کہیں خواب ہی نہ رہ جائے اپوزیشن اتحاد

0

محمد فاروق اعظمی

مرکز میں بی جے پی کی آمرانہ حکومت سے پریشان ملک کے جمہور پسندوں کو ممتابنرجی کی ذات سے ایک ڈھارس بندھی تھی کہ جوگزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ہوپایا، وہ اب ممکن ہوسکتا ہے۔ایک حقیقی اپوزیشن اتحاد کا خواب تعبیر کی شکل لے کر حکومت کی تاناشاہی کے خلاف اپنا کردارادا کرے گا۔ ایسا اپوزیشن اتحاد جس میں علاقائی مفادات اور پارٹی کی تنگ نظری کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔لوگ یہ امید کرنے لگے تھے کہ مرکز کے غیر جمہوری اندازحکمرانی کے خلاف ایک منظم جمہوری جدوجہد کا آغاز کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتیں اتحاد قائم کریں گی اور چھوٹے چھوٹے مفادات سے بالاتر ہوکر قومی سیاست میں اپنا مثبت کردار اداکریں گی۔لیکن فی الحال یہ خواب پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہاہے۔ ممتابنرجی کے قول و فعل میں مماثلت نہ ہونے کی وجہ سے جمہوریت پسندوں کی امید پرا وس پڑگئی ہے۔ حکمرانوں کی تاناشاہی، آمریت اور ظلم و جبر کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی ڈول ڈالنے والی ممتابنرجی کے ارادہ کی نیک نیتی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔

ممتابنرجی کی قیادت کی خواہش اور بنگال میں کانگریس سے دوری بنائے رکھنے کی پالیسی اپوزیشن اتحاد میں بڑی رکاوٹ کے طور پرسامنے آرہی ہے۔ قومی سیاست میں اہم کردار اداکرنے کیلئے ضروری ہے کہ ریاست کے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال دیا جائے۔بی جے پی کے خلاف اتحاد اسی وقت بن سکتا ہے اور کامیاب ہوسکتا ہے جب علاقائی تنگ نظری، پارٹی اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر خلوص نیت کے ساتھ صرف قومی مفاد کو عزیزجان کر کیا جائے۔ اتحاد کے بڑے اور وسیع تر مقصد کی تکمیل کیلئے ذاتی انا اور چھوٹے چھوٹے مفادات کی قربانی بہرحال دینی ہوگی، اس کے بغیر نہ تو کوئی اتحاد بن سکتا ہے اور نہ کوئی علاقائی لیڈر قومی سیاست میں اپناکردار ادا کرسکتا ہے۔

جس وقت وزیراعلیٰ ممتابنرجی دہلی میں اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقات کررہی تھیں، اسی وقت دہلی میں ہی حزب اختلاف کی 14جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس بھی منعقد ہواجس میں تمام جماعتیں اظہار یکجہتی کرتے ہوئے حکومت کے خلاف ایوان میں لام بندی کے فیصلہ پر متفق ہوئیں۔اس اجلاس میں کانگریس، شیوسینا، سی پی آئی، سی پی ایم، راشٹریہ جنتا دل، عام آدمی پارٹی، سماجوادی پارٹی،نیشنل کانفرنس،انڈین یونین مسلم لیگ، آر ایس پی، کے سی ایم اور وی سی نیزتمل ناڈو کے ڈی ایم کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔اگر کوئی شامل نہیںہواتووہ تھیں ممتا بنرجی جو اپوزیشن اتحاد کی سب سے بڑی داعی بن کر دہلی پہنچی تھیں اور نہ ہی ان کی پارٹی کے کسی دوسرے لیڈر نے شرکت کی۔دہلی میں ممتابنرجی نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، راہل گاندھی، اروند کجریوال اور دیگر لیڈروں سے ملاقات میں جن موضوعات کا احاطہ کیاتھا، اپوزیشن اجلاس کے موضوعا ت بھی وہی تھے۔باوجود اس کے ممتا یا ان کے کسی دوسرے لیڈر کی اجلاس سے غیر حاضری کافی اہم مانی جارہی ہے اوراس کے پس پشت وجوہات تلاش کی جانے لگی ہیں۔ماضی میں بھی بارہا یہ دیکھاگیا ہے کہ ممتابنرجی کانگریس کی جانب سے بلائے جانے والے کئی ایک اجلاس یا پروگرام میں شریک نہیں ہوئیں۔اسی طرح نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار سے بھی ملاقات کیے بغیر ممتابنرجی دہلی سے کولکاتا لوٹ آئیں۔اس صورتحال سے اپوزیشن اتحاد میں ریاستوں کی سیاست کا وزن بھی سمجھاجاسکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس کی جانب سے بلائے گئے ہر اجلاس سے ممتابنرجی کی غیرحاضر ی دراصل اپوزیشن اتحاد کی قیادت سنبھالنے کی ان کی خواہش ہے۔مجمع عام میں بھلے ہی وہ کچھ بھی بولتی رہیں اور یہ کہیں کہ وہ ایک سپاہی کا کردار اداکرنا چاہتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سونیا گاندھی کی جگہ یوپی اے کی چیئرپرسن بنناچاہتی ہیں۔سونیا گاندھی سے ملاقات اور کانگریس کے اپوزیشن اجلاس میں شرکت سے گریز اسی خواہش کی تکمیل کیلئے اپنائی جانے والی حکمت عملی کا حصہ ہے۔دہلی کے چار دنوں میں انہوں نے اسی کی بھر پور کوشش کی ہے۔ ایسا نہیںہے کہ سونیا گاندھی سے 10جن پتھ پر ان کی ملاقات بھی اچانک ہوئی ہو،یہ ملاقات پہلے سے طے تھی۔ سونیاگاندھی کو 2اگست کو اپنے علاج کیلئے امریکہ جانا تھا، اسی لیے ممتابنرجی نے اپنے دورہ کی تاریخ کو اسی طرح ایڈجسٹ کیا اور وہ اسی کے مطابق دہلی پہنچ گئیں۔دونوں خواتین کے درمیان کیا بات ہوئی یہ تو سامنے نہیں آئی لیکن اسی دوران کانگریس کے اپوزیشن اجلاس سے ممتاکی عد م دلچسپی سے بھی یہی واضح ہے۔
2014 سے قبل بھی جب پارلیمنٹ میں ترنمول کانگریس کے 39 ارکان تھے اوراس وقت بھی جب مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں ان کی پارٹی نے خلاف توقع بڑی کامیابی حاصل کرلی، ان کی تمنا سوا ہوگئی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ قومی سیاست کی لگام ان کے ہاتھ میں رہے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ کانگریس نے قومی سیاست میں ایک مضبوط و مستحکم کردار اداکرنے کی صلاحیت کھو دی ہے۔مغربی بنگال میںبھی کانگریس کا وجود ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ہے۔سابقہ اسمبلی انتخاب میں ترنمول کانگریس کے خلاف بایاں محاذاورا نڈین سیکولر فرنٹ سے ہونے والے اتحاد کی وجہ سے بھی مغربی بنگال میں کانگریس بالکل ہی صفرہوگئی ہے، اب ایسے میں ممتابنرجی کو یہ لگتا ہے کہ کانگریس سے بہت زیادہ نزدیکی بھی مغربی بنگال کی سیاست میں ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس کے بغیر ہندوستان کی قومی سیاست میں کوئی اتحاد مکمل نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی کانگریس کے بغیر ملک کو کوئی سیاسی متبادل مل سکتا ہے۔ملک کی کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں علاقائی پارٹیاں نہیں ہیں مدھیہ پردیش، کرناٹک، ہماچل پردیش وغیرہ جیسی ریاستوں میں سیاسی اتحاد کیلئے کانگریس ہی واحد پارٹی ہے۔ ان ریاستوں میں حال کے برسوں میں کانگریس کی حکومت رہ چکی ہے اور وہ وہاں ایک مضبوط اپوزیشن کی حیثیت رکھتی ہے۔
ممتابنرجی کی قیادت کی خواہش اور بنگال میں کانگریس سے دوری بنائے رکھنے کی پالیسی اپوزیشن اتحاد میں بڑی رکاوٹ کے طور پرسامنے آرہی ہے۔ قومی سیاست میں اہم کردار اداکرنے کیلئے ضروری ہے کہ ریاست کے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال دیا جائے۔بی جے پی کے خلاف اتحاد اسی وقت بن سکتا ہے اور کامیاب ہوسکتا ہے جب علاقائی تنگ نظری، پارٹی اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر خلوص نیت کے ساتھ صرف قومی مفاد کو عزیزجان کر کیاجائے۔ اتحاد کے بڑے اور وسیع تر مقصد کی تکمیل کیلئے ذاتی انااور چھوٹے چھوٹے مفادات کی قربانی بہرحال دینی ہوگی، اس کے بغیر نہ تو کوئی اتحاد بن سکتا ہے اور نہ کوئی علاقائی لیڈر قومی سیاست میں اپناکردار ادا کرسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS