فلسطینی عوام فیصلہ کن جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں: کے سی تیاگی

0

کے سی تیاگی
(نارتھ ایسٹ ممبر، لوک سبھا، راجیہ سبھا)
برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر یہودیوں کے خلاف ہورہے مظالم کو دیکھتے ہوئے اپنے سامراجی قبضے والے عرب فلسطین سرزمین کو ان کے لیے ایک الگ مملکت اور محفوظ ملک بنانے کا منصوبہ بنا یا تھا۔ ابتدا میں دوسرے ممالک سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر ان کو آباد کیا جانے لگا۔ ان کو نوآبادکار یا سیٹلر Settlerکہا گیا۔ نئی آبادی میں انہیں بسانے کا ایک سبب ان کے مقدس مقام یروشلم کا قریب ہونا بھی تھا۔ آہستہ آہستہ کر کے یہودی مملکت کا خواب اور اس کے مطالبے کو لے کر دبائو بننے لگا۔ 1938کے آس پاس اس کوعملی شکل دینے کی بات ہونے لگی۔ مہاتما گاندھی ہندوستان میں عدم تشدد پر مبنی ایک تحریک چلا رہے تھے، لیکن ان کی نظر اس وقت پوری دنیا کے حالات پر تھی۔ وہ پوری دنیا میں ہونے والے تبدیلیوں اور واقعات پر نظر رکھتے تھے۔ ایشیا کے مختلف ممالک میں چل رہی جنگ آزادی کی تحریکیں سامراج واد اور نوآبادیاتی رویوں کے خلاف عوامی تحریکوں کو وہ اخلاقی بنیادوں پر حمایت دیتے تھے۔
پہلی جنگ عظیم میں 1918 میں ختم ہوچکی تھی اور پورے مغربی ایشیا کے بڑے رقبے پر برطانوی حکومت کا قبضہ تھا۔ بچے ہوئے کچھ حصوں میں فرانس بھی اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب اسرائیل کی روپ میں یہودی ریاست معرض وجود میں آئی تو مہاتما گاندھی نے 26نومبر 1938کے ہفت روزہ ’’ہریجن ‘‘میں اپنے اداریہ میں جاری ایک مضمون کے ذریعہ اس مہم کی مخالفت کی تھی۔ اس تحریر میں باپو نے فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کا پہلا ملک بنانے کی سخت نکتہ چینی کی تھی۔یہی وہ دور تھا جب محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ بھی مذہب کے نام پر ایک علیحد ہ ریاست کے مطالبے کو تیزی سے اٹھا رہی تھی۔ گاندھی جی کے مطابق جس طرح فرانس فرانسیسیوں کا ہے ۔ انگلینڈ انگلش لوگوں کا ہے اسی طرح فلسطین یہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کا ہے۔ یہودیوں کو مذہب کی بنیاد پر برطانوی بندوقوں اور بموں کی دھمکی کے سائے میں فلسطین میں لا کر نہیں بسا یا جاسکتا۔ اگر یہودی یہاں بسنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے فلسطینیوں کی رضا مندی ضروری ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک، یہودی ایک متوازی انتظامیہ، یہودی ایجنسی اور اس کے اپنے ملیشیا گروپس – ہاگناہ اور ہرگن کے ساتھ، فلسطین میں ایک بااثر طبقہ بن گئے۔ برطانیہ نے ایک سازشی کی جس کے تحت فلسطین کو ایک عرب ریاست، ایک یہودی ریاست (اسرائیل) اور ایک عالمی شہر یروشلم میں تقسیم کیا جائے گا، لیکن عربوں نے اسے رد کر دیا۔ 1948 میں یو این او کی مدد سے اس یہودی ریاست کا اعلان برطانوی سامراج کے زوال کے خاتمے سے پہلے کیا گیا۔ اس تجویز کے مطابق فلسطین کی 55% زمین پر اسرائیل کے قبضے اور 54% اراضی کو عرب کے حوالے کردیا گیااور بقیہ 1% اراضی یروشلم کے لیے مقرر کی گئی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ موجودہ جنگ کے آغاز سے قبل فلسطینیوں کے پاس صرف 7 فیصد زمین باقی رہ گئی ہے۔ آج ان ایشوز پر کوئی بات نہیں کررہا ہے۔ اقوام متحدہ، ڈبلیو ایچ او، ہیومن رائٹس گروپ اسرائیل کی بربریت کا نشانہ بننے والوں کی تعداد، مرنے والوں کی تعداد، بچوں اور بوڑھوں کے قتل عام، اسپتالوں اور کیمپوں پر بمباری میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بتانے کے لیے سرگرم ہیں۔ غزہ پٹی کے علاقے میں بڑی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں اور وہاں حماس تنظیم کے حامیوں کی ایک طویل فہرست بھی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کھلے عام اعلان کر چکے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی کو تباہ کر کے ہی جنگ جیتیں گے۔
اس بارے میں کئی لوگوں کو یہاں تک کہنا پڑا کہ انسانیت کی بنیاد پر اسرائیل مستقبل میں تمام فوجی سرگرمیاں بند کر دے۔ کیونکہ اب تک 8 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں تقریباً 2 ہزار بچے بھی شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ غزہ کی سرحد شمال مشرق میں اسرائیل، جنوب میں مصر اور مغرب میں بحیرہ روم سے ملتی ہے، اس لیے داخلی اور باہری راستوں پر مکمل کنٹرول ہے۔
گزشتہ 15 سالوں میں یہ اسرائیل پانچویں جنگ ہے، غزہ میں اس سے قبل 2008، 2012، 2014 اور 2012 میں جنگ کا شکار ہوچکا ہے۔ جب بھی اسرائیلی نے فضائی حملے کیے اس میں اسکول، اسپتال اور سرکاری عمارتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ ایک بڑی آبادی کے ساتھ، جن میں اکثریت بچوں کی ہے، بالغوں پر ان کی کفالت کا بوجھ بہت زیادہ ہو گیا ہے، حالانکہ غزہ میں صنعت کی حالت بہت خراب ہے اس وجہ سے فلسطینی زبردست بے روزگاری کا شکار ہے۔ جو بائیڈن سے پہلے ٹرمپ حکومت کی طرف سے نیتن یاہو کی اندھی حمایت بھی نسلی تطہیر کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ دراصل جنگ کے وقت امریکہ اور اسرائیل بہت زیادہ جارح ہو جاتے ہیں۔ نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں یہودی ریاست کی قرارداد منظور کر لی ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل میں رہنے والے دیگر مذاہب کے لاکھوں باشندوں کے لیے مذہبی تعصب بڑھے گا۔ اس کے ساتھ ہی عبرانی کو ملک کی قومی زبان قرار دیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی ان تجاویز کے ذریعے ایک چوتھائی آبادی ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائے گی۔ گزشتہ انتخابات کے دوران ٹرمپ نے یروشلم کو اس دارالحکومت قرار دے کر الیکشن جیتا تھا، جب کہ اسے ابھی تک اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا اور دستایزات میں تل ابیب ہی واحد دارالحکومت ہے۔ 1966 کی 6 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل مصر، لبنان اور شام کے بڑے علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ اقوام متحدہ متفقہ قرارداد منظور ہونے کے باوجود اسرائیل وہاں غیر قانونی بستیاں بنانے میں مصروف ہے۔
اب فلسطین اور مغربی ایشیا کے باشندوں کے لیے سب سے بڑا جذباتی مسئلہ مسجد اقصیٰ ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس مسجد کا بہت احترام کرتے ہیں۔ یہ پیغمبر اسلامؐ سے منسلک ایک عبادت گاہ ہے اور مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔1967 کی 6 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل مسجد کے اردگرد کے بڑے علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ قبل ازیں مسجد کے نگراں کی حیثیت سے اردن اسلامک ٹرسٹ کی سرپرستی کرتا تھا لیکن 1994 میں اردن کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اسرائیل نے بھی یہاں اسرائیل کا رول ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عربوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ یہاں پر سیکورٹی فورسز کی تعیناتی بھی کشیدگی برقرار ہے کیونکہ یہاں نمازیوں کی تلاشی لی جاتی ہے اور مسجد کے صحن میں نماز کی ادائیگی پر پابندی بھی کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ماہ رمضان میں فلسطینی مسلمان یہاں بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں تاہم نمازیوں کی تعداد کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ عید الفطر سے پہلے الوداع جمعہ کی نماز کو ایک اہم مذہبی موقع سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیلی پولیس کی جانب سے عائد پابندیوں کے باعث ہر سال عید کے موقع پر پرتشدد واقعات ایک روایت بن چکے ہیں۔ اب غزہ جنگ کے طویل عرصے تک جاری رہنے کے امکانات ہیں، مشرقی یروشلم کے ایک بڑے حصے پر اسرائیل کا قبضہ ہے جہاں مسجد واقع ہے۔اگرچہ یروشلم 1948 سے ایک بین الاقوامی شہر ہے لیکن اب دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد انصاف کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری ہے۔ اور انسانی حقوق اب مذہبی نوعیت کے ایشو بن چکے ہیں اب حالات قابو سے باہر ہیں۔عرب ممالک کے بعد ہندوستان پہلا ملک ہے جس نے فلسطین کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا، حالانکہ 1992 میں نرسمہا راؤ کے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے نا وابستہ ممالک کی نظروں میں ہندوستان خوف زدہ ہوگیا تھا۔ فلسطین کی تحریک اب پہلے جیسی مضبوط نہیں رہی، یہ یاسر عرفات کے دور میں بہت بڑی تحریک اور گروپ تھی۔ تیسری دنیا کے تمام بڑے لیڈر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ان میں پنڈت نہرو، چائو این لائی، جمال عبدالناصر، مارشل ٹیٹو اور نکروما اور سوکارنو وغیرہ قابل ذکر تھے۔ اگرچہ بڑے اور سنگین مسائل امن کے ذریعے حل ہو چکے ہیں لیکن فلسطینی نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ حماس کا حامی بن چکا ہے۔ یہ بھی پہلی بار ہے کہ اس طرح اسرائیلی جان و مال کا نقصان ہوا ہے اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ غزہ میں ہونے والے قتل عام کو روکنے کے لیے تقریباً تمام عرب ممالک متحد ہیں، ایران اور ترکی سمیت کئی ممالک نے جس طرح انتہائی سرگرمی کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہے گی۔ حکومت ہند نے بھی عالمی رائے عامہ کے پیش نظر اپنی پرانی غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کیاہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ارکان پارلیمنٹ نے متحدہ ہو کر ایک پرانی روایت کو یقینی طور پر مضبوط کیا ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS