اپوزیشن اتحاد کی کوششیں اور متبادل کی سیاست

0

پریم کمار منی

2024 میں بھارتیہ جنتا پارٹی اگر مسلسل تیسری بار مرکز میں حکومت بناتی ہے تو میرے جیسے لوگوں کے لیے یہ ایک افسوسناک خبر ہوگی۔ اس لیے نہیں کہ بی جے پی سے میں اس طرح پریشاں ہوں جیسے کچھ سیکولر ہندوستان کے پریشان لوگ اکثر رہتے ہیں۔ بی جے پی گزشتہ 9برس سے مرکز کے اقتدار میں ہے اور آگے بھی رہ سکتی ہے۔ لیکن اس کا مسلسل تیسری بار آنا ہماری کمزور جمہوریت کا تعارف ہوگا۔ واضح ہے ہمارا اپوزیشن اتنا کمزور کبھی نہیں تھا، جتنا ابھی ہے۔ اس کا آگے اور کمزور ہونا آخرکارجمہوریت کو کمزور کرے گا۔
اس دوران دہلی میں اپوزیشن پارٹیوں کی سرگرمی میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ اس سے اخبارات میں اس طرح کا ایک تاثر پیدا ہورہا ہے کہ اس سیاسی صف بندی کے کچھ نتائج آسکتے ہیں۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش دہلی جاتے ہیں۔ اپنے پرانے ساتھی اور لیڈر لالو پرساد کے ’دربار‘ میں حاضری لگاتے ہیں، گلدستہ پیش کرتے ہیں اور تیجسوی کی نوزائیدہ بچی کو گود میں لیے فوٹو عام کرتے ہیں۔ پھر کانگریس صدر کھڑگے اور کانگریس لیڈر راہل کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ کجریوال سے مل کر ان کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ کانگریس نے اپوزیشن اتحاد کے لیے ماحول اور پس منظر بنانے کے لیے انہیں ذمہ داری سونپی ہے، ایسی خبر نشر کی گئی ہے۔
لیکن اس پوری مہم کا آغاز ہی اتنا بے اثر نظر آیا کہ ترس کھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ لالو کو گلدستہ دیتے ہوئے نتیش کی تصویر بالکل غترفطری تھی۔ جیسے نتیش اپنے پرانے دوست لالو کے سامنے خودسپردگی کررہے ہوں، جیسا تاثر دیتا یہ فوٹو سیاسی طور پر پوری طرح غیرضروری تھا۔ تیجسوی کی بیٹی کو گود میں لیے تصویر بھی جاری کرنے سے بچنا چاہیے تھا۔ انفرادی سطح پر لالو پریوار کا تو اس سے وقار بلند ہوا، لیکن نتیش کی شخصیت کمزور نظر آئی۔ نتیش کی پارٹی کا لالو کی پارٹی سے گزشتہ سال ہی معاہدہ ہوا ہے اور دونوں کی ملی جلی سرکار بہار میں چل رہی ہے۔ اس دوران کتنی بار دونوں کا ملنا جلنا ہوا ہوگا۔ لیکن قومی سیاست کی شروعات کی ایسی بھونڈی ’گنیش-وندنا‘ نتیش کریں گے، امید نہیں تھی۔ علامت کے لیے بھی انہیں گاندھی راج گھاٹ وزٹ سے مہم شروع کرنی چاہیے تھی۔
نتیش نے اپنی آزاد سیاست لالو کے خلاف ہی 1994میں شروع کی تھی۔ انہوں نے شروع سے ہی لالو کی خراب حکمرانی، بدعنوانی اور تنگ ذہنیت کے خلاف بہار میں ماحول بنایا تھا۔ اسی ماحول نے لالو کو بے دخل بھی کیا۔ ان کے قریبی لوگوں کے ذریعہ جاری مقدمات کے باعث ہی پورا لالو پریوار آج جیل کے دہانے پر ہے۔ جیسے راون کی مخالفت رام کی شخصیت کا محور ہے، ویسے ہی لالو کی مخالفت نتیش کی سیاسی شخصیت کا مرکز تھی۔ اب بہار کے عوام ان کے ہتھیار ڈالنے کی کیفیت پوچھیں گے۔ معلوم نہیں اس کی تیاری نتیش نے کی ہے یا نہیں۔ ان سچائیوں کے مدنظر ہم غور کریں گے تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ کانگریس کی قیادت والی اپوزیشن کا انچارج بن کر نتیش سیاسی طور پر ہلکے محسوس ہوئے ہیں۔ ان کی حالت بہت کچھ مضحکہ خیز ہوگئی ہے۔ جیسے کسی دیوالیہ بینک کا منیجر انہیں بنایا گیا ہے۔کیا حقیقت میں ان پارٹیوں کے اتحاد سے بی جے پی کے لیے ایک محاذ بن پائے گا، یا اس جوڑتوڑ کی حالت 1971کے اندراگاندھی مخالف گرینڈ الائنس جیسی ہوجائے گی۔ اس وقت کی اندرا مخالف تقریباً سبھی پارٹیاں اس گرینڈ الائنس میں شامل تھیں۔ لیکن نتیجہ کیا ہوا تھا سب کو معلوم ہے۔ پانچ دہائی بعد کیا وہی حالت ایک بار پھر نہیں نظر آرہی ہے؟
دراصل اپوزیشن پارٹیوں کو اتحاد کی کوششوں کے پہلے ایک نظریاتی جدوجہد سے گزرنا چاہیے تھا۔ انہیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے تھا کہ بی جے پی آج ووٹوں کے اپوزیشن بکھراؤ کی وجہ سے اقتدار میں نہیں ہے۔ 1977کی صورت حال الگ تھی۔ تب ووٹوں کا بکھراؤ نظر آتا تھا۔ اس وقت کانگریس اور جنتا پارٹی میں نظریاتی رسہ کشی اتنی نہیں تھی۔ دونوں سیکولر، دونوں گاندھی بھکت، واضح طور پر دونوں فریق سماجوادی۔ لیکن آج تو نظریات کی راست جنگ ہے۔ ایک گاندھی-نہرووادی ہے تو دوسرا تلک-ساورکروادی۔ ایک سیکولر تو دوسرا ہندوتووادی۔ معاشی پالیسیوں میں بھی ایک زیادہ کارپوریٹ وادی۔ اور ووٹوں کی بنیاد! تو گزشتہ 2019کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی پلس کو کل ووٹ آئے تھے 45.5فیصد، تو کانگریس پلس کو صرف 27فیصد۔ دونوں کا ووٹ کا فرق 18فیصد سے زیادہ تھا۔ بکھری ہوئی پارٹیوں کے ووٹ اگر کچھ حد تک اکٹھے بھی ہوتے ہیں تو فاصلہ کو تو کم ضرور کرسکتے ہیں، اسے جیت کے نتائج میں تبدیل کرنا مشکل ہوگا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس دوران کمیونسٹ پارٹیاں اور زیادہ کمزور ہوئی ہیں۔
لہٰذا میرا ماننا ہے کہ بی جے پی کے متبادل میں قومی سطح پر ایک نظریاتی اور اخلاقی اقتدار ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے۔اپوزیشن دراصل اس کے خلاف نفرت پھیلا کر فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ کانگریس سمیت سبھی بی جے پی مخالف پارٹیوں کو شدت سے یہ بھی قبول کرنا ہوگا کہ اس کی بنیادی سوچ میں کوئی کمی ہے۔ سماجی-سیاسی اور معاشی سوالات پر اسے ازسرنوغور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 1980کے بعد معاشی اصلاحات کے سبب سماجی حالات تیزی سے تبدیل ہوئے۔ 1990میں منڈل وادی مباحثوں اور 1991میں اقتصادی لبرلائزیشن نے سماجوادی سوچ کے پورے ٹھاٹ کو بدل دیا۔ اس صورت حال نے بی جے پی کو راست فائدہ پہنچایا۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ وہی ایک پارٹی ہے، جس نے عصری حالات پر مسلسل غور کیا ہے۔ او بی سی دلت سیاست کو اس نے وانر-ہنومان سیاست میں بدل دیا۔ اس کا جواب کانگریس نہیں دے سکی۔ کانگریس اور سماجوادی گھرانے کی پارٹیاں پرانا گھسا پٹا ڈِسک بجاتی رہیں۔ نئی نسل کے لوگوںکو یہ سمجھنا مشکل ہورہا تھا کہ 1920کے گاندھی وادی دور کا ہندو-مسلم اتحاد والا سبق اب کتنا فضول ہوگیا ہے۔ تب ہندو مسلم آبادی دو:ایک کے تناسب میں تھی۔ فرقہ وارانہ بنیاد پر ملک کی تقسیم کے بعد وہ صورت حال نہیں رہی۔ اب ہندوؤں سے زیادہ مسلم فرقہ کو سیکولر ڈھانچہ کی ضرورت تھی۔ ہندو-مسلم اتحاد کی جگہ سیکولرسیاست۔ جدید ہندوستان کی تعمیر کے لیے یہ ضروری سبق تھا۔ نہرو اور امبیڈکر اس حقیقت کو سمجھتے تھے۔ لیکن پرانے گاندھی وادی لیڈر سیکولرازم کو ناپسند کرتے تھے۔ اپنے ہندووادی مطالبات کے تحفظ کے لیے وہ مسلم وادی مطالبات کے بھی ترجمان بن بیٹھے۔ پنڈت-مُلّا گٹھ بندھن گنگا جمنی تہذیب کے نعرے لگاتا رہا۔ یہ غیرآرام دہ بھی تھا اور غیرسائنسی بھی۔ 2010کے آس پاس کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ کے ایک بیان کہ ملک کے وسائل پر مائنارٹی کا حق سب سے پہلے ہے، ایک احمقانہ بیان ثابت ہوا، جس نے بی جے پی کے گراف کو بہت بڑھا دیا۔ دراصل ہندوستان کی نئی نسل زیادہ سیکولر تھی۔ وہ ہندوستانی سیاست کا سیکولر سبق پسند کررہی تھی۔ لیکن کامن سول قانون اور ایسے ہی کچھ ایشوز پر مسلم شدت پسندوں کے سامنے کانگریس اور سوشلسٹوں کے بچھ جانے کو اس نسل نے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ کانگریس سے اس کی مایوسی کا آغاز شاہ بانو معاملہ میں ہوا۔ آہستہ آہستہ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔
شمالی ہند کی سیاست، بالخصوص ہندی بیلٹ میں بی جے پی کو بڑھایا ملائم اور لالو کی غیردوراندیشانہ سیاست نے۔ پہلے دورمیں تو اس نے بی جے پی کو پٹخنی دی لیکن فائنل میں یہ خود پٹ گئے۔ 1990کے آس پاس ان لیڈروں نے مسلم ووٹوں کو کانگریس سے کھینچ کر اپنی طرف لانے کی کوشش میں سماجوادی اصولوں کو طاق پر رکھ دیا۔ پڑھے لکھے اشرافیہ مسلم لیڈر ابھی کانگریس کے ساتھ تھے۔ لالو-ملائم نے لمپٹ-موالی مسلم لیڈروں کو اپنے حق میں لیا۔ پارٹی دفاتر اور یہاں تک کہ وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ تک میں افطار پارٹیاں، نماز وغیرہ کا انعقاد ہونے لگا۔ اب وہ بی جے پی لیڈروں کی مذہب پر مبنی سیاست کی کس منھ سے مخالفت کرتے۔ سیاست کے سیکولر رسم و رواج اور مریادا کو لالو-ملائم نے سب سے زیادہ منہدم کیا۔ سوشلسٹوں کے جھنڈے اسی دور میں لال سے ہرے ہوگئے۔ اس کا ردعمل تو ہونا ہی تھا۔ لالو-ملائم کی اس مذہبی-پالیٹکس نے ایک طرف کانگریس کی جڑیں خشک کردیں، دوسری طرف بی جے پی کے ووٹ بینک کو آگے کردیا۔ نئی نسل چاہتی تھی کہ ہندوستان کی جمہوری شکل سیکولر ہو۔ اندرا کے زمانہ تک کانگریس اسی تاثر میں رہی۔ خالصتان کے سوال پر اندراگاندھی کو شہید ہونا پڑا۔ لیکن راجیو کو لوگوں نے ایسا سمجھایا کہ وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے الگ الگ تشٹی کرن پر لگ گئے۔ نتیجہ ہوا دونوں ان سے دور چلے گئے۔
کیا کانگریس آج اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس کا شاہ بانو معاملہ میں دخل دینا اور رام جنم بھومی کا تالا کھلوانا غلط فیصلہ تھا۔ کیا لالو ملائم کی کنبہ پرست پارٹیاں اپنی کرتوتوں پر ازسرنو غور کے لیے تیار ہیں۔ اگر نہیں، تو کرتے رہیے بات چیت اور اتحاد۔ 2024کا انتخابی نتیجہ بھی اسی طرح واضح نظر آرہا ہے جیسے ارجن کو مہابھارت کا نتیجہ کرشن کے درشن میں نظر آرہا تھا۔ ظاہری طور پر ہماری جمہوریت کے لیے مسلسل تیسری بار ایک ہی پارٹی کا آنا برا ہوگا۔ لیکن اشارہ کرنے کے علاوہ کوئی کیا کرسکتا ہے۔rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS