سرکاری کنٹرول سے ہندوستانی کسانوں کی نجات کا وقت

0

چیتن بھگت

پارلیمنٹ میں حال ہی میں پاس زرعی بل یقینا طبعاً انتہائی اصلاح پسند ہے۔ ان کا مقصد اس موجودہ نظام میں بہتری لانا ہے جس کے تحت کسانوں کو اس کی اُپج منڈی میں حکومت کے ذریعہ طے ایم ایس پی(منیمم سپورٹ پرائس) پر فروخت کرنی پڑتی ہے۔ اب کسان نجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کرسکے گا یا اُن کو اپنی فصل فروخت کرسکے گا۔ کچھ لوگ کسانوں کو ان کی فصل کو ایم ایس پی پر فروخت کرنے پر منمانی مانتے ہیں،جب کہ دیگر اسے ایک حفاظتی سسٹم سمجھتے ہیں، جہاں پر کسانوں کو کم سے کم قیمت کی یقین دہانی تو ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بل پر مختلف ردعمل آئے ہیں۔
ہندوستان کے پاس دنیا میں زراعت کا پاورہاؤس بننے کی زبردست صلاحیت ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کے اہم شہروں میں سپرمارکیٹ دودھ، چیز، مکھن، سبزیاں اور پولٹری کو دوردراز مقامات سے لاکر اسٹوریج کرتے ہیں۔ تھائی لینڈ اور آسٹریلیا دنیا میں بڑے پیمانہ پر زرعی پیداواروں کی سپلائی کرتے ہیں، لیکن ہندوستان نہیں۔ مغرب میں پینٹ بٹر ایک لازمی چیز ہے۔ ہندوستان کے متعدد حصوں میں بڑی مقدار میں مونگ پھلی اگائی جاتی ہے، لیکن ہم پینٹ بٹر کا ایکسپورٹ نہیں کرتے ہیں۔ ہم اپنے کسانوں کو اس طرح کی تجارت کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ ہندوستانی شہری متوسط طبقہ کھانے کی قیمتوں کو کم کرتا ہے اور اسی لیے کسان سے ہمدردی ہو، لیکن اسے فری مارکیٹ نہ ملے، حکومت اس پالیسی میں پوری طرح شامل رہی ہے۔ اس نے یقینی بنایا ہے کہ کسان زندہ تو رہے پر کبھی پھلے پھولے نہیں۔
ان زرعی بلوں سے لمبی مدت میں ملک کے زرعی شعبہ میں زبردست گروتھ ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں نجی شعبہ کی ضرورت ہوگی، جو سرمایہ لگائیں گے، خریداروں میں مقابلہ آرائی و برانڈنگ کے ساتھ ہی اس سیکٹر میں کئی مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئے زرعی بل کو لے کر کوئی مسئلہ نہیں ہے یا ان بلوں کے پاس ہونے کے بعد سب کچھ انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ کچھ تشویشات ہیں اور یہ تین وسیع زمرے سے جڑی ہیں۔
پہلی تشویش کسان اور طاقتور خریدار کے مابین طاقت کا فرق ہے۔ زراعت میں نجی سودوں اور قرار کی اجازت تو ٹھیک ہے، لیکن ایک کمزور کسان اچھی قیمت کے لیے سودے بازی نہیں کرسکتا۔ اس کا واحد طریقہ کسی طرح کا طاقت کا توازن بنانا ہوسکتا ہے اور یہ کسانوں کی اجتماعیت سے آسکتا ہے۔ کسانوں کی طرف سے ان کی یونینیں یا ان کے حقوں کو یقینی بنانے والے لوگ سودے بازی کریں۔ اس پر تمام ریاستی حکومتوں کو اب توجہ دینی چاہیے۔ طاقت کے فرق کا حل کسان کی طاقت کو بڑھانے کے لیے ہو نہ کہ اسے آنے والی نسلوں تک حکومت کے چنگل میں رکھ کر اس کی ترقی روکنے کے لیے۔
دوسری تشویش عمل درآمد پر حکومت کے ٹریک ریکارڈ کے تعلق سے ہے۔ اب تک ایسا ہوا ہے کہ بڑا ارادہ، فیصلہ کن اعلان اور چاروں جانب سے تعریف کے بعد بھی اسے نافذ کرنے میں متعدد مسائل رہے ہیں۔ اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ حالاں کہ اس حکومت کے ہر اعلان کے بعد اس کی اتنی تعریف کی جاتی ہے کہ نافذ کرنے سے متعلق کوئی بھی دقت نظرانداز ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے ایک سال یا اس سے زائد وقت سے جتنے شاندار اعلانات ہوئے، ان پر عمل درآمد ویسا نہیں رہا۔
زرعی بل کا بھی یہ حشر ہوسکتا ہے۔ لیکن اس بار اس سے کروڑوں لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہے۔ اگر اس میں غلطی ہوئی تو یہ حقیقت میں بہت غلط ہوجائے گا۔ اس لیے ایسا ہونے دینے کے بجائے بہتر ہوگا کہ ایمان داری سے مسائل کو پہچانا جائے۔ اس کے بعد انہیں مختصر کرنے کے لیے قدم اٹھائے جائیں۔ اس کے لیے چاپلوسوں کی آواز کو آہستہ کیا جائے اور بہتر ہوگا کہ مناسب فیڈبیک کی آواز کو تقویت دی جائے۔
زرعی بل کا آخری مسئلہ کسان بہبود و شہری متوسط طبقہ کے ذریعہ زرعی پیداواروں کے لیے دی جانے والی قیمت کا تضاد ہے۔ شہری متوسط طبقہ چاہتا ہے کہ قیمتیں کم رہیں۔ اس لیے اگر ہم کسانوں کو متبادل دے رہے ہیں اور وہ اپنی پیداوار کو بہتر قیمت کے لیے جے پور کے بجائے یوروپ میں فروخت کرنا چاہتا ہے تو کیا ہندوستانی اس سے متفق ہوں گے؟ اس بل کی وجہ سے آنے والے وقت میں یہ تضاد ایک اہم مسئلہ بن سکتا ہے۔ حکومت کو اس خطرناک توازن کو بہتر طریقہ سے سنبھالنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ ایک اعلیٰ سطح اور فلورپرائسنگ کا انتظام ہوسکتا ہے۔ تاکہ فری مارکیٹ میں ہمیں راحت ملے۔
ہندوستانی کسانوں کی ترقی کے لیے زرعی بل ایک ضروری قدم ہے۔ ہمارے کسانوں کو بھی عالمگیریت کا فائدہ ملنا چاہیے۔ یہ بل ہندوستانی معیشت کو کھولنے کی جانب اٹھایا گیا قدم ہے، جو وقت کی ضرورت ہے۔ یہ کسانوں کو زائد متبادل دیتے ہیں کہ وہ اپنی فصل کیسے فروخت کریں اور اگر اسے صحیح سے نافذ کیا گیا تو اس سے ان کا ریٹرن بھی بڑھے گا۔ ہمارے کسانوں کو ہمیشہ لوگوں سے عزت اور ہمدردی ملی ہے۔ اس وقت ان کو کچھ اور بھی ملا، جو ہے-متبادل۔
(بشکریہ: دینک بھاسکر)
(صاحب مضمون شہرئہ آفاق مصنف اور کالم نگار ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS