تقسیم ہند، سر سید احمد خاںاور مذہبی رواداری

0

خواجہ عبدالمنتقم

آزادی کے 75سالہ امرت مہوتسو کے سلسلہ میں چند دن قبل ایک ٹی وی چینل پر یہ بحث ہو رہی تھی کہ تقسیم ہند کا ذمہ دار کون ہے؟ کسی نے کہا مسٹر جناح ، کسی نے کہا ساور کر، کسی نے کہا شاعر مشرق علامہ اقبال،کسی نے کہا نہرو تو کسی نے کہا سر سید احمد خاں۔جن صاحب نے سر سید احمد خاں کو تقسیم ہند کے لیے مورد الزام ٹھہرایا۔ انھوں نے اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے سر سید کے درج ذیل بیان کا حوالہ دیا: ’’میں نے بارہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوںکہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دوآنکھیں ہندو ومسلمان ہیں۔ اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیںگے تو ہماری دلہن بھینگی ہوجاوے(جائے) گی اور اگر ایک دوسرے کو برباد کردیںگے تو وہ یک چشم ہو جاوے (جائے) گی۔ پس اے ہندوستان کے رہنے والے ہندوئو اور مسلمانو! اب تم کو اختیار ہے کہ چاہے اس دلہن کو بھینگا بناؤ چاہے کانا‘‘
اور ان کے اس بیان کی تعبیر اس منفی انداز میں کی کہ ایک عام فہم و ادراک والا شخص بھی ان کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ انھوں نے کہا کہ سرسید نے ہندو اورمسلمانوں کو دو آنکھوں سے تشبیہ دے کر اس بات کا واضح اشارہ دے دیا تھاکہ جس طرح یہ دو آنکھیں الگ الگ ہیں اسی طرح ہندو اور مسلمان بھی الگ الگ دو قومیں ہیں۔ در اصل تعبیر کے اصولوں سے ناواقف لوگ اس طرح کی تعبیر کرکے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ تعبیر کے سنہرے اصول (Golden rule of interpreatation) کے مطابق الفاظ کی تعبیر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ الفاظ کی تعبیر کے لیے سیاق عبارت کو دیکھنا چاہیے اور تعبیر متعلقہ بیان، تحریریا دستاویز کے اغراض و مقاصد کے مطابق کی جانی چاہیے۔ ایسی تعبیر منطقی ہونی چاہیے نہ کہ من مانی۔
ہم یہاں اس بات کا تجزیہ نہیں کر رہے ہیں کہ ملک کی تقسیم کا ذمہ دار کون ہے۔ ہم تو صرف قارئین کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آزادی کے 75سالہ امرت مہوتسو کے موقع پرسرسید کو تقسیم ہند کا ذمہ دار نہ ٹھہرانا قرین مصلحت نہیں۔اسے صرف خیال خام ہی کہا جا سکتا ہے۔ ذرا سوچئیے کہ درج ذیل خیالات و سوچ کا حامل، ملک کی تقسیم کی وکالت کر رہا ہے یا متحد ہندوستان کی حمایت۔
سر سید نے 1883میں پٹنہ کے ایک اجلاس میں کہا تھا:
اے عزیزو! ’’جس طرح ہندوؤں کی شریف قومیں اس ملک میں آئیں اسی طرح ہم بھی اس ملک میں آئے۔ ہندو اپنا ملک بھول گئے، اپنے دیس سے پردیس ہونے کا زمانہ ان کو یاد نہیں رہا اور ہندوستان ہی کو انہوں نے اپنا وطن سمجھا اور یہ جانا کہ ہمالیہ اور بندھیاچل کے درمیان ہمارا وطن ہے، ہم کو بھی اپنا ملک چھوڑے سیکڑوں برس ہوگئے، نہ وہاں کی آب وہوا ہم کو یاد ہے نہ اس ملک کی فضا کی خوبصورتی، نہ وہاں کے پھلوں کی تروتازگی اور نہ میووں کی لذت اور نہ اپنے مقدس ریتیلے اور کنکریلے ملک کی برکت، ہم نے بھی ہندوستان کو اپنا سمجھا اور اپنے سے پیش قوموں کی طرح ہم بھی اس ملک میں رہ پڑے۔ پس اب ہندوستان ہی کی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں۔ مقدس گنگا جمنا کا پانی ہم دونوں ہی پیتے ہیں، ہندوستان ہی کی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں۔ مرنے جینے میںدونوں کا ساتھ ہے، ہندوستان میں رہتے ہوئے دونوں کا خون بدل گیا، دونوں کی رنگتیں ایک سی ہوگئیں۔ دونوں کی صورتیں بدل کر ایک دوسرے کے مشابہ ہوگئیں۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کی سیکڑوں رسمیں اختیار کرلیں۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کی سیکڑوں عادتیں لے لیں۔ یہاں تک کہ ہم دونوں آپس میں ملے کہ ہم دونوں نے مل کر ایک نئی زبان اردو پیدا کرلی جو نہ ہماری زبان تھی نہ ان کی۔ پس اگر ہم اس حصہ سے جو ہم دونوں میں خدا کا حصہ ہے، قطع نظر کردیں تو درحقیقت ہندوستان میں ہم دونوں بااعتبارِ اہل باطن ہونے کے ایک قوم ہیں اور ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی وبہبودگی ممکن ہے اور آپس کے نفاق، ضد،عداوت اورایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس نکتے کو نہیں سمجھتے اور آپس میں ان دونوں قوموں (فرقوں)میں تفرقہ ڈالنے کی سوچ پیدا کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس مضرت اور نقصان میں وہ خود بھی شامل ہیں اور وہ آپ اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا : ’’میری یہ سمجھ ہے کہ ہندوستان میں دو قومیں (فرقے)ہندو اور مسلمان ہیں اگر ایک قوم نے ترقی کی اور دوسری نے نہ کی تو ہندوستان کا حال کچھ اچھا نہیں ہونے کا۔ بلکہ اس کی مثال ایک کانڑے (یک چشم) آدمی کی سی ہوگی۔ لیکن اگر دونوں قومیں برابر ترقی کرتی جاویں تو ہندوستان کے نام کو بھی عزت ہوگی اور بجائے اس کے کہ وہ ایک کانڑی اور بڈھی بال بکھری، دانت ٹوٹی ہوئی بیوہ کہلاوے، ایک نہایت خوبصورت، پیاری دلہن بن جاوے گی۔‘‘ (اخبار ’سائنٹفک سوسائٹی، علی گڑھ، جون1873)
سرسید گائے، جسے چکبست نے اپنی نظم بعنوان ’گائے‘ کو چشمہ فیض اوردرد مندوں کا مسیحا بتایا اور جسے اہل ہنود کی نظر میں ماں کا درجہ حاصل ہے،کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے وہ مسلمانوں سے باربار کہتے تھے کہ وہ ہندوئوں کی دل آزاری کے لیے گائے کی قربانی نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر گائے کی قربانی نہ کر کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے بیچ دوستی ہوسکتی ہے تو وہ گائے کی قربانی کے مقابلہ میں ہندو مسلم دوستی کو ترجیح دیں گے۔
سرسید احمد خاں کے یہ اقوال اتنے جامع اور ہمہ گیر ہیںکہ اگر انھیں اقوال قاموسی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان میںایک ایسا پیغام یعنی ہندو مسلم اتحاد کا پیغام پنہاں ہے جس کی معنویت صدیوں تک باقی رہے گی۔ اس سے اس قول کی صداقت بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مختصر عبارت بھی اتنی جامع اور پیغام رساں ہوتی ہے کہ اس کے آگے بڑے بڑے فرہنگ اور قاموس میں درج تفاصیل بھی ہیچ نظر آتی ہیں۔سرسید کے مندرجہ بالا اقوال اس بات کا معتبر ثبوت ہیں کہ وہ نہ ملک کی تقسیم چاہتے تھے اور نہ ہی وہ ہندوستانی عوام کو بانٹنا چاہتے تھے۔ انھوں نے تو علی گڑھ میں ایک ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی جس کے دروازے سبھی کے لیے ہمیشہ کھلے رہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ کی دفعہ8اس کا دستاویزی ثبوت ہے۔ اس دفعہ میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہیونیورسٹی کے دروازے سبھی افراد کے لیے کھلے رہیں گے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی صنف، نسل، مذہب، دین، دھرم، عقیدہ، مسلک، پنتھ یا طبقے سے ہو۔ ہندومسلم اتحاد سر سید کو بھی اتنا ہی پیارا تھا جتنا ہم سب کو پیارا ہے مگر کبھی کبھی کچھ لوگ حقائق کو توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے نفرت کی آگ بھڑک جاتی ہے۔ یاد رہے کہ آگ لگانا بہت آسان ہے لیکن آگ بجھانے میں وقت لگتا ہے۔ ہمیں ایسی سوچ رکھنی چاہیے کہ نہ تو کوئی آگ لگائے اور نہ آگ بجھانے کی نوبت آئے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS