پوری دنیا میں جمہوری اقدار کی پاسداری اور مضبوط انتخابی نظام کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا اسرائیل اور اسرائیل میں حکمراں عبوری نظام فلسطینیوں کے تئیں کس قدر ظالم نسل پرست اور استبدادی روش رکھنے ولا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عبوری وزیر اعظم بے مائیگی کے باوجود تین دن تک فلسطینیوں پر بم برساتے رہے اور اس کارنامہ پر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے کئی ادارے اس سفاکانہ کارروائی کی مذمت کرچکے ہیں اور خود اسرائیل کے حکام نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے چند روز کی اس بمباری میں ایک قبرستان پر بم باری کرکے کئی بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسرائیل نے اس کو تکنیکی غلطی قرار دے کر دامن چھڑا لیا۔ مگر تمام عالمی طاقتیں اس مختصر سی کارروائی میں ڈیڑھ درجن سے زائد بچوں کی ہلاکت کی مذمت کررہی ہیں ۔ عبوری وزیراعظم نے اپنی ریاست کی پوری فوجی طاقت کو استعمال کرکے اعلان کیا کہ وہ اس کارروائی میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ صہیونی ریاست کے نگراں حکمراں نے بالکل درست کہاہے کہ وہ فلسطینیوں کو ٹھکانے لگانے اور داخلی محاذ پر اپنے حریف بنجامن نتن یاہو کی زبان بند کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
بنجامن نتن یاہو سابقہ اسرائیلی حکومت اور وزیراعظم نفتالی بنڈ یک پر نکتہ چینی کرتے رہے تھے کہ سیکورٹی کے معاملہ میں ان کی حکومت ناکام رہی ہے۔ کیونکہ نفتالی ان کی دانست میں سیکورٹی امور میں ناتجربہ کار تھے۔ موجودہ کارگزار وزیراعظم یائر لیپڈنفتالی کی سابق حکومت میں وزیر خارجہ تھے اور انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد نفتالی بے دخل کردیے گئے تھے اور یائرلیپڈ کو کارگزار سرکار کا سربراہ بنا کر عبوری وزیراعظم بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل میں یکم نومبر کو الیکشن ہونے ہیں اور گزشتہ 60-70 دن سے وہاں انتخابی مہم عروج پر چل رہی ہے۔ اس دوران غزہ پر حملہ کرکے انہوںنے جوبائیڈن کے دورے سے ملنے والی شہرت کو نہلے پر دہلا قرارکردیا۔ اپنے سب سے بڑے حریف ناقد کو خاموش کردیا جو ان کی سابقہ سرکار کو ’ نااہل‘ قرار دیتا تھا۔۔ بنجا من نتن یاہو فلسطینیوں کے تئیں اپنی بربریت کے لیے پوری دنیا میں بدنام ہیں اور اندرون ملک وہ اس قومی کارروائیوں اور بربریت کو طرہ امتیاز سمجھتے تھے مگر اس مرتبہ یائر لیپڈ نے یہ کارنامہ انجام دے کر بازی مارلی۔
اسرائیل کے کئی ماہرین کا کہناہے کہ ’ اس جنگ کو چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر غزہ پر تین دن کی کارروائی سے اسرائیل کی اندرونی سیاست کی بساط پلٹ گئی۔ اسرائیل کا جنگ پسند اور بربریت پسند طبقہ بائیر لیپڈ سے خوش ہے۔ تین دن کی ’ مختصر‘ کارروائی میں 49فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا ۔ ان شہدا میں غالب اکثریت معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کی تھی۔ اس سفاکانہ کارروائی میں سب سے بڑا نقصان 17معصوم بچو ں کی موت تھی۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ کارروائی میں 360افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسلامک جہاد نے جو راکٹ داغے تھے اس سے 40اسرائیلی معمولی زخمی ہوئے تھے۔
جرمنی کے ایک دانشور کارلوون کلاوچ Carlvon Clawachکا کہنا ہے کہ اسرائیل کی یہ جنگ اسرائیل کی اندرونی سیاست کا حصہ ہے اور اگر لیپڈوزیراعظم کے طور پر دوبارہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے تو وہ اپنے تمام پیش رو وزیراعظموں سے زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خیال رہے کہ اب تک لیپڈ کو ایک ’ معتدل مزاج‘ لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ اسرائیل میں بایاں محاذ ختم ہوتا جارہا ہے اور وہاں کے متعدل سمجھے جانے والے اخبار حیرث Haaretzجیسے پریشد گروپ اپنی اہمیت کھوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر جنگی امور اور حفاظتی امور پر طبقات بھی معتدل نہیں رہے ہیں۔
دراصل اسرائیل کے اندر چوبیس گھنٹے چلنے والے نیوز چینل، میڈیا ادارے اسرائیل کے عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو بھی وطیرہ اختیار کیا جائے وہ غیر مناسب نہیں ہے۔ n
فلسطین:میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS