی کر ڈالیں گے اگر یہ لوگ اس کلام ہدایت پر ایمان نہ لائیں۔‘‘ (الکہف ۶)
خود حضورؐ نے اپنی اس کیفیت کو اس طرح بیان فرمایا ہے؛ ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے، جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو یہ کیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے اور وہ شخص پوری قوّت سے ان کیڑے پتنگوں کو روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوشش کو ناکام بنائے دیتے ہیں اور آگ میں گھسے پڑ رہے ہیں اسی طرح میں تمہیں کمرسے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو۔‘‘
ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ؐ سے پوچھا؛ یا رسول اللہ! احدسے زیادہ سخت دن بھی آپ پر کوئی گزرا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا! ہاں عائشہ میری زندگی میں سب سے زیادہ سخت دن عقبہ کا دن تھا۔ یہ وہ دن تھا جب آپ ؐمکہ والوں سے مایوس ہو کر طائف والوں کو خداکا پیغام پہونچانے کے لیے تشریف لے گئے وہاں کے سردار عبدلیل نے غنڈوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا اور انہوں نے پیغام رحمت کے جواب میں آپؐ پر پتھر برسائے۔ آپؐ لہو لہان ہو گئے اور بے ہوش ہو کر گرپڑے، پھر آپؐ نہایت پریشان اور غمگین وہاں سے چلے جب قرن الثعلب پہونچے تو غم کچھ ہلکا ہوا
۔ خدا نے عذاب کے فرشتے کو آپؐ کی خدمت میں بھیجا ۔ عذاب کے فرشتے نے کہا؛ یا رسول اللہؐ! اگر آپؐ فرمائیں تو میں ابوقبیس اور جبل احمر کو آپس میں ٹکرادوں؟ اور ان دونوں پہاڑوں کے بیچ میں یہ پس کراپنے انجام کو پہونچ جائیں۔ رحمت عالمؐ نے فرمایا نہیں۔ نہیں، مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنی قوم کو خدا کے عذاب سے ڈرا تا رہوں شاید کہ خدا انہیں کے دلوں کو ہدایت کے لیے کھول دے یا پھر ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو ہدایت کو قبول کرلیں۔
حضورؐ مکہ میں ہیں، آپ غور فرمائیے کہ حضورؐ بہ نفس نفیس مکہ میں ہیں اور مکہ کے لوگ آپؐ کے خلاف سازش کر رہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ انہیں شہر سے نکال دو، کوئی کہتا ہے انہیں قتل کردو اور رہی بات پریشان کرنے کی تو مکے کے لوگوں نے آپ کو پریشان کرنے اور دکھ پہونچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہی دنوں اچانک مکہ میں بہت ہی سخت قحط پڑا۔ ایسا قحط کہ قریش کے لوگ پتّے اور چھال کھانے پر مجبور ہوگئے، بچے بھوک سے بلبلانے اور تڑپنے پر مجبور ہوگئے۔ آپؐ ان کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ اہل مکہ کو اس حالت میں دیکھ کر آپؐ بے قرار ہوگئے۔ آپؐ کے مخلص ساتھی بھی آپؐ کا اضطراب دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ آپؐ نے اپنے ان جانی دشمنوں کو جن کے دئیے دکھ اور لگائے ہوئے زخم ابھی بالکل تازہ تھے اپنی دلی ہمدردی کا پیغام بھیجا اور ابوسفیان اور صفوان کے پاس پانچ سو دینار بھیج کر کہلوایا کہ یہ دینار قحط کے مارے ہوئے غریبوں میں تقسیم کردیے جائیں۔
یہ کردار ہوتا ہے ایک دعوتی اور پیغام رساں قوم کا، گم راہ بندوں کے غم میں گھلنا ان کی گمراہی اور مصیبت اور حماقت پر کڑھنا، ان کو خدا کے غضب سے بچانے کے لیے تڑپنا، ان کی تکلیف دیکھ کر بے قرار ہونا اور ان کی ہدایت کے لیے غیر معمولی طور پر حریص ہونا یہی دراصل ایک دعوتی گروہ ایک داعی قوم کے وہ جوہر ہیں جن کے ذریعے وہ ظالم دنیا کے ظالموں کے دلوں کو بدل سکتے ہیں۔
قوم و ملّت کی بے لوث خدمت کیجئے اور اپنی کسی بھی خدمت کا صلہ بندوں سے نہ چاہیے جو کچھ کیجئے محض خدا کی خوشنودی کے لیے کیجئے اور اسی سے اپنے اجر و ثواب کی توقع رکھیے، خدا کی رضا اور خدا ہی سے اجر و ثواب کی طلب ایسا محرک ہے جو آدمی کی بات میں اثر پیدا کرتا ہے اور آدمی کو مسلسل سرگرم رکھتا ہے۔
خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کی نظر سے بندے کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں ہے وہ اپنے نیک بندوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا وہ محنت سے کہیں زیادہ دیتا ہے اور کسی کو محروم نہیں کرتا۔ پیغمبر بار بار اپنی قوم سے کہتے تھے؛ ’’میں تم سے کسی اجر اور بدلے کا مطالبہ نہیں کرتا، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمے ہیں۔‘‘
دین حق کی گہری بصیرت حاصل کرنی چاہیے۔ اور اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کے نزدیک تو بس اسلام ہی ہے۔ اس دین حق کو چھوڑ کر جو بھی بندگی کا طریقہ اختیار کیا جائے گا خدا کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی۔ خدا کے یہاں تو وہی دین مقبول ہے جو قرآن میں ہے۔ اور جس کی عملی تفسیر حضورؐنے اپنی مبارک زندگی سے پیش کی ہے۔ قرآن پاک میں حضورؐ سے کہا گیا ہے کہ لوگوں کو صاف صاف بتادیجئے کہ میں نے جو راہ بھی اپنائی ہے سوچ سمجھ کر پوری بصیرت کے ساتھ اپنائی ہے۔
’’اے رسول آپ ان سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ میرا راستہ تو یہ ہے میں اور میرے پیچھے چلنے والے پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور خدا ہر عیب سے پاک ہے اور میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں جو خدا کے ساتھ شرک کررہے ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ خدا نے فرمایا ہے کہ؛’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو اختیار کرنا چاہے گا اس کا وہ دین ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد ہوگا۔‘‘ (آل عمران ۸۵)
اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہر مسلمان اپنے نصب العین کو ہمیشہ اپنی نگاہ میں رکھے اور خیال رکھے کہ یہ عظیم کام ہے جس کے لیے خدا کی طرف سے ہمیشہ انبیا مبعوث ہوتے رہے ہیں اور یہ بھی یقین رکھے کہ خدا نے آپ کو دین کی جو دولت عطا فرمائی ہے یہی دونوں جہان کی عظمت و سربلندی کا سرمایہ ہے۔ بھلا اس کے مقابلے میں دنیا کی دولت اور شان و شوکت کی کیا قدر وقیمت ہے چند روزہ بہار ہے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ؛’’اور ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی آیتیں اور عظمت والا قرآن عطا کیا ہے تو آپ اس فانی متاع کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے جو ہم نے اس کے مختلف طبقوں کو دے رکھا ہے۔‘‘
ایک جگہ اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ؛’’اے اہل کتاب! تم کچھ نہیں ہو جب تک تم تورات، انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو، جو تمہارے رب نے نازل فرمائی ہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کو دین کا صحیح فہم اور دین کی حکمت سے آگا ہی حاصل کرنی چاہیے کیوں کہ دین ہی خیرکا سرچشمہ ہے۔ اور جو شخص اس خیر سے محروم ہے وہ دونوں جہانوں کی سعادتوں سے محروم ہے نہ اس کی زندگی میں توازن و یکسانیت پیدا ہوسکتی ہے اور نہ وہ زندگی کے کسی میدان میں دین کی صحیح نمائندگی کرسکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS