لیفٹیننٹ جنرل ایس اے حسنین
لداخ میں 50ہزار فوجیوں کو جنگ کیلئے تیار رکھنے میں آپریشنل لاجسٹکس اسٹاف کا بڑا کردار
ایک پرانی مثال ہے کہ فوج اپنے پیٹ کے بل پر چلتی اور لڑتی ہے۔ جدید دور میں ’پیٹ‘ کے معنی وسیع ہوگیا ہے اور یہ آپریشنل کوشش کے لاجسٹکس (فوجی آپریشن) والے حصہ سے جڑ گیا ہے۔ اسی لیے اسے آپریشنل لاجسٹکس بھی کہتے ہیں۔ اس میں لڑنا چھوڑ کر ہر سرگرمی شامل ہے۔ جیسے فوجیوں اور ان کا راشن، اسلحہ، ڈھیر ساری گاڑیوں کے لیے ایندھن، لبری کینٹ، اونچائی والے علاقوں کے لیے کپڑے، جنرل اسٹور، گاڑیوں اور ٹیکنیکل اسٹور جیسی نہ جانے کتنی ہی چیزوں کا موومنٹ۔ فہرست بہت لمبی ہے اور کبھی پوری نہیں ہوتی۔ عام تصور یہ ہے کہ فوجی بس بنکر پہنچتے ہیں اور لڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک طرح سے وہ ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن انہیں صحیح حالت میں قائم رکھنا، بیمار یا زخمی ہونے پر علاج کرنا اور ان کا حوصلہ بلند رکھنا، یہ سب لاجسٹکس آرگنائزیشن کا کام ہوتا ہے۔ آپریشنل لاجسٹکس اسٹاف منصوبہ بناتا ہے۔ ان پر عمل درآمد آرمی سروس کاپرس، آرمی آرڈنینس کاپرس اور الیکٹریکل اینڈ میکینکل انجینئرس کے کاپرس کرتے ہیں۔
اگر لداخ کی جگہ راجستھان یا پنجاب ہوتا تو لاجسٹکس کئی وجوہات سے آسان ہوتا۔ جیسے پہلا، میدانی علاقہ ہونے کے سبب سڑکوں سے تیزی سے موومنٹ ہوتا۔ دوسرا، کھانے اور اسٹور سپلائی مقامی وسائل سے دستیاب ہوجاتے، جو بڑی آبادی کے لیے پہلے ہی موجود ہیں۔ تیسرا، نارمل موسم کے سبب کپڑوں اور تغذیہ کی کوئی خاص ضرورتیں نہیں ہوتیں۔ چوتھا، فوجیوں کی صحت کو خطرے کے بغیر انہیں عام کینواس ٹینٹ میں رکھا جاسکتا۔ لداخ کے ساتھ پیچیدگی زیادہ ہے۔ میدانی علاقے سے پہاڑی علاقہ میں ٹینک لے جانا مشکل عمل ہے کیوں کہ وہاں ایسی کم سڑکیں ہیں، جو ان کا وزن برداشت کرسکیں۔ ہوائی نقل و حمل بہت مہنگی ہے، حالاں کہ کئی ٹینک جدید یوایس سی-17ٹرانسپورٹ ایئرکرافٹ سے لے جائے گئے۔ پٹھان کوٹ اورجموں کے علاقوں میں، جہاں میدان اور پہاڑ ملتے ہیں، منالی سے لیہہ اور زوجیلا پاس سے ہوتے ہوئے سری نگر شاہراہ پر سڑکوں کی محدود تعداد سے فوجیوں اور جنگی سامان کا نقل و حمل ہوا۔ یعنی بھاری بھرکم سامان کے نقل و حمل کے لیے بڑی تعداد میں گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں راستے نومبر میں برف باری کے سبب بند ہوجاتے ہیں اور اپریل-مئی میں کھلتے ہیں۔ یعنی کام کا موسم 6-7ماہ کا ہی ہوتا ہے اور اس دوران ہی 40ہزار اضافی فوجیوں کی فراہمی کی جاتی تھی۔ روہتانگ پاس کے تحت اٹل ٹنل شروع ہونے سے کم وقت لگنے لگا ہے۔ حقیقت میں گلوان ٹکراؤ کے بعد اسٹوریج جولائی 2020سے ہی شروع ہوا، جب یہ واضح ہوگیا کہ اضافی فوجیوں کی تعیناتی لداخ میں بنی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسٹوریج کے لیے چار ماہ ہی دستیاب تھے۔ مثال کے طور پر اگر ہم مانیں کہ ایک فوجی کے لیے روایتی راشن (آٹا، دال، چاول، دودھ پاؤڈر وغیرہ) کی2.1کلوگرام مقدار روزانہ لگتی ہے تو 40ہزار فوجیوں کے لیے، 180دن میں 15,120ٹن راشن کی ضرورت ہوگی، جو 3780گاڑیوںکے بوجھ اٹھانے کی گنجائش (4ٹن فی گاڑی) کے برابر ہے۔ اگر آپ ایسا ہی حساب ایندھن، تیل، جنریٹر، بھاری اسلحہ وغیرہ کے لیے کریں تو حیران کن اعدادوشمار سامنے آئیں گے۔ اس میں فضائیہ و بارڈر روڈ آرگنائزیشن کی ضرورتوں اور 3لاکھ کی آبادی کے لیے اسٹوریج کو جوڑ دیں تو ٹریفک کا انتظام نہ ہونے پر سڑکوں پر جام لگ جائے۔
حقیقی جنگ شروع ہوتی ہے لداخ رینج میں 18ہزار فٹ کی اونچائی پر مشرقی لداخ میں۔ یہ کرشمہ ہی ہے کہ فوج وہاں رہنے کے لیے اضافی ٹھکانے بناپائی۔ یہاں کئی اسمارٹ کیمپ ہیں، جن میں مائنس 30ڈگری برداشت کرنے کی صلاحیت، روشنی، پانی، سینی ٹیشن کی سہولت ہے اور فرنٹ لائن پر ہیٹیڈ ٹینٹ دستیاب ہیں۔ ہندوستانی فوجیوں کے عزم کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیاچن میں، جہاں تازی برف کی سطح 30-40فٹ تک پہنچ جاتی ہے اور برف میں دبے محدود اسٹرکچرس میں رہنا ناممکن ہوجاتا ہے، وہاں ہمارے فوجی خراب ہوچکے پیراشوٹ کے نیچے کئی دن رات گزار دیتے ہیں۔
کوئی بھی جنگ یونین میڈیکل سہولتوں کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ حال ہی میں مشرقی لداخ میں سرجیکل سینٹر میں ایک کامیاب سرجری کی گئی، جو وہاںمیڈیکل سہولتوں کی اچھی دستیابی بتاتی ہے۔ ایسی ہی سہولتیں مشرقی سرحد پر بھی دستیاب ہیں۔ اگر ایکچوئل کنٹرول لائن(ایل اے سی)، جموںو کشمیر کی سرحد پر واقع کنٹرول لائن(ایس او سی) جتنی ہی فعال ہو گئی، تو یہ تعیناتی نیم مستقل ہوسکتی ہے۔
لاجسٹکس اسٹاف اور یونٹ فوج کے گمنام ہیرو ہیں۔ ان کی اہم کوششوں سے ہمارے فوجی ہماری سرحدوں کے تحفظ کے قومی ہدف کو پورا کرپاتے ہیں۔
(بشکریہ: دینک بھاسکر)
(مضمون نگار کشمیر میں پندرہویں کور کے سابق کمانڈر ہیں)