اندھیرے کو چیرنا ہے تو پکڑ لیں سچے لوگوں کا ساتھ

0

عمیرکوٹی ندوی

ہر پل ایک نیا معاملہ پیش آجاتا ہے، ایک نئی صورت حال سامنے آجاتی ہے، ایک تکلیف کی شدت کم بھی نہیں ہوتی کہ اس سے کہیں زیادہ تکلیف سے سامنا ہوجاتا ہے۔ خوف و ہراس کی تہہ پر تہہ جمتی اور موٹی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت حالات تنگ ہیں لیکن وطن عزیز میں صورتحال قرآن مجید کے مطابق کچھ اس طرح کی ہوگئی ہے کہ ’’جیسے بہت گہرے سمندر میں اندھیروں کی مانند، اس پر چڑھ آتی ہے ایک لہر، اس کے اوپر ہے ایک اور لہر، اس کے اوپر بادل ہے، اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہیں، جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی دیکھ نہ سکے‘‘(سورہ النور – 40)۔ اس طرح کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہے جن کے بارے میں اسی آیت کے آخری حصے میں کہا گیا ہے کہ’’ اور جسے اللہ ہی نے نور نہ دیا ہو اس کے لیے کہیں نور نہیں ہے‘‘ بلکہ ان کے ساتھ ہے جنہیں اللہ نے نور سے نوازا ہے،لیکن اس نور سے فائدہ اٹھانے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانے کی جگہ وہ جس راستہ پر چل پڑے ہیں وہ گمراہی کا راستہ ہے،گندگی کے ڈھیر کی طرف جانے والا راستہ ہے۔ اسی وجہ سے اللہ نے نور والوں کو بھی گمراہ لوگوں کی طرح گھپ اندھیرے میں چھوڑ دیا ہے جس میں وہ’’بھٹک رہے ہیں‘‘۔ اللہ نے اسی پر بس نہیں کیا، الٹاگمراہ لوگوں کو ان پر مسلط بھی کر دیا ہے۔ اب یہ گمراہ لوگ اس طرح سے نور والوں پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں جیسے بھوک کے مارے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

 ان حالات میں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اندھیرے کو چیرنے، گمراہی سے باہر آنے اور حالات کی سختی و آزمائش سے نکلنے کے لئے بس کرنا یہ ہوگا کہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی مرضی کو شامل کرکے اسے درست کرلیں، اللہ سے ڈر کر برائیوں سے پلہ جھاڑ لیں اور معاملات میں جمنے اور کامیاب ہونے کے لئے سچے لوگوں کا ساتھ پکڑ لیں۔

حالات کو دیکھ کر صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ وہی وقت ہے جس کے بارے میں حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ ’’وہ وقت قریب ہے جب تمہارے اوپر دوسری قومیں اس طرح ٹوٹ پڑیں گی، جیسے کہ بھوکے کسی پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘(ابو داؤد – 4297)۔ اس حدیث میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ تعداد کی کثرت کے بعد بھی مسلمان’سیلاب کے جھاگ کی مانند‘ اس وجہ سے ہو جائیں گے اور ان کی یہ حالت اس لئے ہوگی کیونکہ ان کے اندر’وہن‘ یعنی دنیا کی محبت اور موت کا خوف گھر کر جائے گا۔ واقعہ یہی ہے کہ دنیا کی محبت اور موت کے خوف نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ یہ لوگ دنیا کی محبت میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ چند سکوں کے لئے ایک دوسرے پر گرے پڑ رہے ہیں، انتہائی معمولی فائدہ کے لئے ایسا لگتا ہے کہ ایک دوسرے کو بھنبھوڑ ڈالیں گے، پھاڑ کھائیں گے۔ صرف امید ہی نہیں وہم ہونے پر وہ وہ حماقتیں کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر عقل والا سر پیٹ لے۔ موت کا خوف اس قدر طاری ہے کہ ذرا سی آزمائش اور سختی پر دوسروں کو پسند باتیں کرنے حتی کہ کفر تک بکنے لگتے ہیں۔ حق بات کہنے اور حق والوں کا ساتھ دینے کے بجائے گہری چپی سادھ لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ کہیں اور کی بات نہیں ہے اور نہ محض الزام تراشی ہے، یہ وہ چیز ہے جس کا مشاہدہ نور والوں کے درمیان ہر کہیں اور ہر معاملے میں ہوجاتا ہے۔
حالانکہ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے پیدا کرنے والے نے صاف صاف بتا رکھا ہے کہ ان کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے۔ یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ اس دنیا میں ’امت وسط‘ ہیں، ان کا مقام ’خیر امت‘ ہے۔ اس حیثیت سے ان کے ذمہ کام یہ ہے کہ’لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں اور برائی سے روکیں‘، اس کام کے لئے ضروری بتایا گیا ہے کہ وہ خود بھی اس پر عمل کریں۔ عمل نہ کرنے والوں کے تعلق سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ کہاگیاہے کہ ’’اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو‘‘(الصف- 3)۔ اس کے باوجود انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے کہ وہ امت وسط ہیں، احساس تو دور اکثریت کو تو اس کا پتا تک نہیں ہے، ایسے میں بھلا وہ خیرِامت ہونے کی ذمہ داری کیسے ادا کرسکتے ہیں۔اس بے خبری کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ کردار میں بہت نیچے چلے گئے، ان سے بھی نیچے جنہیں ہمارے ملک میں پستی کے غار میں پہلے ہی دھکیل دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں اس امت پر آفت آپڑی ہے، آزمائش کا ناختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ’’ہم تم کو کچھ ڈر، بھوک اور مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان میں ضرور مبتلا کریں گے‘‘(البقرہ – 155)۔
ڈر سے گرچہ اچھے اچھوں کی بولتی بند ہے، جان، مال، کھیت، کھلیان، گھر، دکان، عزت، آبرو ہر چیز نشانہ پر ہے، نور والوں کوپر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نور اللہ کا ہے اور اس کی روشنی میں انہیں گھپ اندھیرے کو چیر کر راہ تلاش کرنی ہے۔ تمام مکر و فریب کے باوجودگمراہی ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پائے گی۔ یہ آزمائش، بلائیں اور مصیبتیں تو نور والوں کو بلندی پر لے جانے کے لئے ہیں۔ نور والوں کے لئے یہ کسی پریشانی نہیں خوشی کی بات ہے۔ ’’صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیدیجئے ‘‘(البقرہ – 155) فرما کر اللہ نے نور والوں کو خوشخبری سنائی ہے کہ ان حالات میں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اندھیرے کو چیرنے، گمراہی سے باہر آنے اور حالات کی سختی و آزمائش سے نکلنے کے لئے بس کرنا یہ ہوگا کہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی مرضی کو شامل کرکے اسے درست کرلیں، اللہ سے ڈر کر برائیوں سے پلہ جھاڑ لیں اور معاملات میں جمنے اور کامیاب ہونے کے لئے سچے لوگوں کا ساتھ پکڑ لیں۔’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ پکڑ لو‘‘(التوبہ – 119)۔
q qq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS