نیٹ کوالیفائی اور 3 سال پڑھائی کے بعدکریئردائو پر

0

محمد فخر امام
نئی دہلی/سہارنپور (ایس این بی)
یوپی کے سہارنپور میں واقع گلوکل میڈیکل کالج یوں تو بند ہوچکاہے، لیکن اس میں تعلیم حاصل کررہے 74میں سے 50طلبا کا ابھی تک کسی دوسرے کالج میں داخلہ ٹرانسفرنہیں کیا گیا ہے ، حیران کن بات یہ ہے کہ جن طلبا کی نیٹ (NEET)رینکنگ 4لاکھ تھی، انہیں تو نیا کالج مل گیا، لیکن وہ ہونہار طلبا جن کی رینکنگ 40ہزار تھی، وہ اپنے داخلہ کیلئے دردرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔کالج کی لاپروائی کے سبب طلبا کا کیریئر دائو پر لگاہوا ہے۔اب حالات یہ ہیں کہ نہ کالج انتظامیہ بات کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی میڈیکل ایجوکیشن محکمہ کے افسر ان طلبا کے سوالوں کا جواب دے رہے ہیں۔
غور طلب ہے کہ تقریباً 4سال قبل  2016 میں نیٹ کوالیفائی کرنے والے کچھ طلبانے تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) میں رجسٹرڈ سہارنپور میںواقع گوکل میڈیکل کالج میں جب داخلہ لیا تو انہیں امید تھی کہ یہاں اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کا بھر پور تعاون ملے گا اور وہ اپنے خواب کو پورا کریں گے، والدین کا نام روشن کریں گے۔ ایک سال گزرا 2017میں فرسٹ ایئر کا ایگزام پاس کیا، دوسرے سال کی پڑھائی شروع کی، اچانک کالج کی جانب سے معیار تعلیم میں گراوٹ نظر آنے لگی ، فیسلیٹی اورفیکلٹی میں کمی محسوس ہونے لگی یعنی ضرورت اور کورس کے مطابق اساتذہ اور لیب کی سہولیات ندارد۔طلبا کو فکر ہوئی اور اس کی شکایت ڈائریکٹر جنرل آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ(ڈی جی ایم ای) لکھنؤ یوپی سے کی گئی لیکن وہاں سے بھی مایوسی ملی۔ طلبا کارروائی کا انتظار کرتے رہے ، لیکن نہ کوئی انکوائری ہوئی اور نہ ہی کوئی جواب آیا۔تعلیم کے تئیں کالج انتظامیہ کے رویہ سے پریشان طلبا نے 28مئی 2019کو ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ، کیس فائل کیا،جس پر ایم سی آئی کے ذریعہ یوپی ہائی کورٹ میں طلبا کا داخلہ ٹرانسفرکرنے کے سلسلے میں کہا گیا کہ ان طلبا کاداخلہ ایم سی آئی کے ذریعہ 27جنوری 2017 کے لیٹر جو کہ گلوکل میڈیکل کالج کے پرنسپل ؍ڈین کے نام پر لکھا گیاتھا ، اس کے ذریعہ رد کیاجاچکاہے اور اترپردیش کے ان سبھی ایم بی بی ایس کے طلبا کا داخلہ بھی رد کردیا گیا ہے جن کا داخلہ کالج کے ذریعہ ماپ اپ رائونڈ میں 7اکتوبر 2016 کو کرایاگیاہے اور ڈی جی ایم ای اترپردیش کی لسٹ میںجن طلبا کا نام نہیں ہے۔اس کے بعد 2جولائی 2019کو الہ آباد ہائی کورٹ کی بنچ نے ایم اسی آئی کے 27جنوری 2017کے لیٹر کے خلاف سپریم کورٹ میںعرضی داخل کرنے کی لیبرٹی دی۔
اس کے بعد پریشان طلبا اور ان کے سرپرستوں نے کالج انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ کالج انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے معاملے کو ٹال دیا کہ ابھی کورٹ سے ہمیں پڑھانے کی اجازت ملی ہوئی ہے ، اس سلسلے میں انہوں نے طلبا اور ان کے سرپرستوں کو عدالت عظمیٰ کے ایک آرڈر کی کاپی دکھائی، جس سے پتہ چلا کہ انتظامیہ پہلے ہی کالج کے اقلیتی کردار کے لئے اور دیگر معاملے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا چکی ہے ، جس کے بعد انہیں 20مارچ 2017کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت ملی تھی۔یعنی طلبا کا داخلہ ڈسچارج ہونے کے بعد انتظامیہ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور آخر میں معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔
اس دوران پتہ چلا کہ چند دیگر کالج کے طلبا جن کا داخلہ ایم سی آئی کے ذریعہ مسترد کردیاگیاتھا، ان کالجوں (سرسوتی میڈیکل کالج اکاؤ،   وینکٹیش میڈیکل رجب پور اور کرشن موہن میڈیکل کالج متھرا) کے طلبا کے ذریعہ ایم سی آئی کے 27 جنوری 2017کے  لیٹر کے خلاف یوپی ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ میں عرضی داخل کی گئی تھی اور یوپی ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 15جون 2017کے فیصلے میں ایم سی آئی کے 27جنوری 2017کے طلبا کے ڈسچارج سے متعلق لیٹر کو طلبا کے مفاد اور حقائق کی روشنی میں مسترد کردیاتھا، جس کے بعد ایم سی آئی نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، لیکن عدالت عظمیٰ نے 4اگست 2017کو یوپی ہائی کورٹ کے فیصلے کو صحیح مانتے ہوئے ایم سی آئی کے کیس کو مسترد کردیا۔
یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ 2016 میں اتراکھنڈ کے سوبھارتی میڈیکل کالج میں ماک اپ راؤنڈ میں سیٹیں خالی ہونے کی وجہ سے 50فیصد سیٹیں مینجمنٹ کوٹہ کودی گئی تھی، جس پر کالج نے داخلہ لیا تھا۔ 2017 میں جب کالج بند ہوگیا تو ان تمام طلبا کا داخلہ دوسرے کالج میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ وہیں 2020میں جب جی سی آر جی میڈیکل کالج لکھنؤ بند ہوا تواس میں زیر تعلیم طلبا کو یوپی ڈی جی ایم ای کے ذریعہ دوسرے کالج  میں ٹرانسفر کردیا گیا جبکہ اسی کے ساتھ بند ہوئے گلوکل میڈیکل کالج کے طلبا کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔ ایک اور ایسا ہی معاملہ راج شری میڈیکل کالج بریلی کا ہے، جہاں کے طلبا کا 2017میں داخلہ رد کردیا گیا تھا، لیکن میڈیکل کالج کی منظوری رد نہیں ہوئی تھی، وہاں ان طلبا کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
(باقی ہریانہ/پنجاب پر)
دریں اثنا عدالت عظمیٰ اور یوپی ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلوں کی روشنی میں 25جولائی 2019کو گلوکل میڈیکل کالج کے طلبا نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایم سی آئی کے 27جنوری 2017کے لیٹر کے خلاف عرضی داخل کی۔ 30جولائی 2019کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے سماعت سے انکارکردیا کہ اس سے متعلق ایک معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ میں پہنچ چکاہے۔ اس لئے اس پر کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکتے۔اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اسی بنیا دپر 15نومبر 2019کو طلبا نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی۔ 20جولائی 2020کو عدالت عظمیٰ نے اس معاملہ میں یہ کہتے ہوئے سماعت سے انکارکردیا کہ جب ایم سی آئی نے کالج کی منظوری رد کردی ہے تو کالج کے اقلیتی کردار (Minority Status)یا طلبا کی سہولتوں کے مسئلہ پر سماعت کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔ عدالت نے اپنے آرڈر میں لکھا کہ we find no merit in these petitions. اور پھر کالج کے ساتھ طلبا کے کیسز کو بھی ڈسپوز کردیا۔سماعت کے دوران یوپی ڈی جی ایم ای نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ گلوکل میڈیکل کالج ایم سی آئی کی شرائط پر پورا نہیں اتر رہا تھااس لئے میڈیکل کالج کی منظوری رد کردی گئی۔
یہاں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ کالج کی منظوری رد ہونے کے بعد کل 74طلبا میں سے 24کا داخلہ دوسرے کالج میں ٹرانسفر کردیاگیا اور باقی50طلبا پر کوئی فیصلہ نہیں لیاگیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ جن طلبا نے DGME,UPکی کامن کونسلنگ کے ذریعہ داخلہ لیاتھا ان کا ٹرانسفر کیاگیاہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 2016 تک آئی ایم ای ایکٹ 1956میں یہ اختیاری معاملہ تھا کہ طلبا کامن کونسلنگ یا کالج کونسلنگ کے ذریعہ داخلہ لے سکتے ہیں۔واضح رہے کہ کامن کونسلنگ ڈی جی ایم ای کراتی ہے اور 10مارچ 2017میں کامن کونسلنگ کو لازمی قرار دیاگیا۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ڈی جی ایم ای کو رجسٹرڈ طلبا کی فہرست کالج انتظامیہ بھیجتی ہے۔بتایا جارہا ہے کہ نیٹ ورکنگ میں خرابی کی وجہ سے اس فہرست کو بھیجنے میں تاخیر ہوگئی۔تاہم اس سلسلے میں کالج انتظامیہ کے عہدیداران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بات نہ ہوسکی۔
حیران کن بات یہ بھی ہے کہ جن طلبا کی رینکنگ بہتر تھی (رینک ۔64129، 45986، 42711،41142، 38769 وغیرہ)  ان کا داخلہ ٹرانسفر نہیں ہوا اور جن کی رینکنگ لاکھوں میں یعنی 414461،  385118، 354005، 351554، 346217  وغیرہ تھی ان کا داخلہ دوسرے کالج میں ٹرانسفر ہوگیا۔ ایم سی آئی کی نیٹ کوالیفائی کرنے اور تمام شرائط پوری کرتے ہوئے داخلہ لینے والے تقریباً50طلبا اپنے کریئر کو بچانے کے لئے آج دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف کالج انتظامیہ ان کے داخلہ کے عمل کو درست تو بتارہی ہے، لیکن اس سلسلے میں طلبا سے بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، وہیں ڈی جی ایم ای کی طرف سے بھی کوئی معقول جواب نہیں مل رہاہے۔ پچھلے دنوں محکمہ تعلیم کے ڈی جی ایم ای ڈاکٹر کے کے گپتا نے کہا تھا کہ ان طلبا کے ساتھ ہماری ہمدردی ہے ، کالج نے بغیر رجسٹریشن کروائے داخلہ لیا جس کی تفصیل ایم سی آئی کے پاس نہیںہے، ایسے میں انہیں دوسرے کالج میں ٹرانسفر کرنے میں تکنیکی پریشانی ہے۔ سرکار سے ان کے لئے خصوصی اجازت مانگی گئی ہے۔ وہیں گلوکل میڈیکل کالج کے رجسٹرار نظام الدین کا کہناہے کہ داخلہ میں کسی طری کی گڑبڑی نہیں ہوئی ہے فی الحال ہم اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں بول سکتے۔
بہرحال کالج انتظامیہ کی لاپروائی کہیں یا داخلہ عمل میں گڑبڑی ان 50طلبا کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آگے کیا قدم اٹھایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا اپنے داخلہ کے ٹرانسفر کے لئے دردربھٹک رہے ہیں۔پچھلے تین سال سے 15لاکھ سالانہ فیس دے کر پڑھائی کررہے ان طلبا میں سے کسی نے بینک سے قرض لیا تھا تو کسی نے اپنی زمین فروخت کرکے رقم کی ادائیگی کی تھی۔اب انہیں سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ آگے کیا قدم اٹھایا جائے۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی ایسے طلبا بھی ہیں جن کے والد کی کورونا وبا کے سبب موت ہوگئی۔ان کی ذہنی کیفیت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،  ایک طرف کالج انتظامیہ کی خاموشی دوسری طرف میڈیکل ایجوکیشن محکمہ کے ٹال مٹول کے رویہ سے ان طلبا کے کریئر پر تلوار لٹکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ان بچوں کا مستقبل کیاہوگا، تین سال پڑھائی کرنے کے بعد ان کے پاس کیا متبادل ہے، ایسے کئی سوالات ہیں ،جن کا جواب دینے کے لئے کوئی  تیار نہیں ہے۔
دریں اثنا عدالت عظمیٰ اور یوپی ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلوں کی روشنی میں 25جولائی 2019کو گلوکل میڈیکل کالج کے طلبا نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایم سی آئی کے 27جنوری 2017کے لیٹر کے خلاف عرضی داخل کی۔ 30جولائی 2019کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے سماعت سے انکارکردیا کہ اس سے متعلق ایک معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ میں پہنچ چکاہے۔ اس لئے اس پر کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکتے۔اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اسی بنیا دپر 15نومبر 2019کو طلبا نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی۔ 20جولائی 2020کو عدالت عظمیٰ نے اس معاملہ میں یہ کہتے ہوئے سماعت سے انکارکردیا کہ جب ایم سی آئی نے کالج کی منظوری رد کردی ہے تو کالج کے اقلیتی کردار (Minority Status)یا طلبا کی سہولتوں کے مسئلہ پر سماعت کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔ عدالت نے اپنے آرڈر میں لکھا کہ we find no merit in these petitions. اور پھر کالج کے ساتھ طلبا کے کیسز کو بھی ڈسپوز کردیا۔سماعت کے دوران یوپی ڈی جی ایم ای نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ گلوکل میڈیکل کالج ایم سی آئی کی شرائط پر پورا نہیں اتر رہا تھا،اس لئے میڈیکل کالج کی منظوری رد کردی گئی۔
یہاں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ کالج کی منظوری رد ہونے کے بعد کل 74طلبا میں سے 24کا داخلہ دوسرے کالج میں ٹرانسفر کردیاگیا اور باقی50طلبا پر کوئی فیصلہ نہیں لیاگیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ جن طلبا نے DGME,UPکی کامن کونسلنگ کے ذریعہ داخلہ لیاتھا ان کا ٹرانسفر کیاگیاہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2016 تک آئی ایم ای ایکٹ 1956میں یہ اختیاری معاملہ تھا کہ طلبا کامن کونسلنگ یا کالج کونسلنگ کے ذریعہ داخلہ لے سکتے ہیں۔واضح رہے کہ کامن کونسلنگ ڈی جی ایم ای کراتی ہے اور 10مارچ 2017میں کامن کونسلنگ کو لازمی قرار دیاگیا۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ڈی جی ایم ای کو رجسٹرڈ طلبا کی فہرست کالج انتظامیہ بھیجتی ہے۔بتایا جارہا ہے کہ نیٹ ورکنگ میں خرابی کی وجہ سے اس فہرست کو بھیجنے میں تاخیر ہوگئی۔تاہم اس سلسلے میں کالج انتظامیہ کے عہدیداران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بات نہ ہوسکی۔
حیران کن بات یہ بھی ہے کہ جن طلبا کی رینکنگ بہتر تھی (رینک ۔64129، 45986، 42711،41142، 38769 وغیرہ)ان کا داخلہ ٹرانسفر نہیں ہوا اور جن کی رینکنگ لاکھوں میں یعنی 414461،385118، 354005، 351554، 346217  وغیرہ تھی، ان کا داخلہ دوسرے کالج میں ٹرانسفر ہوگیا۔ ایم سی آئی کی نیٹ کوالیفائی کرنے اور تمام شرائط پوری کرتے ہوئے داخلہ لینے والے تقریباً 50 طلبا اپنے کریئر کو بچانے کیلئے آج دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف کالج انتظامیہ ان کے داخلہ کے عمل کو درست تو بتارہی ہے، لیکن اس سلسلے میں طلبا سے بات چیت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، وہیں ڈی جی ایم ای کی طرف سے بھی کوئی معقول جواب نہیں مل رہاہے۔ پچھلے دنوں محکمہ تعلیم کے ڈی جی ایم ای ڈاکٹر کے کے گپتا نے کہا تھا کہ ان طلبا کے ساتھ ہماری ہمدردی ہے ، کالج نے بغیر رجسٹریشن کروائے داخلہ لیا، جس کی تفصیل ایم سی آئی کے پاس نہیںہے، ایسے میں انہیں دوسرے کالج میں ٹرانسفر کرنے میں تکنیکی پریشانی ہے۔ سرکار سے ان کیلئے خصوصی اجازت مانگی گئی ہے۔ وہیں گلوکل میڈیکل کالج کے رجسٹرار نظام الدین کا کہناہے کہ داخلہ میں کسی طری کی گڑبڑی نہیں ہوئی ہے، فی الحال ہم اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں بول سکتے۔
بہرحال کالج انتظامیہ کی لاپروائی کہیں یا داخلہ عمل میں گڑبڑی ان 50طلبا کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آگے کیا قدم اٹھایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا اپنے داخلہ کے ٹرانسفر کیلئے دردربھٹک رہے ہیں۔پچھلے تین سال سے 15لاکھ سالانہ فیس دے کر پڑھائی کررہے ان طلبا میں سے کسی نے بینک سے قرض لیا تھا تو کسی نے اپنی زمین فروخت کرکے رقم کی ادائیگی کی تھی۔اب انہیں سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ آگے کیا قدم اٹھایا جائے۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی ایسے طلبا بھی ہیں، جن کے والد کی کورونا وبا کے سبب موت ہوگئی۔ان کی ذہنی کیفیت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ایک طرف کالج انتظامیہ کی خاموشی دوسری طرف میڈیکل ایجوکیشن محکمہ کے ٹال مٹول کے رویہ سے ان طلبا کے کریئر پر تلوار لٹکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ان بچوں کا مستقبل کیاہوگا، تین سال پڑھائی کرنے کے بعد ان کے پاس کیا متبادل ہے، ایسے کئی سوالات ہیں ،جن کا جواب دینے کیلئے کوئی  تیار نہیں ہے۔
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS