یوپی انتخا بات میں منڈل کمنڈل کی بازگشت

0

شاہد زبیری
سیاست میں کب کیا ہوجائے اب سب کچھ غیر یقینی سا لگنے لگا ہے ،کل تک یو پی کے انتخابات کا جو منظر نامہ ابھر رہا تھا اس سے لگ رہا تھا کہ2022کے انتخابات ہندوتوا اور ہندو بنام مسلمان ایجنڈے پر لڑے جائیں گے۔ 2017میں شمشان اور قبرستان کے نام پر بی جے پی نے میدان مار لیا تھا اب اس نے دھرم سنسد کا سہارا لے کر مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی شروع کی تھی ۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا 80بنام 20کا بیان بھی اسی کی چغلی کھاتا ہے۔ بی جے پی نے 2022کے انتخابات کیلئے جو حکمت عملی بنائی ہے اسی کے تحت بی جے پی کی انتخابات کو پولورائیز کئے جانے کے تمام حربے استعمال کر نے کی پوری تیاری تھی لیکن اب رام مندر سے لے کر متھرا، کا شی اورٹوپی لنگی کے شگوفے وغیرہ اور ایودھیا سے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو میدان میں اتارنے جیسی بی جے پی کی ساری کوششوں پر پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔ایو دھیا سے بی جے پی نے قدم واپس لے لئے ہیں اور گو رکھپور سے وزیر اعلیٰ کو لڑانے کا فیصلہ لیا ہے اور تو اور بی جے پی نے انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلہ کے اپنے نمائندوں کی فہرست میں اوبی سی کو سب سے زیادہ 40.18فیصد ٹکٹ بانٹے ہیں اور بی جے پی نے اپنے اوپر لگے ان الزامات کو دھونے کی کوشش کی ہے جو بی جے پی سے بغاوت کر نے والے او بی سی لیڈر سابق وزیر کا بینہ سوامی پرساد موریہ اور او بی سی سے تعلق رکھنے والے دوسرے باغیوں یعنی داراسنگھ چو ہان،ڈاکٹر دھرم سنگھ سینی جیسے سابق وزراء ا ور او بی سی طبقہ کے باغی ممبرانِ اسمبلی نے بی جے پی پر لگا ئے ہیں۔ ان سب باغیوں کے بیانا ت میں کا فی یکسانیت ہے جس سے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اچا نک نہیں ہوا اور اچانک بی جے پی میں بھگدڑ نہیں مچی بلکہ بہت پہلے اس کی اسکرپٹ لکھی جا چکی تھی۔یو پی کی سیاست اور بی جے پی کی حکمت عملی پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کی بنیاد 18دسمبر 2019کو اس وقت پڑ گئی تھی جب غازی آبادکے لونی کے اسمبلی حلقہ سے بی جے پی کے او بی سی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ممبر اسمبلی نند کشور گوجر کے ساتھ زیادتی کے مسئلہ کی یو پی اسمبلی میں آواز گو نجی تھی، اس آوازکو نظر انداز کئے جانے کے بعد اور او بی سی زمرہ کے بی جے پی کے ممبرانِ اسمبلی نے بی جے پی اور سرکار دونوں کے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔ اس وقت بی جے پی ہائی کمان نے جیسے تیسے اس کی لیپا پوتی کر کے معاملہ کو ٹھنڈا کرنے اور حالات پر قابو پانے کی کوشش کی تھی لیکن مسئلہ کو سنجید گی سے لینے اور اس کی گہرائی میں جا ئے بغیر سب کچھ رام بھروسہ چھوڑ دیا تھا ۔شکایات صرف او بی سی ممبرانِ اسمبلی ہی کو نہیں تھی او بی سی کی نما ئندگی کر نے والے بی جے پی کی یو گی سرکار میں کابینہ درجہ کے وزیر سوامی پرساد موریہ ،وزیر دارا سنگھ چو ہا ن اور ڈاکٹر دھرم سنگھ سینی کو بھی تھی۔ ان کا یہ احساس جڑ پکڑنے لگا تھا کہ ان کو وزارت کا قلمدان تو تھما دیا لیکن ہاتھ میں دیا کچھ نہیں اور ان کی حالت میر تقی میر کے اس شعر کے مصداق ہو گئی تھی کہ:
’ نا حق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
جو چا ہے سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بدنام کیا‘
ان وزراء اور ممبرانِ اسمبلی نے اپنی شکایات کے ازالہ کیلئے بی جے پی کے صو بائی صدر ستیندر دیو سنگھ سے لے کر پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا تک کوشش کی لیکن نتیجہ صفر رہا۔ و اقف کاروں کا کہنا ہے کہ سنگھ پریوار کے بڑے لیڈر بی ایل سنتوش نے بھی چند ماہ قبل سوامی پرساد موریہ سے ملاقات کی تھی اور ان سے ان کے درد کو سنا تھا لیکن سنا سب کیا کچھ نہیں۔ اس لئے کہ بی جے پی کو یہ خوش فہمی رہی کہ اور کچھ نہیں لیکن اقتدار کا دبدبہ چھوڑکر او بی سی کے وزراء اور ممبرانِ اسمبلی کیلئے کوئی جا ئے پناہ نہیں سوائے بی جے پی کی ہندوتوا کی چھتری کے ، لیکن شاید اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ بغاوت کے سُر عملی شکل اختیار کر سکتے ہیں ۔ 2013میں اکھلیش سرکار میں مظفر نگر کے بھیانک فساد کو بی جے پی نے ہندتوا کا ہتھیار بنا کر اکھلیش سرکار کے خلا ف جو گول بند ی شروع کی تھی اس میں او بی سی طبقہ کا اہم رول تھا اور مانا جا رہا تھا کہ بی جے پی کسی او بی سی چہرہ کو ہی وزیر اعلیٰ بنائے گی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ سنگھ پریوار کی ایماء پر غیر متوقع طور پر ہندو مہا سبھا اور ہندو یو وا واہنی کے لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ کو پیرا شوٹ وزیر اعلیٰ بنا دیا جو گورکھپور پیٹھ کے تو پٹھا دیش تھے ہی ہندوتوا کا بھی ایک ابھرتا چہرہ تھے اور اپنے جارحانہ تیور اور مسلم مخالف شبیہ بھی ان کی تھی اور وہ ہندتوا کے ایجنڈہ کو عملی شکل دے سکتے ہیں حا لانکہ وہ بی جے پی کے ممبر نہ کل تھے اور نہ آج ہیں۔ سنگھ پریوار اوربی جے پی ان کے سہارے اپنے ہندتواکے ایجنڈے کو آگے بڑھا نا چا ہتی تھی مگر بی پی سے یہ چوک ہو گئی کہ اس نے ہندوستان کی ذات برادری کھائی پر ہندوتوا کی چادر ڈال کر ایک ٹھاکر کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جبکہ یو پی میں ٹھاکروں کا او بی سی اور دلت طبقات سے ہمیشہ سے36 کا آنکڑ ارہا ہے۔ ٹھاکر وزیر اعلیٰ نے بی جے پی ہا ئی کمان کی طرف سے تھوپی گئی او بی سی زمرہ کے وزیروں کی فہرست پر تو انگلی نہیں رکھی لیکن سرکار کا کام کاج ان کے ہاتھوں میں نہ سونپ کر بیو روکریسی کے اعلیٰ افسران کی کمیٹی سے کام لینا شروع کردیا اور لاء اینڈ آڈر قائم رکھنے کیلئے یو پی پولیس کو کھلا ہاتھ دے دیا اور ٹھوکو والا فارمولہ پولیس کو تھما دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے ساتھ اس کا خمیازہ دلتوں اور او بی سی طبقات کو بھگتنا پڑا ۔ شہری علاقوں میں مسلمان اوردیہی علاقوں میں سماج کے او بی سی اور دلت طبقات سب سے زیادہ اس کے شکار بنا ئے گئے ہاتھرس میں دلت بیٹی کی عصمت دری میں پولیس اور سرکا کا جو چہرہ سامنے آیا وہ سب نے دیکھا ہے ۔دیہی علاقوں میں چھوٹے کسانوں میں او بی سی طبقہ کی کثرت ہے کسان کو مہنگی کھاد ، مہنگی بجلی ، مہنگے ڈیزل کی مصیبت کے ساتھ آوارہ مویشیوں نیل گائے سے لے کر بیل اور بچھڑوں کے ہاتھوں کھڑی فصلوں کی تبا ہی نے کہیں کا نہیں چھوڑا اورکورو نا کی مار بھی جھیلی ۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو نے والے ممبرانِ اسمبلی میں او بی سی کے ممبرانِ اسمبلی اور وزراء کو اپنے حلقۂ انتخاب کے ووٹروں کو جواب دینا بھا ری پڑ رہا تھا نہ وزارت کام آرہی تھی نہ اسمبلی کی ممبری رہی سہی کسر پولیس نے پوری کر دی تھی۔ ایسے میں یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی بنا بھوجن بھگوان کی پو جا نہیں ہوتی اور ہندوتوا کے نام پر سماجی انصاف سے محرومی کو دیر تک بر داشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے سوامی پرساد موریہ جیسے منجھے ہو ئے سیاستداں نے جو بی ایس پی کے اسکول کا پرا نا طالب علم اور کا شی رام جیسے سماجی انصاف کے داعی کا پیرو تھا اس نے گرم لو ہے پر چوٹ ما ر نے کیلئے صحیح وقت کا انتظار کیا جب الیکشن کمیشن نے انتخا بات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا اور عین اس وقت جب دہلی میں بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کو آخری شکل دی جا رہی تھی سوامی پرساد موریہ اور ان کے ساتھیوں نے بی جے پی کو زورکا جھٹکا آہستہ سے نہیں بلکہ زور سے ہی دیا اس کے بعد تو جیسے بی جے پی سے او بی سی کے ممبرانِ اسمبلی اور وزراء کے استعفوں کی جھڑی لگ گئی اور تین دن تک اس کے دھماکے ہو تے رہے اور سوامی پرساد موریہ نے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے 80بنام 20کا جواب 85بنام 15سے دیا اور کمنڈل کے ایجنڈے کے سامنے پھر سے منڈل کے ایجنڈے کو زندہ کردیا اور بی جے پی کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا اور انتہائی جا رحانہ حملوں سے بی جے پی کی نیند حرام کر دی سوامی پرساد مویہ کے جارحانہ تیور کا اندازہ ان کے مستعفی ہو نے کے بعد کے بیا نات سے ہو تا ہے انہوں نے کہا کہ ’سوامی پرساد موریہ روپی نیولہ بی جے پی اور سنگھ پریوار جیسے سانپ ناتھ اور ناتھ ناگ کو نگل جا ئے گا‘ اور یہ کہ میں جس کا ساتھ چھوڑتا ہوں اس کو ملیا میٹ کردیتا ہوں وغیرہ ۔
سوامی پرساد موریہ اور ان کے ساتھ بی جے پی سے مستعفی ہو نے والے او بی سی کے وزراء اور ممبرانِ اسمبلی نے سماجی انصاف کی لڑائی کو پھر سے انتخابات کا ایشو بنا دیا ہے اور بی جے پی کیلئے ایک بڑی مشکل کھڑی کر دی ہے اب بی جے پی اور جس کی کوکھ سے اس نے جنم لیا ہے سنگھ پریوار کی پوری کوشش ہے کہ سماجی انصاف بنام ہندوتوا کی اس جنگ کو کیسے رو کا جا ئے اور سماجی انصاف کو کیسے ہندتوا کی چادر سے پھر ڈھکا جا ئے اور کیسے اس مشکل سے نجات پائی جائے اسی لئے بی جے پی نے انتخابات کے دو مرحلوں 10اور 14فروری کی امیدواروں کی فہرست میں او بی سی امیدواروں کو ترجیح دی ہے۔ بی جے پی نے او بی سی مخالف الزامات کا جواب دینے اور اپنے اوپر ہو رہے حملوں سے نمٹنے کیلئے جہاں نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اورصو بائی صدر ستندر دیو سنگھ کو ذمّہ داری دی ہے اپنی حلیف جماعتوں کے لیڈران سنجے نشاد ، انو پریہ پٹیل جیسی او بی سی لیڈروں کو بھی آگے لا نے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے تیاری شروع کردی ہے ایسی خبریں آرہی ہیں۔اسی کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کے پسماندہ برادری سے تعلق رکھنے کا بھی زور شور سے پرو پیگنڈہ کرنے کی حکمت عملی بنا ئی گئی ہے ۔ بی جے پی کیلئے ایک دوسرا چیلنج یہ بھی ہے کہ اس کی حلیف جماعتیں اس کی مشکل کا فائدہ اٹھا تے ہو ئے دو گنا سیٹوں کا مطالبہ کرر ہی ہیں اور سماجی انصاف کی دہا ئی دے رہی ہیں اور منڈل کمنڈل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس میں جیت منڈل کی ہو تی ہے کہ کمنڈل کی ۔
ہر چند کہ بی جے پی سماجوا دی پارٹی کے غیر معروف کچھ چہروں کو بغاوت پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن یہ اس کے اپنے باغیوں کی بھر پائی نہیں ہے ،اب اس کی نظر بی ایس پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگا نے کی بھی ہے وہ اس میں کتنا کامیاب ہو تی ہے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ اس ووٹ بینک کی کلید (چابی ) بی ایس پی سپریمو کے پاس ہے۔ سیاسی گھاگ سمجھے جا نے والے یہ پیش گوئی کررہے ہیں کہ اگر بی جے پی دلت ووٹ میں نقب زنی نہیں کرسکی تو وہ پولنگ کے بعد ایک مرتبہ بی ایس پی سپریمو مایاوتی کو شیشہ میں اتار سکتی ہے اور کسی معاہدہ کے تحت بی ایس پی سے مل کر سرکا بنا سکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS