ابو زید عبدالرزاق محمدی
اپنے بچوں کی پیٹھ اور سر پر تھپکیاں دیتے دیتے ہمارے ہاتھ تھک جاتے ہیں ہم انہیں روز نئی نئی سریلی لوریاں سناتے ہیں تاکہ وہ سوجائیں۔ لوریوں کے ساتھ ساتھ کچھ قرآنی آیتیں ، حدیثیں اور سنہرے جملے ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں بار بار دہراتے دہراتے ہماری زبان خشک ہوجاتی ہے لیکن اس لیے دہراتے ہیں کہ وہ جملے ہمارے معصوم بچوں کو یاد ہوجائیں۔ لوریاں سنتے سنتے جیسے ہی ان کی آنکھیں جھپکی لینے لگ جاتی ہیں، ہمارے دل ان کی میٹھی آواز، ان کی ہنسی بلکہ ان کے شور شرابے اور ان کی شرارتوں کے لیے بے چین اور مشتاق ہوجاتے ہیں۔ ہم کنڈرگارٹن ، نرسری کی پہلی سیڑھیاں ان کے ساتھ چلنے کے لیے دن اور راتیں گنتے رہتے ہیں.. اور جیسے ہی ہم انہیں ٹیچر کے پاس چھوڑ کر گھر یا آفس جاتے ہیں ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے ہمارے دل کا ایک ٹکڑا خود سے رخصت کر دیا ہے۔
ہم اپنے بچوں کی زبان سے “مجھے اپنے ماں باپ کے پاس جانا ہے” کے لفظ سن کر ان کے سامنے بہادر ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں۔ اور ہم ان آنسوؤں کو چھپاتے ہیں جو ان کے آنسوؤں سے پہلے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ اب کے بعد دوسرے انہیں تعلیم دیں گے اور زندگی کا سبق سکھائیں گے۔ہمارے بچوں کا ایک خاص دوست ہوگا جو اپنے کھلونے ان کے ساتھ بانٹ دے گا۔کئی عام دوست ہوں گے جو ہمارے بچوں کے ساتھ قدم. بقدم چلیں گے۔ ان کے راز اور بدبختی ساری چیزوں کے راز داں بن جائیں گے۔
پھر ایک دن آئے گا۔ ہمارے پہلو ان کی خواب گاہوں سے دور ہو جائیں گے ، کیا اس سے پردہ ہٹا دیا ہے؟، کیا یہ دوا مفید ہے؟، کیا آپ کو ہجے کے الفاظ یاد ہیں؟، کیا اچھا ہے وہ دوست؟، یا اس کو بہکا کر گمراہ کر دیا؟ دن تیزی سے گزر جاتے ہیں، اس کی بہن جیسا کوئی صفحہ نہیں ہے۔
بہنوں کی لاپرواہ چوٹیاں نقاب سے ڈھک جائیں گی.. اور وہ بے ریش گال بھر جائے گا، داڑھی کے ساتھ۔ اور اب مزیدار زبان کی جگہ ایک سریلی آواز لے لے گی۔ اور آخر میں، ہم ان کے ہاتھ ان کے ساتھیوں کے ہاتھ میں ڈال دیں گے۔ تاکہ وہ ان کے ساتھ زندگی کا راستہ طے کرسکیں۔ تاکہ ان کے دوست ان کے دکھ اور سکھ بانٹ لیں۔ ان کی ناکامیاں اور کامیابیاں تقسیم کرلیں ۔
پھر کچھ عرصہ بعد ہم بچوں کے گھروں میں مہمان بن جائیں گے۔ اور وہ ہمارے گھروں میں مہمان بن کر رہیں گے.. دیواروں پر آویزاں گونگی تصویر کی طرح بے حس و بے حرکت بن کر اسمارٹ فونز سے نکلنے والی ہلکی آواز کی طرح ہم بھی گمنامی کی چادر اوڑھ لیں گے۔ یہی ہوتا چلا آرہاہے۔ یہی ہوتا رہے گا کبھی ہم نے اپنے والدین کے ساتھ کیا تھا اور ہمارے بچے ہمارے ساتھ کرتے ہیں دیر سویر ہمیں اس نیچرل پروسیس کو بخوشی قبول کرلینا چاہئے۔بھری گود سے خالی گود کے اس سفر کو آج ہماری دنیا میں یوں کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ بہت خوش ہیں۔