ہماری جدوجہد آزادی، آزادی کا امرت مہوتسو اور مسلمان

0

پروفیسر اخترالواسع

ہماری آزادی کو 75 سال ہوگئے۔ آزادی کا امرت مہوتسو اور جشن منانے کا ہمیں موقع ملا، اس بات پر ہم جتنا خوشی کا اظہار کریں وہ کم ہے۔ سارے ہندوستانی ایک دوسرے کو دلی مبارکباد دیں کیوں کہ آزادی کی لڑائی سب نے مل کر لڑی اور انگریزوں کے سامراج کو ختم کرنے کے لیے نہ جانے کتنے ہندوستانیوں نے اپنے خون سے اس کہانی کو سرخی عطا کی۔ 1757 میں پلاسی میں سراج الدولہ کی شہادت، 1799میںسرنگاپٹم میں شیرِ میسور ٹیپو سلطان کی قربانی، 1831 میں بالا کوٹ میں جماعت مجاہدین کی قربانی، 1857 میں آخری مغلیہ تاجدار بہادر شاہ ظفر کی علامتی ہی سہی، سربراہی میں تقریباً سارے ہندوستانیوں کا انگریزوں کے خلاف ایک جُٹ ہوجانا، دلّی، میرٹھ اور شاملی میں علماء حق کا انگریزوں کے خلاف فتویٰ دینا، ان کے خلاف جنگ کرنا، رانی جھانسی، بیگم حضرت محل، تاتیہ ٹوپے، منگل پانڈے، جنرل بخت خاں اور مولوی احمد اللہ کا جوش اور جذبہ ہی تھا جس نے انگریزی سامراج کے جمتے ہوئے قدموں کو تھوڑی دیر ہی کے لیے سہی اکھاڑ پھینکا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ بالآخر فتح انگریزوں کے حصے میں آئی اور انہوں نے انتقام لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کتنے ہزار علماء اور عام ہندوستانیوں کوتہہ تیغ کر دیا۔ کتنے اپنے مخالف امراء اور رؤسا کی جائیدادیں ضبط کرلیں۔ مولوی فضل حق خیرآبادی سمیت نہ جانے کتنے مجاہدین آزادی کو کالے پانی کی سزا دے کر انڈمان نکوبار میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ وقتی طور پر آزادی کے لیے جنگ کا جذبہ بظاہر سرد ہوتا نظر آرہا تھا لیکن آزادی کے لیے تڑپ اور انگریز سامراج کے خلاف مخالفت کا جنون ختم نہیں ہوا تھا، یہ دوسری بات ہے کہ وہ دبا ہوا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے اس جذبے نے ایک نئی انگڑائی لی۔ بال گنگا دھر تلک، گوپال کرشن گوکھلے جیسے لوگ اگر ایک طرف آزادی کے میرکارواں تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کی نئی نسل میں مولانا حسرت موہانی، خان عبدالغفار خاں، ڈاکٹر سید محمود، مولانا عبیداللہ سندھی، برکت اللہ بھوپالی اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اس جدوجہد آزادی کو نیا رخ دے رہے تھے۔ ریشمی رومال تحریک کے کارواں سالار شیخ الہند مولانا محمود حسن نے ہماری تحریک آزادی میں ایک نئے انقلابی عنصر کو داخل کیا۔ اُدھر نوجواں فکر، جواں ہمت اور شعلہ فگن امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال اور البلاغ کے ذریعہ حریت کو وہ صور پھونکا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کے لفظوں میں جس نے سوتوں کو جگا دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب کابل میں پہلی جلاوطن آزاد ہند حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ یہ حکومت ایک مسلم ملک میں اگرچہ علماء کی کوششوں کا نتیجہ تھی جس کے وزیراعظم برکت اللہ بھوپالی تھے تو وزیر داخلہ اور خارجہ مولانا عبیداللہ سندھی تھے لیکن ان لوگوں نے اس حکومت کا صدر ایم اے او کالج کے پروردہ راجہ مہیندر پرتاپ کو بنایا۔ 1919میں جلیاں والا باغ میں انگریزوں نے جس بربریت اور بہیمیت کا مظاہرہ کیا وہ آج بھی دردمند دلوں میں لرزہ پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ جلیاں والا باغ کا بیساکھی کے موقع پر یہ احتجاج سیف الدین کچلو کی صدارت میں ہونا تھا جنہیں انگریزوں نے پہلے ہی گرفتار کر لیا اور پھر لوگوں نے ان کی تصویر مسندِ صدارت پر سجا کر یہ جلسہ کیا، اپنی جانیں دیں لیکن آزادی کے جذبے کو زندہ رکھا۔ یہی وہ وقت تھا جب جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی شناخت قائم رکھنا، ہندو-مسلم اتحاد سے دستبردار نہ ہونا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کو کمزور نہ پڑنے دینا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب تحریکِ خلافت اور تحریکِ عدم تعاون کے باہمی تال میل سے انگریز تلملا گئے اور انہوں نے ہندو، مسلمانوں، سکھوں اور دیگر ہندوستانیوں کے اس باہمی اتحاد کو تار تار کر دینے کے لیے ہر حکمتِ عملی اپنائی۔ مہاتما گاندھی جنوبی افریقہ سے ہندوستان آچکے تھے اور انہوں نے عملی طور پر سیاسی اقدامات کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ وہ ہندوستان کے اور ہندوستانیوں کے حالات سے پہلے بخوبی واقفیت حاصل کرلیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد انہوں نے شخصی، فکری اور عملی طور پر جو کچھ کیا وہ اب کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ مہاتما گاندھی کا غربت کی آخری سطح پر زندگی گزارنے کا عملی نمونہ، عدم تشدد کو کمزوروں کا مؤثر ہتھیار بنا دینا اور باوجود ایک راسخ العقیدہ ہندو کے جو سناتن پرمپرا پر پوری طرح عمل پیرا تھا، انہوں نے جس طرح دیگر مذاہب کے احترام کے جذبے کو فروغ دیا اس نے انگریزوں کو حواس باختہ کردیا، ان کے ہوش اڑا دیے اور وہ ہندوستان کی آزادی کو تو نہ روک پائے لیکن چلتے چلتے تقسیم اور تفریق کے وہ بیج بو گئے جس سے آزادی کا جب سورج طلوع ہوا تو ہندوستان فرقہ وارانہ بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور ہندوستانی آج تک تقسیم کے اس ناگہانی صدمے سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرا پائے ہیں۔
آزادی کی اس لڑائی میں اگر ایک طرف کانگریس کے ساتھ خدائی خدمت گاروں نے اہم رول ادا کیا تو دوسری طرف مجلس احرار، نیشنل کانفرنس اور مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ 1923میں دہلی میں کانگریس کے سب سے کم عمر کے صدر بھی رہے اور اس کے بعد کانگریس کے سب سے طویل مدت تک بھی صدر رہے۔ جب آزادی مل گئی تو انگریزوں نے اس ملک کو جہاں چھوڑا تھا، وہاں سے اس کو آگے بڑھانے اور ہندوستانیوں کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے جواہر لعل نہرو کی قیادت میں سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر امبیڈکر، راج گوپال آچاریہ، بابو راجیندر پرساد اور رفیع احمد قدوائی نے ایک ایسی منصوبہ بندی کی جس نے ہندوستان کو آگے ہی بڑھایا۔ اگرچہ مہاتما گاندھی کی ناگہانی شہادت، 1971,1965,1948 اور 1999 میں پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی جنگیں اور 1961میں چین کی پُرفریب پالیسی کے تحت ہندوستان سے جنگ نے ہماری ترقی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا چاہا لیکن ہماری قیادتوں کو سلام اور ان سے بھی زیادہ ہندوستانیوں کی عظمتوں کو سلام جنہوں نے ہر نازک مرحلے سے گزرتے ہوئے بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے خواب کو کبھی منتشر نہیں ہونے دیا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہوئی کہ اگرچہ کچھ آوازیں ضرور ایسی اٹھیں کہ ہندوستان کو پاکستان کی طرح ایک مذہبی ریاست بنایا جائے لیکن ایک بار پھر سلام مہاتمام گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل، بابو راجیندر پرساد، سی راج گوپال آچاریہ اور ڈاکٹر امبیڈکر کو جنہوں نے ان آوازوں پر نہ تو کان دھرے اور نہ ہی ہندوستان کو مذہبی ریاست بننے دیا بلکہ اس کے برعکس ایک سیکولر جمہوریت کے طور پر ہندوستان کی نشوونما کی۔ دوسری طرف اس آزادی کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمان بھی ایک نئے اور خوشگوار تجربے سے دو چار ہوئے۔ اب تک وہ اس ملک میں یا تو حاکم رہے تھے یا محکوم لیکن اب نئے اور آزاد ہندوستان میں وہ نہ تو حاکم تھے نہ محکوم، بلکہ اقتدار میں برابر کے شریک تھے۔ تقسیم کے بعد جو صبرآزما ماحول انہیں ملا اس میں انہوں نے انتہائی تحمل اور شائستگی کے ساتھ نئے حالات سے اپنے کو جوڑے رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ مسلمانوں کی جو قیادتیں تھیں وہ اپنے ہی وطن میں بے وطنی کے احساس سے دوچار، اپنے ہم مذہبوں کی ہمت اور دلجوئی میں لگی رہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں اور فرقہ وارانہ فسادات کے موقعوں پر فائر بریگیڈ کا کام بھی کرتی رہیں۔
آزاد ہندوستان میں تین مسلمان صدر، تین نائب صدر، ایک کیبنٹ سکریٹری، ایک ہوم سکریٹری، ایک فارن سکریٹری، ایک ڈائریکٹر انٹلیجنس بیورو، ایک فضائیہ کے سربراہ، سپریم کورٹ کے چار چیف جسٹس، دو چیف الیکشن کمشنر، کشمیر میں تو سبھی لیکن بہار، مہاراشٹر، راجستھان، آسام، منی پور، پانڈیچری اور کیرالہ میں بھی ایک ایک چیف منسٹر مسلمان رہے۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنے گورنر، مرکز اور ریاستوں میں وزیر رہے۔ سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج ایک مسلمان جسٹس فاطمہ بیوی بنیں تو ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی سب سے طویل مدت تک ڈپٹی چیئر پرسن ڈاکٹر نجمہ ہیبت اللہ رہیں۔ ہندوستان کی طرف سے انٹارکٹکا (قطب جنوبی) میں پہلی مہماتی ٹیم کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر ایس زیڈ قاسم تھے جنہوں نے نئے یُگ کی گنگوتری کی وہاں تعمیر کی اور یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ ان کے ڈپٹی لیڈر بھی ڈاکٹر صدیقی مرحوم ہی تھے۔ اسی طرح میزائل مین کے طور پر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ اسی طرح ملک کی حفاظت میں اپنی جان دینے والوں میں بریگیڈیر عثمان سے عبدالحمید سمیت اور کیپٹن سیفی جیسے انگنت شہیدوں کو نہیں بھلایا جاسکتا۔ نئے یُگ کے مہارشی ویاس بن کر جس طرح ڈاکٹر راہی معصوم رضا نے مہابھارت کو ٹی وی کے لیے رچا اسے کون بھلا سکتا ہے۔ اسی طرح ہندوستانی فلم انڈسٹری ہو یا کھیلوں کی دنیا، مسلمانوں نے ہر ہر شعبے میں جو امتیاز حاصل کیا، شہرت پائی اور ملک کے لیے ناموری کا باعث بنے، ان کے نام اور کام کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہندوستان میں وِپرو والے عظیم پریم جی ہوں یا سِپلا والے خواجہ حمید صاحب کے خاندان کے لوگ، اسی طرح ہمدرد کے حکیم عبدالحمید ہوں یا ہمالیہ کے مَنال خاندان کے لوگ ہوں، آج کوئی ہندوستانی انہیں فراموش نہیں کرسکتا۔
آخر میں یہ بات کہتے چلیں کہ آج جب ہم بڑے فخر و انبساط کے ساتھ اپنی آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر ملک بھر میں ہر گھر ترنگا لہرانے کی مہم چلا رہے ہیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ترنگے کو ایک مسلم خاتون بیگم ثریا طیب جی نے یہ شکل دی تھی جسے ہمارے قومی رہنماؤں نے بخوشی قبول کیا تھا۔
آئیے آج ہم عہد کریں کہ اس ملک میں فتنہ و فساد، فرقہ وارانہ تناؤ اور کسی طرح کے سماجی بھیدبھاؤ کو پروان نہ چڑھنے دیں گے اور اپنے ملک کی عظمت اور قومی اتحاد کے لیے سب ایک جُٹ ہوکر ہندوستان کی عظمت کو دوبالا کرنے کے لیے کام کریں گے۔آزادی کا امرت مہوتسو کی دلی مبارکباد۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS