صبیح احمد
ایران، امریکہ اور یوروپی ممالک کے درمیان 2015 میں طے شدہ جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) سے موسوم جوہری معاہدہ کے احیا کے لیے پھر سے کوششیں شروع ہو گئی ہیں جسے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک طرح سے موت کے منھ میں دھکیل دیا تھا۔ بائیڈن کے امریکی صدارت سنبھالنے کے بعد اس معاہدہ کو پھر سے زندہ کرنے کی غرض سے دونوں اہم فریق ایران اور امریکہ کے عہدیداروں کے محتاط مگر قدرے مثبت بیانات سامنے آنے لگے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ سابق صدر براک اوباما کے دور میں طے پایا تھا اور اس وقت بائیڈن امریکہ کے نائب صدر ہوا کرتے تھے، اس لیے یہ معاہدہ موجودہ صدر بائیڈن کے لیے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ دراصل ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن اپنی اور اپنی پارٹی کی پالیسیوں میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں ٹرمپ نے کوڑے دان میں ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد حالانکہ فوری طور پر صدر بائیڈن یا ان کی انتظامیہ کے کسی عہدیدار نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کے بارے میں کوئی واضح بیان نہیں دیا تھا لیکن نئے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اشارے ضرور دے رہے تھے کہ اگر ایران چاہے تو اس پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ انہی اشاروں سے حوصلہ پا کر ایرانی وزیر خارجہ نے جو اس معاہدہ کے کلیدی معماروں میں سے ایک تھے، حال ہی میں واضح طور پر ایک بیان دیا کہ اگر امریکہ ان کے ملک پر سابق صدر ٹرمپ کے ذریعہ نافذ کردہ پابندیاں اٹھا لے تو تہران بھی جوہری معاہدے کی ’جوابی‘ خلاف ورزیاں بند کرنے کو تیار ہے۔ اس کے بعد صدر بائیڈن نے ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم میونخ سلامتی کانفرنس سے ورچوئل خطاب کے دوران اس معاہدہ کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ 2015 کے جوہری معاہدے سے متعلق دوبارہ مذاکرات شروع کرنے میں دلچسپی اس لیے رکھتا ہے تا کہ ایسی غلطیاں نہ کی جائیں جن سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال مزید خراب ہو۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں شفافیت اور بہتر بات چیت کے ذریعہ اسٹرٹیجک غلط فہمیوں اور غلطیوں کو کم سے کم سطح پر لانا ہو گا۔ بائیڈن نے ان خیالات کا اظہار ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے اس ٹویٹ کے بعد کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکہ ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیاں اٹھا لے تو ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ کیے جانے والے جوہری معاہدہ کی خلاف ورزی پر مبنی تمام اقدامات واپس لے لے گا۔ جواد ظریف نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ ’امریکہ کسی شرط کے بغیر مؤثر طور پر ان تمام شرائط کو واپس لے لے جو ٹرمپ نے ایران پر عائد کی تھیں۔ تب ہی ایران اپنے تمام جوابی اقدامات واپس لے گا۔‘
بہرحال صدر بائیڈن کی جانب سے 2015 کے معاہدے میں واپسی کا اعلان سابق صدر ٹرمپ کے ایران کو مکمل دباؤ کے ذریعہ تنہا کر کے اس کے جوہری پروگرام کو کمزور کرنے کی پالیسی کی نفی ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ جوہری پھیلاؤ کو روکنے کے لیے محتاط سفارت کاری اور ہمارے درمیان تعاون بہت ضروری ہے تاکہ غلطیوں سے بچا جاسکے۔ ان کے بقول اسی لیے وہ مذاکرات دوبارہ سے شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔ بائیڈن نے اس بات کا بھی وعدہ کیا کہ امریکہ اپنے یوروپی حلیفوں کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعہ ایران کی جانب سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو خراب کرنے کے اقدامات کے خلاف کام کرنے کو تیار ہے۔ در اصل 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ سے نکل جانے کے بعد ایران پر پابندیاں نافذ کر دی تھیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔ ٹرمپ نے ایران پر غیر قانونی بیلسٹک میزائل پروگرام چلانے اور خطہ میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات لگاتے ہوئے نئے سرے سے معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل اراکین برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کے علاوہ جرمنی نے مشترکہ طور پر اوباما انتظامیہ کی جانب سے ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی تصدیق کی تھی۔ اس معاہدہ کے تحت ایران معاشی ریلیف کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو بڑے پیمانے پر محدود کرنے پر راضی ہوا تھا۔
صدر بائیڈن نے معاہدہ میں واپسی کے اعلان کے ساتھ ساتھ کچھ عملی پیغامات بھی دینے شروع کر دیے ہیں۔ امریکی حکام نے ایران کے لیے کچھ مصالحانہ اشارے دیے ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ میں ایران کے سفارت کاروں پر نقل و حرکت کی پابندیوں میں نرمی۔ نئی امریکی انتظامیہ نے 2 ایسے اقدامات کیے ہیں جو ٹرمپ کی پالیسیوں کے برعکس ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کے ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ سے لگائے جانے کے عزم کو واپس لیا ہے۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ میں اقوام متحدہ کے لیے تعینات ایران کے سفارت کاروں پر نقل و حرکت کی پابندی میں کچھ چھوٹ بھی دی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 2019 میں ایران کے سفارتی عملہ پر جو پابندیاں عائد کی تھیں وہ ان کو نیویارک کے ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود کر دیتی تھیں۔ امریکی حکام نے بہرحال یہ واضح کر دیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا ایران کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یو این مشن کو نوٹیفکیشن بھجوایا گیا ہے جو سفری پابندیوں میں نرمی کا متقاضی تھا۔ ان 2 اقدامات پر اسرائیل نے حسب توقع تنقید بھی کی ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے اور وہ اس سلسلے میں امریکہ سے رابطے میں ہے۔ ادھر ایران نے بھی حتمی تاریخ دیتے ہوئے خبردار کیاہے کہ اگر امریکہ نے ایران پر لگائی گئی پابندیاں رواں ماہ کی 23 فروری تک ہٹانا شروع نہیں کی تو وہ بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے) کے معائنہ کار ماہرین کو اس کی جوہری تنصیبات کے معائنہ سے روک دے گا۔
ایک اور پیش رفت میں ایران نے فرانسیسی صدر کی اس تجویز کو بھی مسترد کر دیا ہے جس میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ میں مزید ممالک کے اضافہ اور مذاکراتی عمل میں سعودی عرب کو بھی شامل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ ایران کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدہ ایک کثیر الجہتی بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کی منظوری اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے دی تھی۔ بعض ناقدین ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کے سلسلے میں بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی پر اعتراض بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ ان ناقدین کا جواز ہے کہ 2021 کا مشرق وسطیٰ اب 2015 کے مشرق وسطیٰ جیسا نہیں رہا جب یہ معاہدہ طے ہوا تھا اور مشرق وسطیٰ نہ ہی 2018 جیسا ہے جب امریکہ اس معاہدہ سے الگ ہوا تھا، اس لیے اس پر نئے سرے سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ اس میں ایران کا کیا قصور ہے؟ ایران ہمیشہ معاہدہ کی پاسداری کیلئے کوشاں رہا ہے۔ وہ امریکہ کے صدر ٹرمپ تھے جو درمیان میں معاہدہ سے الگ ہو گئے تھے۔ اس کا خمیازہ ایران کیوں بھگتے؟ اب یہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ اس دوران معاہدہ کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ کرے۔ ایران نے اب تک معاہدہ کی جو بھی خلاف ورزی کی ہے وہ صرف جوابی اقدام کے طور پرکی ہے۔
[email protected]