پیگاسس جاسوسی کیس

0

کہا جاتا ہے کہ قول و فعل کا تضاد اور ایشوزکو بھٹکانے کا ہنر اوصاف حکمرانی میں سے ایک ہے۔یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ ملک کی موجودہ مرکزی حکومت کو اس وصف میں مہارت تامہ حاصل ہے۔ حکومت کے کام کاج پر جرح و نقداور انداز حکمرانی پر بازپرس کے ہر معاملہ کوقومی مفاد اور ملکی سلامتی کے پردہ میں چھپانے کا ہنر بھی مرکزی حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے۔ پیگاسس جاسوسی معاملے میں بھی حکومت اپنی اسی ہنر مندی کاثبوت دے رہی ہے۔
ملک کے ممتازشہریوں کی نگرانی اور ان کے فون کال کی مانیٹرنگ کے خلاف دائرمقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں حکومت کے وکیل سالیسٹر جنرل یہ کہہ رہے ہیں کہ اس معاملہ کی تحقیقات سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ مرکزی حکومت یہ تو تسلیم کررہی ہے کہ حکومت دہشت گردی سے لڑنے اور قومی سلامتی کیلئے مشتبہ تنظیموں پر نظر رکھتی ہے۔ ملک کی افواج اور دیگر اداروں میں مانیٹرنگ اور سراغ رسی کیلئے کئی طرح کے سافٹ ویئر استعمال کیے جاتے ہیں لیکن حکومت ان کا نام نہیں بتاسکتی ہے۔ حکومت کی دلیل یہ ہے کہ سافٹ ویئر کا نام بتانے سے ایسی تنظیمیں چوکنی ہوجائیں گی۔ ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہے کہ اگر وہ ایک بار یہ جان لیں کہ کون سا سافٹ ویئر استعمال کیاجارہاہے تو وہ اپنے سسٹم کو محفوظ بناکر خود کو نگرانی سے دور کرسکتی ہیں۔
حکومت کی یہ بودی دلیل اور موضوع بھٹکانے کی کوشش کو عدالت نے یہ کہہ کر ناکام بنادیا کہ آپ کی طرح ہم بھی ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے ہیں۔جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ ہم آ پ سے یہ بھی نہیںپوچھ رہے ہیں کہ دفاعی افواج نے کون سا سافٹ وئیر استعمال کیا ہے۔یہاں اصل مسئلہ کچھ اور ہے، یہاں عام شہری ہیں، کچھ نامور اور ممتاز لوگ ہیں جو اپنے فون ہیک ہونے اور اس کی مانیٹرنگ کیے جانے کی شکایت کررہے ہیں۔یہ درست ہے کہ قوانین میں مانیٹرنگ کی گنجائش ہے اور یہ مجازاتھارٹی کی اجازت سے کی جاسکتی ہے۔ تو مجاز اتھارٹی یہ معلومات عدالت کو حلف نامہ داخل کرکے کیوں نہیں دیتی ہے۔ عدالت اس حلف نامے میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں چاہتی ہے جو ملک کی سلامتی سے متعلق ہو۔
درخواست گزاروں کے وکیل کپل سبل نے بھی عدالت میں یہ واضح کردیا تھا کہ وہ کوئی ایسی معلومات نہیں چاہتے ہیں جس سے قومی سلامتی کو خطرہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ جب پیگاسس جاسوسی کی تحقیقات کئی ممالک میں جاری ہے تو پھر ہندوستان میں اس کی تحقیقات سے گریز کیوں ہے۔
اس معاملہ میں سالیسٹر جنرل کی قیل و قال کے باوجود عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور ٹریبونل تشکیل کرنے کیلئے 10 دنوں کا وقت دے دیا۔اسرائیل ساختہ سافٹ ویئر پیگاسس سے کی جانے والی مانیٹرنگ معاملہ میں پہلے بھی عدالت اپنی برہمی کا اظہار کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار دفتر، جج اور وکلا حضرات کے فون کی بھی مانیٹرنگ کیے جانے کی بات جب سامنے آئی تھی تو عدالت نے اس سے قبل کی سماعت میں یہاں تک کہہ دیاتھا کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے، اسے یوں ہی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ معاملہ مشتبہ تنظیموں کا نہیں بلکہ ملک کے ممتاز شہریوں، وکلا، صحافیوں،اہم سیاست دانوں،سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں وغیرہ کی حکومت کی طرف سے جاسوسی کیے جانے کا ہے۔دو ماہ قبل ایک درجن ممالک کے تقریباً150تفتیشی صحافیوں کی اجتماعی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہندوستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں اسرائیل ساختہ سافٹ ویئر پیگاسس کا استعمال کر کے عام شہریوں کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی، مرکزی حکومت کے کئی وزرا،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی جج حضرات، درجنوں صحافیوں اور سماجی و انسانی حقوق کے کارکن بھی نگرانی اور جاسوسی کے اہداف ہیں۔
یہ اسیکنڈل جب بے نقاب ہواتو حکومت پر جاسوسی کیے جانے کا الزام لگایاگیا تاہم حکومت نے اس کی تردید کردی تھی۔اس اسکینڈل کی وجہ سے پارلیمنٹ کا پورا مانسون اجلاس ہنگامہ کی نذر ہوگیا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا مہینہ بھر تک تعطل کا شکار رہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس معاملے پر بحث کرائے جانے کا مطالبہ کیا لیکن حکمراں جماعت اس سے انکار کرتی رہی۔حکومت نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اس نے یہ سافٹ ویئر خریداہے یا نہیں۔حکومت کے اس رویہ کی وجہ سے شبہ قوی ہوتاگیا اور معاملہ عدالت تک جاپہنچا۔ مغربی بنگال کی ممتاحکومت نے اس معاملہ میں پیش قدمی کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کیلئے اپنے یہاں دو نفری کمیشن بھی تشکیل دے دیا۔ لیکن مرکزی حکومت اس سے پہلو تہی کرتی رہی ہے۔
پیگاسس جاسوسی کیس پرعدالت کے موقف کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ اس کی تحقیقات کا راستہ ہموار ہورہاہے اور مرکزی حکومت مشکل میں دکھائی دے رہی ہے۔ہر چند کہ حکومت نے تحقیقات کیلئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا وعدہ بھی کیا ہے تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومت اس معاملہ کو مزیدادھر ادھر بھٹکانے کی کوشش نہیں کرے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS