ریپ کیس میں عدالت کا کام شادی کرانا نہیں

0

عبدالحفیظ گاندھی

یکم مارچ 2021کو آبروریزی کے ایک معاملہ میں ضمانتی درخواست پر سنوائی کے دوران ہندوستان کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے ملزم کے وکیل سے پوچھا کہ کیا اس کا کلائنٹ آبروریزی کی متاثرہ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس پر ملزم کے وکیل نے کہا کہ ملزم تو پہلے سے ہی شادی شدہ ہے۔ اس لیے متاثرہ سے شادی نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے یہ سوال ملزم، جو کہ مہاراشٹر بجلی بورڈ میں سرکاری ملازم ہے، سے کیا جس نے سپریم کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواست دی تھی۔ عدالت نے کہا کہ اگر ملزم شادی کے لیے تیار ہے تو وہ ضمانت دے سکتے ہیں نہیں تو ملزم کو جیل جانا پڑے گا اور ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا آبروریزی کے معاملہ میں یہ مشورہ سپریم کورٹ کی طرف سے دیا جانا تھا یا نہیں، جب عدالت کو یہ علم تھا کہ متاثرہ نے ہی بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ میں عرضی دے کر ٹرائل کورٹ سے ملزم کو ملی پیشگی ضمانت خارج کرائی تھی۔ اس کیس میں واضح تھا کہ متاثرہ نہیں چاہتی تھی کہ ملزم جیل سے باہر رہے۔ متاثرہ کے ذریعہ ملزم کی ضمانت کینسل کرانے سے صاف تھا کہ وہ شادی کے لیے راضی نہیں ہے۔ وہ تو انصاف کے لیے اور ملزم کو سزا دلانے کے لیے لڑرہی ہے۔ ان حقائق کو جاننے کے بعد بھی سپریم کورٹ کی طرف سے شادی کا مشورہ دیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
چیف جسٹس کی اس پیشکش سے کئی پیچیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ شادی کے لیے لڑکی کی اجازت بہت اہم ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے بغیر متاثرہ کی اجازت کے کیسے شادی کی پیشکش کردی؟ متاثرہ ایک آزاد شہری ہونے کے ناطے یہ پورا حق رکھتی ہے کہ اسے کس سے شادی کرنی ہے۔ شادی کرانا عدالت کا کام نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس پٹّوسوامی فیصلہ کے بعد رازداری کا حق ایک بنیادی حق بن گیا ہے۔ اس رازداری کے حق کے تحت متاثرہ کو اپنی زندگی سے وابستہ ذاتی فیصلے کرنے کا پورا حق ہے۔ وہ کب، کس سے اور کیسے شادی کرے گی یہ فیصلہ متاثرہ کو کرنا ہے۔ کورٹ اس میں دخل نہیں دے سکتی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی شادی کی پیشکش قانوناً ہے؟ کریمنل لاء میں ایسے کئی جرائم ہیں جن میں سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے اور کیس واپس لیا جاسکتا ہے۔ اسے قانون کی زبان میں ’compounding of offences‘ بولتے ہیں۔ سی آر پی سی کی دفعہ320کے تحت یہ کیا جاتا ہے کہ اگر دونوں پارٹیوں میں سمجھوتہ ہوگیا ہے تو کیس واپس لیا جاسکتا ہے۔ لیکن آبروریزی کا جرم compounding offencesکی کٹیگری میں نہیں آتا ہے۔ اس لیے آبروریزی جیسے جرم سے سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ آبروریزی ایک گھناؤنا/ سنگین جرم ہے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ عدالتیں جب متاثرہ کی ملزم کے ساتھ شادی کی بات کرتی ہیں تو وہ کس قانون کے تحت کرتی ہیں۔ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جہاں پر ملزم کے ساتھ شادی کرنے پر ملزم کا جرم معاف ہوجائے۔ لیکن اس کے باوجود دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ عدالتوں کی طرف سے اس طرح کی کوششیں کئی مرتبہ کی گئی ہیں۔ ملزم اس تجویز کے لیے اس لیے تیار ہوجاتا ہے کہ اس پر عائد کیس ختم ہوجائے گا۔
کیا سپریم کورٹ شادی کے مشورہ سے ایک نئی کٹیگری تو نہیں بنارہا ہے جہاں لوگوں کے آبروریزی جیسے جرم متاثرہ سے شادی کرنے کے لیے راضی ہونے پر معاف ہوجائیں گے۔ کیا اس سے ملزم کے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے باوجود اس کے کہ اس نے آبروریزی جیسا گھناؤنا/سنگین جرم کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کو آبروریزی جیسے جرم کو اس طرح کے مشورے دے کر trivialise نہیں کرنا چاہیے۔

کیا کوئی اس درد کا اندازہ لگاسکتا ہے جہاں آپ کو اپنا استحصال کرنے والے کے ساتھ رہنا پڑے۔ جس نے آپ کی ساری خوشیاں چھین لیں، اسی کے ساتھ رہنے کو کہا جائے یا رہنا پڑے تو انسان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی۔ کیا یہ وہ حالت پیدا نہیں کردے گی جہاں آپ روز گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں۔ اذیت دینے والے کو دیکھتے ہی آپ کو اپنے ساتھ کیے گئے ظلم یاد آجائیں گے۔ وہی تکلیف، وہی گھٹن اور وہی خوابوں کا بکھرنا بارہا یاد آئے گا۔

میری نظر میں عدالت کا کام قانون کے دائرہ میں کام کرتے ہوئے لوگوں کو انصاف دلانے کا ہوتا ہے۔ آبروریزی کیس میں انصاف یہ ہوگا کہ ملزم کو اپنے بچاؤ کا پورا موقع دیتے ہوئے ثبوتوں کی روشنی میں اسے سزا ملے۔ سماج میں یہ پیغام جانا ضروری ہے کہ جرم کروگے تو اس کی سزا یقینی طور پر ملے گی ہی۔ سپریم کورٹ کے شادی کے مشورے سے نچلی عدالتوں میں بھی غلط پیغام جاسکتا ہے۔ ان نچلی عدالتوں میں بھی اس طرح کی غیرقانونی کوششوں کو بڑھاوا مل سکتا ہے جو کہ ایک اچھی پہل نہیں ہوگی۔
متاثرہ اس پورے پس منظر میں کمزور کڑی ہوتی ہے۔ معاشرہ کی Patriarchal thinkingکی وجہ سے متاثرہ کو بہت کچھ برداشت کرنا اور سننا پڑتا ہے۔ معاشرہ کے ذریعہ ایسا ماحول بنادیا جاتا ہے کہ آبروریزی کے سانحہ کے بعد متاثرہ کی زندگی ختم سی ہوگئی ہے۔ اب اس کے پاس کچھ نہیں بچا، ایسا اسے معاشرہ کے ذریعہ احساس کرایا جاتا ہے۔ والدین کومتاثرہ کی شادی میں آنے والی پریشانیوں سے متعلق تشویش رہتی ہے اور اس لیے جب عدالت ملزم سے شادی کی تجویز دیتی ہے تو متاثرہ کے والدین کے پاس شادی کے علاوہ شاید ہی کوئی متبادل ہوتا ہو۔
فرض کیجیے کہ عدالت کے مشورہ کے بعد ملزم کے ساتھ متاثرہ کی شادی ہوگئی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ شادی کامیاب ہوپائے گی؟ میری نظر میں اس میں کئی پریشانیاں آسکتی ہیں کیوں کہ شادی کیس واپسی کے لالچ میں ہوتی ہے، اس لیے ملزم کیس واپسی کے بعد شادی کے فرائض ٹھیک سے نبھائے گا اس میں مجھے یقین کم ہے۔ یہ شادی بے جوڑ اور مرضی کے خلاف ہوئی ہے، اس لیے متاثرہ زندگی بھر اس ریلیشن شپ میں کمفرٹیبل محسوس نہیں کرے گی۔
اگر شادی کے کچھ دن بعد ملزم طلاق کے لیے عرضی دے دے اور کہے کہ اب وہ متاثرہ کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ تب کیا ہوگا؟ قانوناً طلاق دینا کسی بھی شخص کا حق ہے۔ ایسے میں کورٹ کا رُخ کیا ہوگا؟ کیا کورٹ طلاق کے لیے صرف اس لیے انکار کردے گا کیوں کہ یہ شادی کیس واپسی کے عوض میں ہوئی ہے۔ کورٹ یہ رُخ اختیار نہیں کرسکتی کیوں کہ شادی کی وجہ کوئی بھی ہو، ہندوستانی قانون اپنے مذہب کے حساب سے ہر کسی کو طلاق دینے کا حق دیتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ طلاق کے لیے پرسنل لاء میں جو شرائط ہیں ان کو پورا کرنا پڑے گا۔ طلاق جیسی حالت پیدا نہ ہو عدالت اس کے بارے میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرسکتی۔
کیا کوئی اس درد کا اندازہ لگاسکتا ہے جہاں آپ کو اپنا استحصال کرنے والے کے ساتھ رہنا پڑے۔ جس نے آپ کی ساری خوشیاں چھین لیں، اسی کے ساتھ رہنے کو کہا جائے یا رہنا پڑے تو انسان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی۔ کیا یہ وہ حالت پیدا نہیں کردے گی جہاں آپ روز گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں۔ اذیت دینے والے کو دیکھتے ہی آپ کو اپنے ساتھ کیے گئے ظلم یاد آجائیں گے۔ وہی تکلیف، وہی گھٹن اور وہی خوابوں کا بکھرنا بارہا یاد آئے گا۔ اس لیے میرے خیال سے متاثرہ کی ملزم سے شادی کی تجویز کسی بھی معنی میں ٹھیک نہیں ہے۔
متاثرہ کو اپنے ساتھ ہوئی ناانصافی کے بعد closureچاہیے۔ یہ closureاسے تبھی ملے گا جب قانون کے حساب سے اس کے ساتھ ہوئے سانحہ میں عدالت کا فیصلہ آئے گا۔ انصاف تو یہی کہتا ہے کہ ملزم کو ثبوتوں کی بنیاد پر سزا ملے۔ یہ انصاف نہیں ہوسکتا کہ متاثرہ کی اس سے شادی کردی جائے۔ اگر شادی کی بات عدالتیں کرنے لگیں گی تو اکثر لوگ عورتوں کے ساتھ آبروریزی کے واقعات کو انجام دینے کے بعد عدالت میں شادی کی تجویز رکھ دیں گے۔ اس سے معاشرہ میں ایک غلط روایت قائم ہوگی کہ لوگ آبروریزی گھناؤنے/سنگین جرم کو صرف اس لیے انجام دیں گے تاکہ عدالت میں شادی کی تجویز دے کر اپنی پسند کی خاتون سے شادی کرسکیں۔
کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ایک ملزم سے شادی کی تجویز رکھے گی۔ حیرانی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ سے یہ بیان اس وقت آیا ہے جب سپریم کورٹ کی ایک بینچ اس چیز پر غور کررہی ہے کہ کیسے نچلی عدالتوں کو حساس بنایا جائے تاکہ ججوں کے ذریعہ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کو trivialiseکرنے سے روکا جاسکے۔
گزشتہ سال بھی موجودہ معاملہ سے ملتا جلتا کیس مدھیہ پردیش میں ہوا تھا جہاں ہائی کورٹ نے ملزم کو متاثرہ کو راکھی باندھنے کی شرط پر ضمانت دے دی تھی۔ اس طرح کی ضمانت کی شرط رکھنے کی وکلا نے تنقید کی تھی اور کئی وکیل اس ضمانت کے آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ بھی گئے ہیں۔ کورٹ نے ان عرضداشت پر اکتوبر اور نومبر، 2020میں سنوائی کی تھی۔ اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے سنوائی کے دوران کہا تھا کہ نچلی عدالتوں کے ججوں کی ٹریننگ کی بہت ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ججوں کو اس طرح کے فیصلے کرتے وقت متاثرہ کی پوزیشن میں آکر سوچنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر وہ جرم ان کے کنبہ کے کسی ممبر کے ساتھ کیا گیا ہوتا تو ان کو کیسا لگتا۔ اس طرح کی عدالتوں کے ذریعہ شرط رکھنا جنسی جرائم کو معمولی سمجھنے یا کم کرنے کے مترادف ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS