یتی نرسنگھا نند کی دریدہ دہنی: کہ سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد

0

اے- رحمان
سیاسی حمایت اور حکومتی پشت پناہی کسی بد نہاد کو غرور، ڈھٹائی اور شیطنت کے کس درجے تک پہنچا سکتی ہے اس کی بد ترین مثال یتی نرسنگھا نند کی کرتوت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ وہی بھگوا دھاری ہے جس نے ہری دوار میں دھرم سنسد کا اہتمام و انعقاد کرکے چند دیگر ہم خیال بھگوا دھاریوں کے ساتھ مسلمانو ںکی نسل کشی کے منصوبوں اور ارادوں کا اعلان کیا اور حالانکہ اب نفرت انگیز تقاریر کا معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آ جانے کے بعد( بحالت مجبوری) اس کو گرفتار کر لیا گیا ہے ،لیکن اس کے شیطانی دماغ کی کارکردگی اور مجرمانہ رویے کے مزید مظاہر سامنے آئے جب اس نے پولیس، مسلح افواج، سیاست دانوں(غیر بی جے پی) انتہا یہ کہ سپریم کورٹ تک کو اپنی زہر افشانی کا نشانہ بنایا۔ ’تمھیں ہندوستانی فوج پر بھروسہ ہے؟آئین پر بھروسہ ہے؟سپریم کورٹ پر بھروسہ ہے؟ اگر ہاں، تو تم کتے کی موت مروگے۔‘ اس نے عام ہندوؤں کو بھی یہ کہہ کر مطعون کیا کہ وہ اوائل عمر میں شادی نہیں کرتے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کیے جا سکیں۔ Alt news نام کے یو ٹیوب چینل نے ٹویٹر پر نرسنگھا نند کے انٹر ویو کا ایک ویڈیو شیئر کیا ہے جس میں نرسنگھا نند کہتا نظر آ رہا ہے کہ موجودہ آئین سو کروڑ ہندوؤں کے قتل کا دستاویز ہے( یاد رہے کہ ہندوتو کے ایجنڈے میں موجودہ آئین کو ہٹا کر’منو اسمرتی‘ کو رائج کرنا شامل ہے) اس نے ہری دوار پولیس کو ہجڑوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ سیاسی نظام پر بھروسہ رکھنے والے لوگ کتے کی موت مریں گے۔
نرسنگھا نند نے اپنی جنونی کیفیت میں او ربھی بہت کچھ کہا لیکن سپریم کورٹ کے بارے میں اس کی غلیظ بیانی نہایت سنگین توہین عدالت کے جرم کا ارتکاب ہے۔ کسی بھی جمہوریت کے لیے آزاد عدلیہ محوری حیثیت رکھتی ہے جس کے بغیر جمہوریت کا تصور ہی رائیگاں ہے۔ یہ عدلیہ ہی ہے جو حکومت کے اعمال و افعال کو آئین و قانون کے دائرے میں رکھنے کی پابند ہے اور اس سلسلے میں تمام اختیارات رکھتی ہے۔ لیکن عدلیہ کی ادائیگیِ فرض اس کی غیر مشروط اطاعت کی پابند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں اور ان کے احکامات سے ایک تقدیس وابستہ کی گئی ہے تاکہ حکومت اور عوام کے ذہنوں میں اس کی تعظیم کا جذبہ رہے۔ توہین عدالت محض کسی عدالتی حکم سے سرتابی تک ہی محدود نہیں بلکہ عدلیہ کے لیے نا واجب اور ناروا الفاظ کا استعمال، اس پر بے جا تنقید اور اس کے تئیں عدم اعتماد اور باغیانہ جذبات کا اظہار بھی توہین عدالت کی تعریف میں آتا ہے اور جہاں عدالت کے لیے بلا جواز نفرت و کراہت انگیز الفاظ کا استعمال کیا جائے تو یہ جرم ناقابل معافی ہو جاتا ہے۔
یہ تو ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ ہندوتو کے حامی موجودہ آئین اور اس کے ذریعے قائم کردہ عدلیہ سے مکمل طور پر بد ظن ہیں اور ہندو راشٹر کا جو خاکہ آر ایس ایس کا بنیادی ایجنڈا ہے اس کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں لیکن یتی نرسنگھا نند اور اس کے قبیل کے دوسرے شر پسند منصوبہ بند طریقے سے معاشرے میں زہر پھیلانے کے ساتھ ساتھ خبروں کی سرخی میں آنے کے لیے بھی اس قسم کا اظہار خیال کرتے رہتے ہیں جو سنسنی خیز ہونے کے باعث ان کی ’شہرت‘ کا سبب بن سکے۔نرسنگھا نند کے ذریعے وشال آنند کو دیے گئے انٹر ویو کے سامنے آنے کے بعد ایک سماجی کارکن نے ملک کے اٹارنی جنرل کو خط لکھ کر نرسنگھا نند کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت مانگی ہے( جو توہین عدالت سے متعلق قانون کے تحت ضروری شرط ہے) خط میں کہا گیا ہے کہ نر سنگھا نند نے سپریم کورٹ کے لیے نہایت اہانت آمیز الفاظ کا استعمال کیا ہے جو عوام کے ذہن میں موجود عدالت کے تقدس اور احترام میں تخفیف کا سبب ہو کر انصاف کے عمل میں مزاحمت کا مترادف ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایسی صورت حال میں سپریم کورٹ از خود بھی مجرم کے خلاف کارروائی کا مجاز ہے۔
ہری دوار اور دہلی میں ’دھرم سنسد‘ منعقد کرکے ان فتنہ انگیز لوگوں نے ہندوتو اور ہندو راشٹر کی دہائی دے کر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے نفرت کا زہر پھیلانے کی جو کوششیں کیں اور اس کے خلاف عالمی سطح پر جو تھو تھو ہوئی وہ تو ہوئی خود ملک کے پڑھے لکھے اکثریتی طبقے نے اس پورے عمل پرشدید احتجاجی صدا بلند کی اور جنوری کے پہلے مہینے میں کئی سماجی کارکنان، نمایاں اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کے 8سابقہ سربراہان نے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کو ایک مراسلہ بھیج کر ان واقعات (نفرت انگیز تقاریر) کے خلاف سخت احتجاج درج کرایا جو ایک اطمینان بخش اور خوش آئند پیش رفت تھی۔ لیکن 2 روز قبل 3 سابقہ مسلح افواج سربراہان میجر جنرل ایس جی دومبائکرے ، کرنل پی۔ کے نائر اور میجر پریہ درشی چودھری نے سپریم کورٹ میں باضابطہ عذر داری دائر کرکے مذکورہ دھرم سنسدوں کی خصوصی تفتیشی ٹیم(SIT) کے ذریعے تفتیش کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ نکتہ اس مطالبے میں یہی مضمر ہے کہ اس قسم کی سرگرمیوں کے پس پشت کون ہے یا یہ کہ کس کے اشارے اور تحفظ کے بل بوتے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کی اشتعال انگیز اور منافرت سے پُرتقاریر کے ذریعے صرف تعزیری قوانین کی ہی خلاف ورزی نہیں ہوتی بلکہ آئین کی دفعہ19( آزادیٔ اظہار) کی روح بھی مجروح ہوتی ہے، ملک کا سیکولر تانا بانا منتشر ہوتا ہے اور امن عامہ میں خلل پڑنے کا خدشہ تو ہے ہی۔ عرضی گزاران نے کہا ہے کہ ان وطن دشمن تقاریر سے ہماری مسلح افواج کی اخلاقی جرأت کو ٹھیس پہنچتی ہے ا ور ان کی یکجہتی کو بڑا نقصان ہونے کا بھی احتمال ہے کیونکہ افواج میں ہرقوم، مذہب، فرقے اور ملک کی نمائندگی ہے۔ اپنے ذاتی تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے سابق اعلیٰ فوجی افسران نے کہا ہے کہ اس قسم کی زہر افشانی سے مسلح افواج کی جنگی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں قومی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلح افواج اور پولیس کی اخلاقی جرأت ، اتحاد اور ہم آہنگی ایک نہایت سنگین موضوع ہے اور کسی بھی فرقے، قوم یا گروہ کے خلاف تشدد انگیز اشتعال پھیلانے پر فوری پابندی نہیں لگائی گئی تو ملک کے امن و سلامتی سے متعلق مفادات اور سروکار بری طرح متاثر ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ ان فوجی افسران کے ذریعے دائر کی گئی عرضی میں نہایت اہم اور سنگین نکات اٹھائے گئے ہیں جن کو قومی یکجہتی اور سلامتی کے نقطۂ نظر سے دیکھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ نر سنگھا نند جیسے شر پسند اور نفرت آمیزسوچ رکھنے والے لوگوں کی سرکوبی قومی مفاد کے لیے کس قدر ضروری ہے۔قانون کی بالا دستی جمہوریت کا سب سے اہم وصف بھی ہے اور بنیادی شرط بھی۔لیکن ان شرمناک سرگرمیوں کو جو چیز زیادہ شرمناک بناتی ہے وہ ہے ان معاملات پر حکومت اور خصوصاً وزیر اعظم کی خاموشی جس کی عالمی سطح پر مذمت بھی کی گئی ہے اور یہ بھی افسوسناک ہی ہے کہ اتنا سنگین اور قابلِ دست اندازیٔ پولیس جرم واقع ہونے کے بعد اس سلسلے میں مقدمات کافی دیر سے اور عوامی دباؤ کے تحت درج کئے گئے اور اس کے بعد بھی نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا جبکہ ملزمان کے خلاف تمام ثبوت و شواہد اظہر من الشمس تھے۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ کسی بھی سنگین صورتِ حال اور خاص طور سے توہینِ عدالت کے معاملے میں حکومت کی بے عملی دیکھتے ہوئے از خود نوٹس لے کر کارروائی کرنا سپریم کورٹ کا اختیار ہی نہیں قانونی اور آئینی فرض ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS