ذات پرمبنی مردم شماری

0

ذات پر مبنی مردم شماری کی جو سیاست بہار سے شروع ہوئی ، وہ اب ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں بھی داخل ہوگئی۔ سماجوادی پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ مختلف اضلاع میں بلاک سطح پر سمینار کر کے دیگر پسماندہ طبقات سمیت سبھی ذاتوں کی ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے پر لوگوں کو بیدار کرنے کا کام کرے گی ۔اس سے قبل ریاست میں اسمبلی انتخابات کے وقت پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئی تو 3ماہ کے اندر ذات پر مبنی مردم شماری کرائے گی۔لیکن نہ اقتدار میں آئی اورنہ ایساہوسکا ۔ایک سال تک خاموش رہنے کے بعد ایک بارپھرپارٹی نے مہم چلانے کا اعلان کیا ہے ۔ وہ اپنی مہم کے پہلے مرحلہ کا آغاز24 فروری سے کرے گی، جو 5مارچ تک چلے گی ۔ اس کے نتائج کیا برآمد ہوں گے ، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔لیکن جس طرح ذات پر مبنی مردم شماری کا معاملہ زور پکڑرہا ہے۔مستقبل میں یہ سیاسی ہی نہیں انتخابی ایشوبھی بن سکتا ہے ۔پھر سیاسی پارٹیوں کیلئے گلے کی ہڈی بن جائے گا ۔ ابھی حال یہ ہے کہ ذات پر مبنی سیاست کرنے والی پارٹیاں توکھل کر بول رہی ہیں لیکن جو مخالف ہیں ،وہ بھی کھل کر مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کرپارہی ہے ، کیونکہ مسئلہ ملک کی سب بڑی آبادی پسماندہ طبقات کا ہے ،جن کو کوئی بھی پارٹی ناراض کرکے خطرہ مول لینا چاہتی ۔ اس لئے کچھ سیاست کررہی ہیں توکچھ خاموش ہیں لیکن بدلتے حالات کو نظر اندازنہیں کررہی ہیں ،بہت باریکی سے صورت حال پر نظر رکھ رہی ہیں ۔اگران سے سوال کیا جاتا ہے دبی زبان میں حمایت میں بول کر آگے نکل جاتی ہیں۔
اگر یہ کہا جائے توغلط نہیں ہوگاکہ ذات پر مبنی مردم شماری منڈل تحریک ہی کا حصہ ہے اوریہ کام اسی وقت ہونا چاہئے تھا، لیکن نہیںہوا ۔ 1990میں جب منڈل کمیشن کی سفارشات نافذکی گئیں تو 1931 کی مردم شماری کی رپورٹ کی بنیاد پر اوبی سی کو تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں 27فیصد ریزرویشن دیا گیا تھا۔ ساتھ یہ بات کہی گئی تھی کہ ذات پر مبنی مردم شماری ازسرنوہونی چاہئے لیکن وہ دن اورآج کا دن ،اب تک کسی بھی حکومت نے ایسی مردم شماری نہیں کرائی ۔آزادی سے پہلے ذات پر مبنی مردم شماری ہوتی تھی اور آخری مردم شماری 1931میںکرائی گئی تھی۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ موقوف ہے اورآگے کب تک موقوف رہے گا ، کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔مطالبہ ہورہا ہے ، بیانات بھی دیئے جارہے ہیں ۔ حتیٰ کہ بہار کابینہ نے اس وقت ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے فیصلہ کو منظوری دی تھی ، جب نتیش کمار کی سرکارمیں بی جے پی شامل تھی اوراس نے مخالفت نہیں کی ، پھر بہار اسمبلی اور قانون ساز کونسل سے متفقہ طور پر قراردادمنظورکرکے مرکزی کو بھیجی گئی ، لیکن مرکز نے اس پر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ مرکز ہری جھنڈی دکھائے بھی کیسے ،جب وہ اس کے خلاف ہے۔اس نے لوک سبھامیں صاف صاف کہہ دیا کہ اس نے درج فہرست ذات وقبائل کے علاوہ ذات پر مبنی مردم شماری نہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ویسے مردم شماری میں ہرشہری کی عمر، جنس، تعلیم، پیشہ، مذہب اور زبان کی جانکاری کے ساتھ درج فہرست ذات وقبائل کی آبادی کی معلومات جمع کی جاتی ہیں ،لیکن ان میں سے صرف درج فہرست ذات وقبائل کے لوگوں کو ہی آبادی کے حساب سے سرکاری ملازمتوں اورتعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں ریزرویشن دیا جاتا ہے۔اب بلدیاتی اورپنچایتی اداروں میں خواتین کو ریزرویشن دیا جارہاہے۔ رہی بات اوبی سی کی توانہیں بہت پرانے ڈیٹا کے حساب سے صرف سرکاری ملازمتوں، تعلیمی اداروں اورپنچایتی انتخابات میں ریزرویشن دیا جارہا ہے۔ جبکہ ذات پر مبنی مردم شماری کے حامیوں کا کہنا ہے کہ او بی سی کی مردم شماری کراکے ہر جگہ انہیں آبادی کے حساب سے حقوق دیے جائیں ۔
مرکزی حکومت نے اپناموقف پارلیمنٹ میں بتادیا ۔لیکن جس بہار سرکارنے اسمبلی اورقانون سازکونسل سے قرارداد منظورکرائی ۔ اس نے 2سال بعد بھی مردم شماری نہیں کراسکی، حالانکہ نتیش سرکارنے واضح طورپر کہا تھا کہ مرکز مردم شماری کرائے یا نہ کرائے ، وہ ضرور کرائے گی ۔ اس کامطلب یہی ہوا کہ ابھی اس پر صرف سیاست ہورہی ہے اوراسے ایک ایک ایساانتخابی ایشو بنایا جارہا ہے کہ جوپارٹیاں مخالف ہیں ، وہ بھی دبائو میں آکر تیارہوجائیں ۔منڈل کی طرح اسے ایشوبنانے پھر اس کا پھل کھانے میں وقت لگے گا ۔بہاراوریوپی میں اس تحریک نے زورپکڑا تو یقیناپورے ملک کو اپنی زد میں لے لے گی اورشایدکوشش یہی ہے ۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS