عدالتوں سے تخاطب کیلئے Your Honour لفظ توہین آمیز نہیں

0

عبدالحفیظ گاندھی
قانون کے ایک طالب علم نے سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن میں بحث کے دوران چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کو Your Honour کہہ کر مخاطب کیا، جس پر چیف جسٹس نے لاء اسٹوڈنٹ کو روکتے ہوئے کہا کہ کیا وہ امریکہ کے سپریم کورٹ کو ذہن میں رکھ کر یا مجسٹریٹ کو دھیان میں رکھ کر بحث کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہم دونوں نہیں ہیں۔ واضح ہو کہ امریکہ اور ہندوستان میں ججوں کو مخاطب کرنے کے لیے الگ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے اعتراض کے بعد طالب علم نے معافی مانگتے ہوئے کورٹ کو My Lordکہہ کر مخاطب کیا۔ اس پر چیف جسٹس بوبڈے نے پٹیشن دائر کرنے والے کو کہا آپ جو چاہیں کہیں، لیکن غلط طریقہ سے مخاطب نہ کریں۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے جب چیف جسٹس بوبڈے نے ججوں سے کیسے تخاطب کیا جائے، اس پر اعتراض کا اظہار کیا ہے۔ اگست2020 میں بھی وہ ایک سنوائی کے دوران اس طرح کے اعتراض کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس وقت بھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ کیا درخواست گزار یو ایس اے کی سپریم کورٹ کے سامنے بحث کررہا ہے۔ ججوں کو Your Honourکہنا ہندوستانی عدالتی نظام میں قابل قبول نہیں ہے۔2014میں جب جسٹس ایچ ایل دتّو چیف جسٹس تھے تب ایک پی آئی ایل، جس میں My Lord اور My Lordship جیسے القاب/مخاطب کرنے کو ختم کرنے کی درخواست کی گئی تھی، کی سماعت کے دوران یہ کہا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو کس طرح مخاطب کیا جائے اس میں کوئی واجبات نہیں ہے لیکن جس لفظ سے بھی ان کو مخاطب کیا جائے وہ قابل احترام ہونا چاہیے۔ جسٹس ایچ ایل دتو نے پی آئی ایل کو خارج کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ My Lordیا Your Lordshipجیسے الفاظ کبھی بھی کورٹ کو مخاطب کرنے کے لیے پابند نہیں بنائے گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لفظ Your Honour قابل قبول ہے۔
کئی مرتبہ یہ معاملہ جسٹس ایس اے بوبڈے والی بنچوں میں اٹھ چکا ہے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ جسٹس بوبڈے کورٹ سے تخاطب کرنے سے متعلق کافی فکرمند ہیں۔
اس کے برعکس دیکھیں تو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے جسٹس ارون کمار تیاگی نے ان کے سامنے پیش ہونے والے وکلا کو ایک پیغام کے ذریعہ سے خبر کی کہ ان کی کورٹ میں ان کو کوئی My Lordیا Your Lordship نہ کہے۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپریل 2011کی ایک تجویزمیں کہا تھا کہ ججوں کو My Lordنہ کہہ کر Sirکہا جائے۔ تجویز میں یہ بھی کہا گیا کہ لمبے وقت سے چلی آرہی غلامی کی علامت کے رواج جس میں ججوں کو My Lord, Your Lordship وغیرہ کہا جاتا ہے کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ہندوستانی آئین کے اقدار کے حساب سے Sirکا تخاطب ہونا چاہیے۔ تجویز میں وکلا سے یہ بھی کہا گیا کہ ان تجاویز پر سختی سے عمل ہو، نہیں تو وکلاء کے خلاف کارروائی ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ کورٹ کو کیسے مخاطب کیا جائے، اس کے بارے میں ضابطہ کون وضع کرسکتا ہے؟ ایڈووکیٹ ایکٹ، 1961 کی دفعہ 49(1)(c)بار کونسل آف انڈیا کو یہ اختیار فراہم کرتی ہے کہ وکلاء کا کورٹ میں برتاؤ کیسا ہو، اس سے متعلق وہ ضابطہ مرتب کریں۔کورٹ کو مخاطب کیسے کیا جائے اس کے بارے میں بھی کونسل ضابطہ وضع کرسکتی ہے۔ بار کونسل آف انڈیا نے2006میں ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مائی لارڈ اور یورلارڈشپ جیسے تخاطب کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ Your Honourاور Honourable Court جیسے القاب کا ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے ججوں کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ قراردار میں آگے کہا گیا کہ Sirلفظ کا استعمال نچلی عدالتوں اور اور ٹریبونل کے لیے کیا جائے۔
بار کونسل آف انڈیا کی قراردار کی منشا غلامی اور عدم مساوات کی سوچ کو ختم کرنا تھا۔ Your Lordship، My Lord جیسے الفاظ کا انگریزوں کے وقت تخاطب کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تب اور اب میں فرق یہ ہے کہ پہلے ہم غلامی میں تھے اور اب آزاد ملک ہے۔ اب ہندوستان ایک جمہوریت ہے۔ غلامی اور جمہوریت میں الگ الفاظ کا استعمال ہونا چاہیے۔ ایسے الفاظ جو ہمیں اپنی غلامی کا احساس کرائیں ان کو ہمیں فوراً سے پیشتر اپنی ڈکشنری سے ہٹادینا چاہیے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بھی آئین کے بنائے جمہوری نظام میں ذمہ دار ادارے ہیں۔ ان پر بھی آئین کے اقدار کی اتنی ہی پابندی ہے جتنی کہ پارلیمنٹ اور ایگزیکٹیو پر۔ اگر ہم پارلیمنٹ اور حکومت سے جمہوری اقدار کو نبھانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اسی طرح سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بھی آئین میں بندھے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کو کسی ایسے رواج یا سسٹم کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو جمہوری اقدار پر کھرا نہیں اترتا ہو۔ مجھے نہیں لگتا کہ Your Honour کہہ دینے سے سپریم کورٹ کے وقار پر کسی طرح کی کوئی ٹھیس پہنچتی ہے۔ ہندوستانی عدالتوں میں بھی برٹش کورٹ کے طورطریقے اپنائے گئے ہیں۔ یونائٹیڈ کنگڈم میں کورٹ آف اپیل اور ہائی کورٹ کے ججوں کو My Lord اور My Ladyکہا جاتا ہے۔ یہ تخاطب ایسے ہیں جنہیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے عدالتوں میں بیٹھے لوگ فرد/شخص نہ ہوکر کچھ الگ طرح کی چیز ہوں جنہیں کچھ حاص طریقے سے بلایا جائے۔
23فروری2021کو چیف جسٹس بوبڈے کو Your Honourبلانے پر اعتراض ظاہر کرنے کے بعد بار کونسل آف انڈیا کے چیئرمین منن مشرا کا بیان آیا کہ ستمبر2019کو بار کونسل نے وکلا سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو My Lord, Your Lordship اور Hon’ble Court کہنے کے لیے کہا ہے۔
بار کونسل آف انڈیا کے چیئرمین منن مشرا کے بیان کے بعد ججوں کو تخاطب کرنے والے الفاظ سے متعلق غیریقینی کا ماحول بن گیا ہے کیوں کہ بار کونسل آف انڈیا کی 2006کی قرارداد کچھ اور ہے اور منن مشرا کا بیان اس 2006کی قرارداد سے میل نہیں کھاتا۔ 2006 میں بار کونسل آف انڈیا نے ایک قرارداد پاس کرکے بار کونسل کے ضابطوں کے پارٹ چار میں چیپٹر3A جوڑا تھا جس میں کہا گیا کہ عدالت کے تئیں قابل احترام رویہ دکھاتے اور عدالتی عہدہ کے وقار کو نظر میں رکھتے ہوئے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں بحث کے دوران Your Honourاور Hon’ble Courtجیسے الفاظ کا استعمال کریں گے۔ منن مشرا کے اسٹیٹمنٹ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا 2006کے بار کونسل آف انڈیا کے ضابطے تبدیل ہوگئے ہیں جن ضابطوں میں Your Honourکو مناسب اور قابل احترام تخاطب سمجھا گیا تھا۔
اس بات سے میں پوری طرح متفق ہوں کہ جو الفاظ بھی ججوں کے لیے استعمال ہوں وہ قابل احترام ہونے چاہئیں۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اگر لاء اسٹوڈنٹ نے چیف جسٹس کو Your Honourکہہ دیا تھا تو اس میں بھی کچھ قابل اعتراض نہیں ہے۔ یہ لفظ بھی قابل احترام ہے۔ میرے خیال میں چیف جسٹس کو اس لفظ سے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ ان کی توجہ اس اسٹوڈنٹ کے کیس کے میرٹ پر رہتی تو ٹھیک ہوتا۔ کوئی درخواست گزار کس تخاطب کا استعمال کررہا ہے یہ معنی نہیں رکھتا جب تک الفاظ قابل احترام ہوں، اس کے بجائے درخواست گزار کے کیس میں کیا میرٹ ہے یہ زیادہ معنی رکھتا ہے۔
ہندوستان اب پوری طرح سے خودمختارملک ہے۔ اس میں اب وہ روا ج ختم ہوجانے چاہئیں جس سے برطانوی حکومت کی غلامی کی بو آتی ہو۔ ہماری عدالتیں جسے ایگزیکٹیو سے الگ اور آزاد رہنے کے لیے آئین کہتا ہے، ایسے میں عدالتوں کی یہ آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو نوآبادیاتی رواج سے بھی آزاد کریں جو برطانوی دور میں اس لیے قائم کیے گئے تھے تاکہ انگریزوں کی اپنے آپ کو بڑا دکھانے کی کوشش قائم رہے۔ آج جب ہم آزاد ہیں تو ہرادارہ آئینی دائرہ میں بندھا ہوا ہے۔ ہر ادارہ کا طرزعمل آئینی اقدار کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمارے آئین میں مساوات، وقار اور انصاف کی بات کی گئی ہے۔ عدلیہ میں جو رسم و رواج اور طریق کار برطانوی دور سے قائم ہیں ان کو بھی آئین کے اقدار پر کھرا اترنا ہوگا۔
جن تخاطب پر چیف جسٹس کا زور اور فوکس ہے وہ الفاظ آئین میں دیے گئے مساوات کے اقدار کے برعکس ہیں۔ عدلیہ کا کام قانون کی وضاحت اور تنازعات کو ختم کرکے لوگوں کو انصاف کی فراہمی کرانا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے کسی بھی طرز عمل سے ایسا نہیں محسوس ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ اور جج ایک خاص قسم کے ہیں۔ ہاں احترام کا جذبہ ہونا چاہیے ججوں سے تخاطب کرتے ہوئے لیکن ایسا کرتے وقت ایسا نہیں محسوس ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ لوگوں کا ماں باپ ہے۔ جمہوریت میں سب برابر ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ تمام اداروں کے کام منقسم ہیں۔ آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے سب کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ ہماری گائیڈ بک آئین ہے۔ کسی دوسرے ملک کے طریق کار ہمارے لیے قابل تقلید نہیں ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو مساوات کے حق کا احترام کرتے ہوئے خود ہی My Lordاور Your Lordship جیسے الفاظ کو آئین کی روح کے خلاف مانتے ہوئے ان پر پابندی عائد کردینی چاہیے۔ امریکہ، سنگاپور اور آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالتوں میں Your Honourتخاطب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر ہندوستان میں کیوں Your Honourکہنے پر اعتراض کا اظہار کیا جاتا ہے؟ جج اور وکیل میں رشتہ coordinationکا ہوتا ہے subordinationکا نہیں۔ اس لیے ایسے الفاظ کا تخاطب کے لیے استعمال کیا جائے جو ججوں اور وکلا دونوں کے لیے قابل احترام ہوں۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS