ابھی چلتے ہیں ذرا راہ تو ہموار کرو

0

کلیم الحفیظ

بھارت میں مسلمانوں کی تعداد و تناسب سے سب واقف ہیں۔عام مسلمان اپنی تعداد پر فخر کرتے ہوئے سمجھتا ہے کہ اسے بھارت سے کون نکال سکتا ہے حالانکہ جب برا وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔انسانی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ہمارے ملک کی سرحد پر واقع میانمار جو مسلم سلطنت کا حصہ تھا وہاں سے جب روہنگیا بھگائے گئے تو بڑی تعداد میں سمندر میں ڈوب کر مرگئے۔ آج بھی لاکھوں روہنگیا مسلمان کئی ممالک میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔قومیں عروج اور زوال دونوں مرحلوں سے گزرتی ہیںمگر یہ سب زندگی کے نشیب و فراز ہیں۔یہ خالق کائنات کی مشیت اور انسانی اعمال کے مطابق ہے۔اس سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ماضی سے سبق لے کر مستقبل کو روشن کریں۔
بھارتی مسلمان اس وقت خود کو بند گلی میں محسوس کررہے ہیں۔حالانکہ یہ صرف ان کا احساس ہے ورنہ ان کے لیے پہلے سے زیادہ راستے کھلے ہوئے ہیں۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ موجودہ حالات انھیں پسپائی کی جانب لے جارہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ کبھی کبھی پسپائی پیش قدمی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔مگر اس کے لیے پسپائی کے احساس کے ساتھ ساتھ پیش قدمی کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ آزاد بھارت میں مستقبل کی منصوبہ بندی سے بے فکر طبقے کو اب اپنے وجود کو بچانے اور اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی فکر جاگ اٹھی ہے۔خاص طور پر جب سے ملک پر فسطائی ذہنیت کے افراد حکومت میں آئے ہیں تب سے ہی ملت کا دور اندیش طبقہ ملت کے مستقبل کے لیے نہ صرف فکر مند ہوگیا ہے بلکہ اس نے بعض بنیادی کام بھی شروع کردیے ہیں جن کے نتائج آئندہ دس سے بیس سال میں نظر آنے لگیں گے۔ان حالات کی ہی دین ہے کہ مسلم نوجوان قابل ذکر تعداد میں مقابلہ جاتی امتحانات میں نظر آنے لگے ہیں۔یہ پیش قدمی اگر اسی طرح جاری رہے اور مزید تیزی اور وسعت اختیار کرجائے تو نتائج اچھے اور جلد آئیں گے۔2020 میں کورونا مہاماری کے باوجود میڈیکل کے لیے خاصی تعداد میں مسلم طلبا وطالبات نے کوالیفائی کیا ہے۔
بھارت کی موجودہ حکومت اگرچہ اپنے واضح ایجنڈے یعنی ہندوتو کے فروغ پر کام کررہی ہے اور اس کا مقصد جلد یا بدیر ہندوتو کی حکومت قائم کرنا ہے، اس کے باوجود ملکی آئین کے مطابق جب تک کہ یہ آئین باقی ہے، مسلمانوں پر بہت سے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بہت سے دروازے بند بھی ہو رہے ہیں یا گلیاں تنگ ہورہی ہیں لیکن جو راستے ہموار ہیں اور جو دروازے کھلے ہوئے ہیں انھیں کھلا رکھا جانا چاہیے۔ان کھلے راستوں اور کھلے دروازوں میں سب سے بڑا راستہ اور دروازہ تعلیم کا ہے۔
یہ سچ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بعض سرکاری مراعات و سروسز میں تعصب کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے لیکن تعلیم گاہوں اور تعلیمی کورسز کے دروازے ان پر بھی عام شہریوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں۔مرکزی حکومت کی کئی اسکیمیں اقلیتوں کے لیے ہیں۔لیکن بھارتی مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں کے حصول میں تعصب کی شکایت رہی جس کی وجہ سے اس نے تعلیم حاصل کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔یہ سوال کیا جانے لگا کہ جب نوکری نہیں تو تعلیم کیوں حاصل کی جائے؟یہی وہ غلطی ہے جو آزادی کے بعد سے ہی مسلمان کررہے تھے۔ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ تعلیم اور نوکری دو الگ الگ ایشوز ہیں۔ کسی ملک کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ اپنے تمام تعلیم یافتہ شہریوں کو نوکری دے سکے۔اس غلطی کی اصلاح کی ضرورت ہے۔اگر یہ غلطی درست نہ ہوئی تو مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ابھی بھارت میں حصول تعلیم کی سہولیات موجود ہیں قبل اس کے کہ یہ دروازہ بند ہوجائے، ہمیں اس جانب توجہ دینا چاہیے۔
دوسرا دروازہ تجارت کا ہے۔ موجودہ حالات میں کاروبار کرنے میں اگرچہ بہت سی قانونی دشواریاں ہیں لیکن یہ دشواریاں سب کے لیے ہیں۔تمام قوانین کے باوجود اگر ہمارے ہم وطن تجارت میں آگے بڑھ رہے ہیں تو ہم کیوں نہیں بڑھ سکتے۔اس سلسلے میں بھی ہماری سب سے بڑی رکاوٹ تعلیم ہے۔تعلیم نہ ہونے کے سبب ہم سرکاری کاغذات مکمل نہیں کرتے اور تجارت کی قانونی شرائط پوری نہیں کرتے، اس لیے تجارت میں بھی پچھڑتے جا رہے ہیں۔ہم یہ سوچتے ہیں کہ سرکاری دفاتر کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔اس وجہ سے ہم کمپنیاں بنانے سے بچتے ہیں۔تجارتی سرگرمیوں کو قانون کے دائرے میں لانے سے گریز کرتے ہیں۔تجارت میں ہماری پسپائی نے ہمیں ہر محاذ پر پسپا کردیا ہے۔
ایک دروازہ سیاست کا ہے جس کی جانب سے ہم منھ پھیر کر کھڑے ہوگئے ہیں۔سیاست جو قوموں کو عروج سے ہمکنار کرتی ہے، اس کے ہم تماش بین بن کر رہ گئے ہیں۔سیاست سے کنارہ کشی نے ہمیں خود کشی کے مقام پر کھڑا کردیا ہے۔جب کہ آزادی کے بعد بھارت میں جن قوموں نے اپنا سیاسی لائحہ عمل بنا کر کام کیا وہ آج مسلمانوں سے بہت آگے ہیں۔وہ قومیں جنھوں نے حکمرانی کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا ہوگا، وہ حکومت کررہی ہیں اور ہم پدرم سلطان بود ( میرے باپ بادشاہ تھے) کا نعرہ لگاتے رہ گئے ہیں۔سیاست میں ہم نے اپنا کوئی ایجنڈا نہیں بنایا بلکہ دوسروں کی خیر خواہی میں اپنا گھر برباد کرتے رہے۔اپنی پارٹی بنانے پر کبھی اتفاق رائے نہ ہوسکا۔جن لوگوں نے ہمت کرکے اپنی پارٹی بنائی انھیں دشمنوں کا ایجنٹ کہہ کر ریجیکٹ کردیا۔ہمیں یہی سمجھایا جاتا رہا کہ اپنی پارٹی بنانے سے ہندو متحد ہوجائے گا اور ملک پر بی جے پی کی حکومت ہوجائے گی۔مگر آج کوئی یہ بتانے کی زحمت نہیں کرتا کہ آخر مسلم سیاسی پارٹی کے بغیر بی جے پی کیسے آگئی۔نہ یہ بتانے کی زحمت کرتا ہے کہ جن ریاستوں میں مسلم سیاسی پارٹی میدان میں رہی وہاں بی جے پی کو فائدہ ہوا یا نقصان۔کیرالہ اور تلنگانہ دو ایسی ریاستیں ہیں جہاں ایک طویل مدت سے مسلم سیاسی پارٹی موجود ہے لیکن وہاں بی جے پی ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی،خیرسیاست میں اس سے زیادہ اور کیا نقصان ہوسکتا تھا جو اب ہوچکا ہے، اب ہمیں بی جے پی کے خوف سے باہر نکلنا چاہیے اور اپنی سیاسی پارٹی کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے۔ہم نے دوسروں کے ہاتھ اس قدر مضبوط کردیے ہیں کہ ان کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت سے ہمارا ہی دم گھٹنے لگا ہے۔سیاست میں ضرورت ہے کہ مسلم قیادت کو پوری طاقت کے ساتھ کھڑا کیا جائے۔اپنی پارٹی کے ممبران خواہ کتنے ہی کم ہوں گے، ان کے منھ میں ہماری زبان ہوگی۔دوسری پارٹی کے مسلم ممبران ہماری زبان نہیں بول سکتے یہ سچائی آزادی کے بعد سے ہی شروع ہوتی ہے اور دہلی کے عام آدمی کے ممبران اسمبلی تک آچکی ہے۔دہلی فساد ہو یا کورونا میں تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی سازش، ہمارے پانچ مسلم ممبران اسمبلی خاموش تماشہ دیکھتے رہے۔اگر کسی نے ہمت کرکے آواز نکالنا بھی چاہا تو اس کی زبان روکنے کے لیے مختلف حربے اختیار کیے گئے۔ یہ تو اس سیاسی جماعت کا حال ہے جس کے قائد کو مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دے کر دوبار حکومت سے نواز دیا۔
مختلف حیلے بہانوں سے بھارتی مسلمانوں پر سیاست کے دروازے کو بند کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ جس کے دوسے زیادہ بچے ہوں گے اسے الیکشن میں حصہ لینے کا حق نہیں ہوگا ،کبھی سیاست کے لیے تعلیم کی قید لگانے کی بات کہی جاتی ہے،کبھی حلقہ انتخاب میں تبدیلی کرکے مسلم ووٹوں کو بے اثر کردیا جاتا ہے،کبھی مسلم اکثریت والی نشستوں کو پسماندہ طبقات کے لیے مختص کردیا جاتا ہے۔اس لیے دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ سیاست کے سلسلے میں اپنی قیادت کو ہی مضبوط کیا جائے۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان فسطائی حکومت کی وجہ سے خوف کے عالم میں نہ جئیں بلکہ موجودہ مواقع کا فائدہ اٹھا کر مستقبل کو درست کرنے کی فکر کریں۔مشکل حالات میں بہتر زندگی گزارنا ہی اصل آرٹ ہے۔اگر موجود مواقع سے استفادہ نہیں کیا گیا تو یہ مواقع بھی چھین لیے جائیں گے۔ہم میں سے ہر فرد کو اپنی نسل کے مستقبل کا پلان تیار کرنا چاہیے اور اس پلان میں رنگ بھرنا چاہیے۔ راستوں کی نا ہمواری کی شکایت کرتے کرتے ہم اپاہج ہوجائیں گے۔ خوف و ہراس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ملکی آئین کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اہل وطن سے محبت،باہمی تعاون کا جذبہ ہمیں عزت اور ترقی دلائے گا۔بھارت کے مسلمانوں کو امام مہدی اور مسیح موعود کا انتظار ضرور کرنا چاہیے لیکن کیا ان کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا دانشمندی ہے۔حالات اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تعلیم،تجارت،سیاست وغیرہ میں جو مواقع ہیں ان کا فائدہ اٹھائیں اور مایوسی و ناامیدی کی کیفیت سے باہر آئیں۔اپنی کشتیاں ٹوٹے ہوئے پتواروں سے چلاتے ہوئے دریا کی موجوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں سمندر سے ہیرے جواہرات حاصل کرنا ہے
ہوگئے لوگ اپاہج یہی کہتے کہتے
ابھی چلتے ہیں ذرا راہ تو ہموار کرو
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS