دوسری لہر کی بھیانک اٹھان

0

 جان  لیوا وبا کورونا وائرس کی دوسری لہر کا ہندوستان میں آغاز ہوچکا ہے۔یہ لہر قومی راجدھانی دہلی اور ریاست گجرات اور مدھیہ پردیش کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ چند دنوں میں یہ پھر ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے تک اپنا شیطانی رقص شروع کردے اور پھر کشتوں کے پشتے لگنے لگ جائیں۔ محکمہ صحت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24گھنٹوں میں اندرون ملک 46232نئے معاملات سامنے آئے ہیں اور 564 افراد کو اس وائرس نے لقمہ اجل بنادیا ہے۔ کورونا وائرس کے انفیکشن کی شرح میں ان ہی 24گھنٹو ں میں0.7فی صد کا اضافہ ہواہے۔ کورونا انفیکشن کے معاملے میں دہلی آج بھی ملک میں سرفہرست ہے۔جہاں یومیہ بنیاد پر تقریباً 7ہزار نئے معاملات روزانہ وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ گجرات اور مدھیہ پردیش میں بھی یہی صورتحال ہے۔ گجرات کے احمدآباد شہر میں جہاں ’ نمستے ٹرمپ‘ کا عظیم الشان اجتماع ہواتھا وہاں حالات اتنے بگڑگئے ہیں کہ حکومت نے رات کے کرفیو کا نفاذ کردیا ہے۔مدھیہ پردیش کے بھوپال اور اندور شہر میں بھی رات کا کرفیو حالات کی سنگینی بیان کررہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ لاک ڈائون کے کھلنے کے بعد یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی۔اس کے ذمہ دار کون ہیں؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔راکیش ملہوترا کے پی آئی ایل کی عرضی پر سماعت کے دوران جمعرات کو دہلی ہائی کورٹ نے جو کچھ کہا بس اسے ایک بار پڑھ لینے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کہا کہ دہلی حکومت گہری نیند میں تھی اور اسے زبردستی بیدار کرنا پڑا۔ جب عدالت حکومت کو بیدار کرتی ہے تو وہ کچھوے کی چال چلنے لگتی ہے۔ عدالت نے دہلی کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اوربھی بہت کچھ کہا جس میں یہ بھی ہے کہ عدالت کو غلط اطلاعات بھی فراہم کی گئیں جب کہ صورتحا ل یہ ہے کہ دہلی میں ہر 10 منٹ میں ایک موت ہورہی ہے۔اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔
عدالت نے جو کہا اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے یہ سراسر حکومت کی نااہلی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام بھی بہت حد تک اس کے ذمہ دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ دہلی، احمد آباد، بھوپال اوراندور جیسے شہروں میں ان حالات کیلئے عوام کی لاپروائی بھی ایک وجہ ہے۔ کورونا وائرس کے تئیں بے فکری نے یہ دن لائے ہیں۔ سماجی فاصلے کا فارمولہ لوگوں کے ذہن سے محو ہوگیا ہے اور لوگ ماسک لگانا بھی بھول رہے ہیں۔دہلی سے بڑھتا ہوا یہ انفیکشن کب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ دہلی اوردیگر شہروں میں انفیکشن کے تیزی سے بڑھنے کی وجوہات اور بھی ہیں۔ کاروباری سرگرمیاںشروع ہونے سے بازاروں اور عوامی مقامات پر بے تحاشابھیڑ بھاڑ بڑھنے لگی۔کارخانہ کھلنے کی وجہ سے اپنے اپنے گائوں چلے جانے والے غیر مقیم مزدوروں کی واپسی ہونے لگی۔ لاک ڈائون کے ابتدائی دنوں میں تو باہر سے آنے والوں کی جانچ کی جاتی رہی تاکہ انفیکشن کو کنٹرول کیا جاسکے مگر دھیرے دھیرے اس میں کوتاہی برتی جانے لگی۔ سردی کاآنا،ہوا میں آلودگی کی سطح کابڑھ جانا بھی انفیکشن کے بڑھنے کا سبب بتایاجارہاہے۔
 مگر اس کی سب سے بڑی وجہ لاپروائی ہے۔ جب مرحلہ وار طریقہ سے لاک ڈائون ہٹایاگیاتو بار بار اپیل کی گئی کہ جب تک ٹیکہ نہیں آجاتاتب تک لازمی احتیاط اختیار کریں۔ سماجی تفاصل کا اہتمام کریں، وقفہ وقفہ سے ہاتھ دھوتے رہیں، منھ ڈھانک کر رکھیں یا ماسک لگائیں۔ ’جب تک دوائی نہیں تب تک ڈھلائی نہیں ‘ کا نعرہ بھی دیاگیا۔ مگر ہوا اس کے برعکس۔ لاک ڈائون ختم ہونے کو لوگوں نے کورونا کا خطرہ ختم ہونا مان لیا۔جگہ جگہ بھیڑ بھاڑ لگنے لگی، لوگ بنا ماسک لگائے سڑکوں پرنکلنے لگے۔کئی ریاستوں میں تو اسکول اور کالج بھی کھول دیے گئے۔اس کے بعددرگا پوجا، دسہرہ، دیوالی اور چھٹھ جیسے تہواروں میں لوگوں نے احتیاط برتنا بالکل ہی چھوڑ دیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کورونا انفیکشن اپنا دائرہ بڑھاتا گیا اور آج دہلی،مدھیہ پردیش اور گجرات کے حالات سب کے سامنے ہیں۔
 ان شہروں میں وبا کی اس دوسری لہر کی بھیانک اٹھان کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ ہے کہ کہیں دوسری ریاستوں اور شہروں میں بھی یہ بلابے درماں پھرسے موت کا رقص نہ شروع کردے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس مہلک اور جان لیواوبا کی اب تک کوئی شافی و کافی دوا دستیاب نہیں ہوپائی ہے۔ جب تک کورونا کش دوا نہ آجائے احتیاط کو اپنی زندگی کا لازمہ بنائے رکھیں۔حکومتوں پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہنا اپنی جان گنوانے کے مترادف۔کورونا کے خلاف ’لڑائی‘ کے نام پر حکومت نے ملک کاجو حال کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ان کی نااہلی کی وجہ سے ہی ہندوستان میں کورونا کا حملہ دو رخا ہوا،ایک جانب اس وباسے براہ راست اموات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب ’کورونا سے جنگ‘ کے بے مغزسرکاری منصوبہ کے ثمرات کی شکل میںملک کی اکثریت اب تک بے روزگاری، بھوک اور افلاس کی مار جھیل رہی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ یہ دوسری لہر جہاں سے اٹھی ہے، اسے وہیں دفن کرنے کی تدبیر کی جائے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرکے عوام بھی اس میں اہم رول ادا ہی کرسکتے ہیں۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS