کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے شہر

0

پردیپ شری واستو
(مترجم: محمد صغیر حسین)

کچرے کے ڈھیر اور اُن سے پھیلنے والی بیماریاں،انسانی معاشرے، پیڑپودھوں، چرند وپرند سب کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔ گھروں سے ہر روز نکلنے والے کوڑے سے ہزاروں قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ چرند و پرند کی موت بھی کچرا کھانے سے ہورہی ہے لیکن ہمارے سماجی اور صنعتی بندوبست میں کوڑے کے انتظام پر توجہ کم ہے۔ عالمی تنظیم برائے صحت(WHO) کے مطابق دنیا کے دس سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں دہلی بھی شامل ہے۔ یہاں ہر روز قریب 7,000ٹن ٹھوس کوڑا نکلتا ہے جس کو ٹھکانے لگانے کے لیے سرکار کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ گھروں سے نکلنے والے کوڑے کو پھینکنے سے پہلے اگر اس کی چھنٹائی کردیں تو آلودگی کی پریشانی سے بڑی حد تک نجات مل سکتی ہے۔ باقی کام کوڑے کو ہٹانے کی کارروائی کے تحت کوڑے کو پلانٹ میں ری سائیکل کرکے کیا جاسکتا ہے۔
مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈکے مطابق، ملک بھر میں ہر روز تقریباً 1.43 لاکھ ٹن ٹھوس کچرا نکلتا ہے جس کے بندوبست کا کوئی نظم نہیں ہے۔ اس میں ہر دن 25,940 ٹن پلاسٹک کچرا نکلتا ہے۔ مرکزی وزارت برائے ماحولیات و جنگلات کے مطابق 2031 تک ہر روز ساڑھے چار لاکھ ٹن کچرا پیدا ہوگا جو 2050 کے آتے آتے 11.9 لاکھ ٹن یومیہ تک پہنچ جائے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 3.2 لاکھ ٹن فضلہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا 60%سے بھی کم جمع ہوپاتا ہے۔ صرف15%ہی نمٹایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں فضلہ بندوبست کی روزافزوں پریشانیوں کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اثرات بڑھ رہے ہیں، جب کہ لینڈفل کے معاملے میں ہندوستان دنیا میں تیسرے مقام پر ہے۔
قومی تحقیقی ادارہ برائے ماحولیاتی انجینئرنگ کے ایک مطالعے کے مطابق کوڑے کا بندوبست ابتدائی سطح پر کیے جانے سے تقریباً 65% مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ غور طلب ہے کہ این جی ٹی نے کوڑے کو نمٹانے کے لیے جسٹس ارون ٹنڈن کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔اس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ٹھوس فضلات کے سبب ہیپاٹائٹس، ہیضہ، دست، پیچش اور کالرا جیسی بیماریوں کا قہر بڑھتا جارہا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر ایک عام بات بن گئی ہے جو ماحولیات، ندیوں، تالابوں اور جھیلوں کو آلودہ کررہا ہے۔
ٹھوس کچرا خانگی، صنعتی اور کاروباری علاقوں میں انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والا ٹھوس سامان ہوتا ہے جسے سائنسداں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس میں بنیادی اشیائ(خانگی، صنعتی، کاروباری اور تعمیرات سے متعلق چیزیں)، سامان(حیاتیاتی، کانچ، دھات، پلاسٹک اور کاغذ وغیرہ)، خطرناک عوامل(زہریلے، غیرزہریلے، آتش گیر، ریڈیو ایکٹیو اور متعدی) وغیرہ شامل ہیں۔
گھروں سے نکلنے والے کوڑے سے سبزیاں اور دوسری نامیاتی (Organic) چیزوں کے علاوہ لوہے کی چیزیں، کاغذ، پلاسٹک، کانچ کے ٹکڑوں جیسی غیرنامیاتی چیزیں بھی ہوتی ہیں جو کھلی جگہوں پر پھینک دی جاتی ہیں۔ ان کا صحیح طریقے سے نمٹارا نہ ہونے سے ماحول گندا ہوتا ہے۔ بدبو پھیلنے کے علاوہ ان میں جراثیم بھی پیدا ہوتے ہیں جو مختلف بیماریوں کا سبب ہوتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر مچھر، مکھیاں اورچوہے وغیرہ پنپتے ہیں۔ گھروں میں، گھروں کے باہر یا بستیوں میں پڑا کوڑا کچرا پورے سماج کی صحت کے لیے خوفناک نتائج کا حامل ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں کھیتوں سے نکلنے والے کوڑے کچرے کو بھی ندیوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سے خطرناک کیمیائی مادّے اورجراثیم کش دوائیں پانی میں پہنچ جاتی ہیں۔ تیزی سے ترقی کررہے صنعتی ملکوں میں وقت کے تقاضوں کے پیش نظر آلودگی کے مسئلے کو طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔ ہندوستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے۔ ہمارے یہاں کے عوام، آلودگی سے ہونے والے خطرات سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ کیمیاوی آلودگی کے اثرات بد کو پورے ملک میں تیزی سے محسوس کیا جارہا ہے۔
یہ معلوم ہوا ہے کہ غیرصنعتی علاقوں کے مقابلے میں، صنعتی علاقوں میں طرح طرح کے کینسر، مختلف قسم کی چرمی بیماریاں، پیدائشی جسمانی نقائص، جینیاتی خرابیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ فطری طریقے سے سانس لینے میں تکلیف، ہاضمے کی پریشانی اور متعدی امراض کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے۔ شہروں میں پیٹ سے متعلق بیماریاں گزشتہ دہائیوں میں بے تحاشہ بڑھی ہیں۔
این جی ٹی کے بقول ٹھوس فضلات کو ٹھکانے لگانے کا کام نہ ہونے کے سبب زیادہ تر شہر وبا کے کگار پر پہنچ گئے ہیں۔ ہندوستانی حکومت کی نیشنل جیوفزیکل ریسرچ لیباریٹری کی تحقیقات کے مطابق 1870کی دہائی کی شروعات سے ہی صنعت کاری نے ہندوستان کے پرسکون میدانوں، جھیلوں، جھرنوں کا منظر بدل دیا ہے۔ زہریلے کیمیائی عناصر سے زیرزمین پانی متواتر متاثر ہورہا ہے۔
ہندوستانی تناظر میں عام آدمی کے لیے ٹھوس فضلات کے لیے کوئی بندوبست ضروری مسئلہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ہندوستان میں پہلے سے موجود تکنیک اور طریقوں پر ہی پرانے ڈھروں پر کام ہورہا ہے۔ ابھی تک نئی نئی تکنیکوں، قوانین اور لوگوں میں بیداری کو اس سطح پر نہیں لایا جاسکا ہے جس کی اس وقت ضرورت ہے۔
سوکچھ بھارت مشن کے تحت کیور(Centre for Urban and Regional Excellance/ CURE) نے دہلی میں، مشرقی دلی جل نگم بورڈ کے ساتھ مل کر کوڑے کو نمٹانے کے مسئلے کا حل نکالا۔ نچلے متوسط طبقوں کے بیچ کوڑے کی چھنٹائی کے بعد اُس کو ٹھکانے لگانے کی کارروائی شروع کی گئی۔ اس ماڈل کی کامیابی کے بعد، اس منصوبے میں تیزی سے پیش رفت ہوئی اور کئی علاقوں میں مشرقی دلی جل نگم بورڈ کے ساتھ مل کر کیور(CURE) نے اسے لاگو کیا۔ ابتدائی مرحلے میں وارڈ کی سطح پر کوڑے کو الگ الگ تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت علاقے میں ٹریٹمنٹ پلانٹ (Treatment Plant) کو کارآمد بناکر پورے علاقے کو زیرو ویسٹ وارڈ(Zero Waste Ward) میں تبدیل کیا گیا۔
اس منصوبے کی شروعات میں متعدد پریشانیاں سامنے آئیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تھا لوگوںکی عادات و اطوار میں تبدیلی لانا۔ اُن کو اپنے گھر کے کوڑے کو الگ الگ تقسیم کرنے کے لیے آمادہ کرنا۔ اس کے لیے لوگوں کو بیدار کرنا کافی مشکل کام تھا۔ ان کو یہ بتانا کہ سوکھے اورگیلے کچرے کو الگ الگ کیسے رکھا جائے آسان نہیں تھا۔ لیکن کیور(CURE) کے نمائندوں نے گھر گھر جاکر لوگوںکو سمجھایا۔ اس کے علاوہ، کمیونٹی ہال میںمیٹنگیں کرکے محلے والوں کو یکجا کیا تاکہ اُن کے اندر اجتماعیت کا جذبہ بیدار ہو اور وہ بھی ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ جگہ جگہ کوڑا جمع نہ ہو، اس کے لیے بھی لوگوںمیں ذمہ دار شہری بننے کا احساس اجاگرکرایا گیا۔
انہیں بتایا گیا کہ کوڑے سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور پریشانیوں کے شکار وہ خود ہوتے ہیں، ایسے میں انہیں سمجھدار بننے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے ثقافتی پروگراموں کا بھی سہارا لیا گیا۔ ایم سی ڈی کے ملازموں کو گھر گھر کوڑا لینے کے لیے جانے پر آمادہ کیا گیا۔ ساتھ ہی انہیں کوڑے کی چھنٹائی کی ٹریننگ بھی دی گئی۔ کیور(CURE) نے سماج سے ہی ایسے لوگوں کا ایک گروپ بنایا جو اس پوری سرگرمی میں کہیں نہ کہیں جڑے تھے۔
یہ تجربات خواہ چھوٹے لگتے ہوں، لیکن اہم اس لیے ہیں کیوں کہ گھر کے تھوڑے سے کوڑے میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو مستقبل میں پورے ماحول کو آلودہ کرتی ہیں۔ شہروںمیں کوڑے کو نمٹانے کا معقول و مناسب بندوبست کرنا میونسپلٹی کی ذمہ داری ہے لیکن پہلے خود ہمیں ماحولیات کے تئیں حساس ہونا ہوگا۔ ہماری پہلی ذمہ داری ہے کہ گھر کے کوڑے کو خود الگ الگ کریں، پھر باہر بھیجیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS