چاند مٹھی میں

0

ناہید طاہر
کرسٹینا، ہالی وڈ کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ رہی تھی، لیکن دولت کی انبار سے وہ اُکتا چکی تھی۔وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی تھی۔سکونِ قلب جس کی تلاش میں سرگرداں وہ بھٹکتی چلی گئی ۔پھر ایک دن اس نے شادی کرلی ۔ افسوس پھر بھی سکون حاصل نہیں ہوسکا ۔ البتہ بے سکونی سے دامن بھر گیا اور تین سال کی شادی شدہ زندگی میں خاندان اور سماج نے بانجھ کےلقب سے نواز کر اس کی ذات اور انا کو مجروح کیا۔اس نے دلبرداشتہ ہوکر شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی ۔
انسانی زندگی ،تشدد ، مفلسی کے سبب پیش آنے والے مسائل اور ان کے حل کی تلاش کے لیےدنیا کا دورہ کیا۔ پیسہ پانی کی طرح بہا کر لوگوں کی مدد اور ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش بھی کی ، سکونِ قلب پھر بھی حاصل نہیں تھا۔تب اس نے فلم انڈسٹری کو خیر باد کہتے ہوئے عرب ممالک کا رخ کیا ، مصر پہنچی تو وہاں عجیب و غریب واقعےنے اس کی زندگی ہی بدل دی۔
شام کا وقت تھا۔سورج ڈوب رہا تھاکہ اچانک صحرائی آندھیاںآئیں اور ریت کا طوفان اٹھا تو سیاحوں میں ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔سنہری کرنیں ریت کی گرد میں مکمل ضم ،چہارسو سرخ رنگ کے غبار نما بادل بناتے چلے جا رہے تھے ۔ آسمان یا زمین کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔بس دھول ا ورگرد کا ہیولیٰ تھا۔سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔کرسٹینا نے دوڑ کر ایک نہایت بوسیدہ گھر کا رخ کیا ۔ اس گھر کےدروازے پر ضرب لگانی چاہی، جس کی ٹوٹی ہوئی دہلیز پر ٹاٹ کا پردہ لٹک رہا تھا ۔اندر سے فرحت بخش معطر جھونکوں کا احساس جیسے روح میں اترتا محسوس ہوا۔اس نے دستک کا ارادہ ترک کیا اور بڑی آہستگی سے اندر داخل ہوئی۔ وہاں اس نے دیکھا ایک دبلا پتلا سا نوجوان اپنی ضعیف ماں کے گیلے بالوں کو تولیہ سے خشک کرتا ہوا برش کررہا تھا۔شاید اس نے ضعیف العمر خاتون کو کچھ دیر پہلے غسل کروایا تھا۔وہ بار بار جھلا کر بال بنانے سے انکار کرتیں تو نوجوان انھیں بڑے پیار سے شیریں لہجے میں مناتا ہوا برش کرنے لگتا۔جب اس نے بال بنادیئے تو بڑے پیار سے بڑھیا کا ماتھا چوما اور اپنے ہاتھوں سے اسےکھانا کھلانے لگا۔ہر لقمے پر وہ منہ بناتی ہوئی کھانے سے صاف انکار کردیتی ۔
’’ماں!چڑیا نے کھانا کھایا ایسے۔’بلی نے کھایا ایسے۔‘
’’چوہے نے کھایاایسے۔‘‘ اس بار ماں کھل کھلا کر لقمہ پر جھپٹ پڑی۔
عربی زبان کرسٹینا جانتی تھی، اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ سوچنے لگی آج کے دور میں کوئی اولاد اپنی ماں کی اس حد تک خدمت کرسکتی ہے بھلا؟بڑھیا نے بڑےسکون سے کھانا ختم کیا تھا۔نوجوان نے اسےپانی پلا کر تولیہ سےاس کا منہ صاف کیاکہ اچانک کمرے میں کسی کی موجودگی کومحسوس کرتا ہوا وہ پلٹا۔سامنے کھڑی کرسٹینا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
’آپ؟‘ وہ نوجوان حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔
’’ معذرت خواہ ہوں ۔ میں بغیر اجازت کے اندر داخل ہوئی۔دراصل باہر ریت کا طوفان…‘‘ نوجوان نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
’ معذرت چاہ کر شرمندہ نہ کیجیے گا۔یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آپ میرے غریب خانےمیں تشریف لائیں۔‘کچھ پل خاموشی کی نذر ہوئے، پھر وہ نوجوان گویا ہوا:’’آج کل پورے شہر میں آپ ہی کے چرچے ہیں۔‘‘ وہ کرسٹینا کی شہرت سے متاثر باہر جھانکا،جہاں اس کے مداح کھڑے اس کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے تھے ۔طوفان میں کچھ کمی آئی تھی۔’ماں کی عمر جان سکتی ہوں؟‘ کرسٹینا نے لبوں پر مسکراہٹ سجائے استفسار کیا۔
’ ایک سو پانچ سال۔‘
’ ایک سو پانچ؟‘ حیرت سے کرسٹینا کا منہ کھلا رہ گیا۔
’’ ماشاءاللہ کہیں،ورنہ نظر کا خدشہ ہوگا۔‘‘نوجوان نے بڑی محبت سے ماں کو نہارتے ہوئے کہا۔جواب میں وہ شرمندگی سے ہنسی اور ’’ماشاءاللہ‘‘ کہا ۔
’کون ہے؟‘ماں اپنی موٹی عدسوں کی عینک کے اوپر جھریوں بھرے ہاتھ کا سایہ بنا کر سوال کررہی تھیں۔
’’ ماں! یہ ایک امریکی سیاح ہیں۔‘‘
’’ اچھا،مصر کی آثارِ قدیمہ دیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘ماں نےاپنی جانب انگلی کا اشارہ کیااور پُر مزاح لہجے میں کہتی ہوئی ہنس پڑیں۔
’سو سویٹ!‘ کرسٹینا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
’’آپ سوچ رہی ہیں ناں،؛ خاتون نے اس قدر لمبی عمر کیسے پائی؟‘‘
’’ سوچنے والی کیا بات ہے۔آپ کو اوپر والے نے حیات بخشی۔سو آپ زندگی کے مزے لوٹ رہی ہیں۔‘ کرسٹینا کے لہجے میں عقیدت چھلک آئی۔
’ اس کم بخت نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے مکہ لے جائے گا۔کعبہ کا دیدار کرائےگا۔بس اسی امید نے مرنے نہیں دیا۔‘کچھ توقف بعد منہ بنا کر گویا ہوئیں: ’کتنے سال گزر گئے، اس کم بخت کی مصروفیات ختم ہی نہیں ہوتیں ۔‘‘
’خاک مصروفیات۔میں ایک درماندہ ،خستہ حال انسان،مکہ کا سفر؟ سوچ بھی نہیں سکتا۔‘ اس نے نظریں چُرا کر کہا تو کرسٹینا دونوں کی گفتگو سے محظوظ ہوئی۔
بڑھیاجھلائی:’ پھر زندگی بھر خدمت کرتا رہ۔ماں مرنے والی نہیں۔دیکھ لینا ۔‘ وہ بچوں کی مانند ضد کرتی ہوئی منہ پھلاکر اپنا چہرہ دیوار کی جانب پھیری ،پھر ناراض ہوگئی۔دوسرے دن اس نے نوجوان سے ملاقات کی اور اس سے مکہ مکرمہ کے ٹکٹ کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھانے کی اجازت طلب کی۔’’میں آپ سے پیسہ نہیں لے سکتا ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘’’کیوں میں کسی سے قرض یا ہدیہ قبول کروں؟ جبکہ میری ماں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔میں اپنی کمائی سے ماں کو مکہ لے جاؤں گا۔‘کرسٹینا کچھ دیر اس خود سر نوجوان کو دیکھتی رہی پھر اس نے سکریٹری سے اسی وقت اپائنٹمنٹ لیٹر تیار کروایا ،اور اسے اپنی اس کمپنی میںجو دنیا کی گنی چنی کمپنیوں میں شامل تھی ،مینیجر کی پوسٹ دے دی ۔’جو انسان دنیا کے سب سے مقدس رشتے کو اس قدر خوش اسلوبی سے نبھارہا ہو، وہ دنیا کے کسی کام میں غیر ذمے دار نہیں ہوسکتا۔‘‘ کرسٹینا نے متاثر کن لہجے میں کہا۔
کچھ ہفتوں بعد ایک دن اس نوجوان کا فون آیا تو کرسٹینا نے فوراً فون اٹھالیا۔’آپ کی ماں اب خوش ہیں؟‘
’’ہاں،وہ بہت خوش ہیں،ساتھ ہی ،میں بھی بہت خوش ہوں۔‘‘’ اچھا۔‘کرسٹینا ہنسی۔
’’میری ماں نے میرے حق میں تین دعائیں کی تھیں۔الحمدللہ دو دعائیں قبول ہوگئیں۔اب تیسری دعا کی قبولیت کا شدید انتظار کررہا ہوں۔‘‘
’’ تعجب کا مقام ہے،دعاؤں میں اس قدر قوت!؟‘‘
’’بالکل۔ آپ اگر اسلام کی اسٹڈی کریں گی تو پتہ چلے گا کہ دعاؤں میں اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی طاقت رکھی ہے۔پتھر سے چشمے بہادے، آسمان سے من وسلویٰ نازل کروادے،آگ کو گلزار بنادے، یہ سب دعائیں ہی تو تھیں۔‘‘
’’میں کچھ نہیں سمجھی،لیکن مجھے سمجھنا ہے،جاننا ہے ۔ویسےکیا میں جان سکتی ہوںکہ آپ کی ماں نے کیا دعائیں کی تھیں ؟‘‘
’’جب بھی میں ان کی مکمل صفائی کرتا اور ان کی خواہش پر وضو کرواتا، تو وہ مجھے دنیا و آخرت کی سرخروئی کی دعائیں دیتیں اور آخر میں یہ ضرور کہتیں: رب!مجھے اپنے افسر بیٹے کے ساتھ تو اپنےگھر کا دیدار نصیب کر۔‘‘
اوہ!اب تم افسر بن گئے ہو اور ماں کو عمرہ بھی کروایا۔‘‘’’ہاں،الحمدللہ۔‘‘
’’تیسری دعا جان سکتی ہوں؟‘‘
’’بیٹا یعنی کہ میں، جنت کے اعلیٰ درجات میں اپنے والدین کے ساتھ داخل ہوجاؤں، جہاں میرے بچوں کی چھوٹی سی فوج اور اس کی سپہ سالار پہلے سے میرا انتظار کررہی ہو۔‘‘
مکہ مکرمہ سے واپسی پر نوجوان نے اطلاع دی کہ ماں کا راستے میں انتقال ہوگیا ہے ۔کرسٹینا اداس ہوگئی۔پھر اس نے فلائٹ سے وہاں پہنچ کر نوجوان کو حیران کردیا۔
’’ابراہیم! میں اُس فوج کی سپہ سالار بننا چاہتی ہوں۔‘ بنا تمہید کے نہایت شائستگی اور ملائمت سے جب اس نے اپنی خواہش ظاہر کی توابراہیم کی حیرت کی انتہا نہیں تھی۔ کرسٹینا پر ایک جہاں فدا تھا، جس میں وہ بھی تو شامل تھا۔ وجود پر عجیب سا سحر طاری ہوا، دوسرے ہی پل وہ کرسٹینا کی نگاہِ شوق سے نظریں چُراتا گویا ہوا:’کافر کے لیے جنت میں کوئی جگہ نہیں۔‘
جواب میں وہ زور سے ہنسی ۔اس کی جلترنگ ہنسی دل کے بند دروازے پر دستک دیتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ’آف کورس ،سپہ سالار مسلمان ہی ہوگی۔کائنات کی بہت سی نشانیاں ایسی ہیں، جنھیں دیکھنے کے بعد اللہ کی ذات پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ان نشانیوں میں ایک تم بھی ہو،ابراہیم! محبت بھی عجیب شے ہے، اس کی حدود نہیں ،کوئی سرحد نہیں،یہ خود ماورائی ہے۔‘‘
ایک ہفتے کے اندر ان دونوں نے شادی کرلی۔حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ شادی کے تیسرے ماہ کے بعد کرسٹینا، جس کی روح کو لوگوں نے بانجھ کے نشترنمالفظ سے لہو لہان کیا تھا ،ماں بننے جارہی تھی۔

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS