شیخ عائشہ امتیازعلی
بروز پیر12ربیع الاوّل عام الفیل پیارے نبیؐ کے والد ماجد کا انتقال آپؐ کی ولادت سے پہلے ہی بحالت سفر مدینہ منورہ میں ہوچکا تھا۔ آپؐ کی کفالت آپؐ کے دادا عبد المطلب نے کی اورحضرت سیدہ حلیمہ سعدیہؓ نے دودھ پلایا۔پھر آپؐ کی عمر مبارک ۶سال کی ہوئی تو آپؐ کی والدہ ماجدہ آپؐ کو مدینہ آپ ؐکے ننھیال لے گئیں، واپسی میںابواکے مقام پران کا انتقال ہوگیا اور آپؐ کی پرورش ام ایمن کے سپرد ہوئی۸سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے آٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ ؐکے چچا ابو طالب نے لیا۔۹سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور۲۵سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے ۲ماہ بعد حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓسے نکاح ہوا ۳۵سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرکعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے۔حجر اسود کے بارے میں قریش کے الجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا، جس پر سبھی خوش ہوگئے۔آپؐ یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ مکمل بت پرست تھا مگر آپ ؐبغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی ۔یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپؐ کو صادق و امین کا خطاب دیا۔
بچپن میں رسول اللہ نے چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں بھی چرائیں مگر بعد میں آپؐ کو خلوت پسند آئی۔ چنانچہ غار حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتے، نبوت سے پہلے آپؐ سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔پیارے نبیؐ کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور امت کیلئے مینار ہدایت ہے۔نبوت سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا، امت کیلئے اس میں ہدایت موجود ہے۔ آپ ؐکے دودھ پینے کا زمانہ ہے لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپؐ کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپؐ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں۔حضرت حلیمہ سعدیہؓ ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں لیکن آپؐ اسے قبول نہیں فرماتے کیونکہ وہ آپؐ کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔
پیارے نبیؐ کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور امت کیلئے مینار ہدایت ہے۔نبوت سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا، امت کیلئے اس میں ہدایت موجود ہے۔ آپ ؐکے دودھ پینے کا زمانہ ہے لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپؐ کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپؐ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں۔
کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور’’ التاجر الصادق الامین ‘‘(امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے اوراس لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپؐ کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے۔ چنانچہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپؐ کو ہمیشہ سچا پایا۔جب پیار ے نبیؐ کی عمرمبارک ۴۰کوپہنچی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو نبوت سے سرفراز فرمایاآپ ؐغارحرا میں تھے کہ جبرئیل ؑسورہ اقراء کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے،اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔وحی آسمانی آپؐ تک پہنچانے کے لیے جبریل امین ؑکا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیائؓ اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔’’بے شک یہ( قرآن) ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کے اسوہ میں دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی مضمر رکھی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اتباع کو لازم قرار دیا، فرمان الہٰی ہے:’’ (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دوکہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا‘‘(آل عمران-31)۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمان الٰہی اور ارشاد نبویؐ کی تعمیل کروغرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرمؐ کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔qq
ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click: https://bit.ly/37tSUNC