جاپان: وزیر تنہائی کی اہمیت

0

خاورحسن

ملنے جلنے، قریبی لوگوں سے صلاح و مشورے سے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ کئی بار تنہا سلجھانے کی کوشش مسئلوں کو اور الجھا دیتی ہے جبکہ وہی مسئلے محسنین کی مدد سے آسان نظر آنے لگتے ہیں۔ کئی لوگ الجھنوں کو خود تک ہی رکھنا چاہتے ہیں، وہ ممانی اور خالہ کے سامنے بھی دل ہلکا کرنا پسند نہیں کرتے اور آخر انہیں سائی کیٹرسٹ یعنی ماہر نفسیات کے پاس جانا پڑتا ہے۔ وطن عزیز ہندوستان میں پچھلی تین دہائی میں جوائنٹ فیملی کا چلن کم ہوا ہے، رشتہ داروں اور دوست و احباب سے ملنے جلنے میں کمی آئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ پچھلی تین دہائی میں سائی کیٹرسٹ کے پاس جانے کا رجحان بڑھا ہے۔ اپنوں کی اہمیت کے بارے میں غور کیا جانا چاہیے، کیونکہ کورونا وائرس کے بالواسطہ اثرات اس کے راست اثرات سے کم مضر نہیں ہیں۔ راست اثرات کو روکنے کے لیے ویکسین ایجاد کر لی گئی ہے، بالواسطہ اثرات کو روکنے کے لیے کوئی ویکسین نہیں۔ اس سے بچاؤ کے لیے وقتاً فوقتاً دوا لیتے رہنا ہوگا۔ یہ دوا رشتہ داروں، دوست و احباب، محسنین اور محلہ والوں سے ملنا جلنا، کھل کر باتیں کرنا ہے تاکہ تنہائی کا احساس ختم ہو، دل میں پیدا ہو جانے والا خلا ختم ہو اور یہ احساس پیدا ہو کہ ایک آدمی کی زندگی صرف اسی کے لیے اہم نہیں ہوتی، اس سے وابستہ سبھی لوگوں کے لیے اہم ہوتی ہے۔ دوستوں کے لیے بھی، دشمنوں کے لیے بھی، کیونکہ زندگی ہے تبھی دوستی اور دشمنی ہے، زندگی ہے تبھی سکھ اور دکھ ہیں، زندگی ہے تبھی پریشانی کا احساس یا خوش حالی راحت افزا ہے۔
برے حالات دوریاں بڑھاتے ہیں، کورونا نے بھی اپنوں کے درمیان دوریاں بڑھائی ہیں۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر ایک حد تک جسمانی دوریاں بے وجہ نہیں مگر اس جدید دور میں رابطے کی سہولتیں ہیں۔ رابطے کا سلسلہ اگر قائم رہے گا، ایک دوسرے کے دکھ درد سے واقفیت رہے گی تو مدد کا احساس زندہ رہے گا، دلوں کے درمیان کوئی خلیج نہیں بنی گی اور یہ نوبت نہیں آئے گی کہ اس خلیج میں رشتے دفن ہوں یا انسانوں کو اپنا وجود ہی دفن کرنا پڑے۔ ان باتوں کی اہمیت آج زیادہ ہے، کیونکہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہوئے حالات میں ایک سے زیادہ ملکوں میں خودکشی کا رجحان بڑھا ہے۔ جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ’ڈوئچے ویلے‘ کی اردو سروس نے 16ستمبر، 2020 کو حکومتی اعداد و شمار کے حوالے سے یہ خبر دی تھی کہ جنوبی کوریا میں خواتین اور نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ 2020 کے پہلے 6 مہینے میں 1924 لوگوں نے اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کر ڈالی تھی۔ یہ 2019 کی اسی مدت میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد سے 7 فیصد زیادہ تھی۔سیئول کے مرکزی کلینک برائے ذہنی امراض کے بانی ڈاکٹر پارک چان مِین کا کہنا تھا کہ ’کورونا وائرس کی وبا سے لوگوں کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔۔۔۔ان مشکل حالات میں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ مستقبل کی بے یقینی ہے۔‘ڈاکٹر پارک کے مطابق، ’وبا کے دوران لوگوں کو ملازمت چھن جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور ان کی آمدنی بھی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث ان کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔‘ اس صورت حال کا جنوبی کوریا میں پیدا ہونا حیرت کی بات تھی، کیونکہ اقتصادی طور پر مستحکم ممالک میں وہ دسویں نمبر پر ہے، وہ ان گنے چنے ملکوں میں سے ایک ہے جن کی اقتصادیات ایک ٹریلین یعنی 10 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ کورونا سے بری طرح متاثر ہونے والے ملکوں میں وہ شامل نہیں ہے۔ متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے جنوبی کوریا ٹاپ 80 ملکوں میں بھی شامل نہیں ہے۔ وہاں 89,676 لوگ ہی کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کورونا کا سائڈ ایفکٹ کیوں نظر آ رہا ہے؟ سیدھی سا جواب ہے، جہاں خوش حالی ہوتی ہے وہیں خوف ہوتا ہے۔ کچھ پالینے کے بعد خوف یہ رہتا ہے کہ کہیں چھن نہ جائے۔ اس خوف سے مستقل طور پر نجات دلانے کی کوئی ویکسین نہیں، اس خوف کی دوا وہ رشتہ دار ہیں جو اپنے ہیں اور اگر اپنے نہیں ہیں تو اپنے سے لگتے ہیں۔
’ڈوئچے ویلے‘ نے اخبار ’دی کوریا ہیرالڈ‘ کی خبر کے حوالے سے یہ بتایا تھا کہ جنوبی کوریا میں کورونا کی آمد کے بعد کے پہلے 6 مہینے کے دوران 20 سے 30 برس کی خواتین میں خود کشی کے رجحان میں 5 گنا اضافہ ہوا۔ اس اضافے میں وہ لوگ شامل نہیں جن کی خود کو ختم کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ ’ڈوئچے ویلے‘ کی ہی 25 فروری، 2021 کی رپورٹ کے مطابق، ’برطانیہ کی طرح جاپان میں بھی عام شہریوں میں سماجی تنہائی کے سدباب کے لیے ایک خصوصی وزیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس وزیر کی بنیادی ذمہ داری خود کشیوں کی روک تھام ہے۔‘جاپانی وزیراعظم یوشی ہیڈے سُوگا نے اپنی ہی پارٹی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیمان ٹیٹسوشی ساکاموٹو کو جاپان کا پہلا وزیر تنہائی مقرر کیا ہے۔ 19 فروری، 2021 کو جاپانی وزیر اعظم نے سماجی مسئلوں کو دیکھتے ہوئے ایک اجلاس میں یہ بات کہی تھی کہ ’ایک نئے وزیر کی تقرری ضروری ہو گئی ہے اور یہ وزیر پوری طرح شہریوں میں احساس تنہائی کو کم کرنے پر توجہ دے گا۔‘کیونکہ یہ بات جاپان میں بھی بڑی شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے کہ کورونا نے لوگوں میں اکیلے پن کا احساس بڑھایا ہے، یہ احساس ڈیپریشن کی وجہ بن رہا ہے اور ڈیپریشن لوگوں کے لیے زندگی کا خاتمہ آسان بنا رہا ہے۔ جاپانی حکومت جانتی ہے کہ لوگوں میں اکیلے پن کا احساس ختم کرنا ضروری ہے تو انہیں مفلسی سے نجات دلانا بھی ضروری ہے، خاص کر بچوں کو مفلسی کی دلدل میں نہیں پھنسنے دینا چاہیے، چنانچہ وزیر تنہائی کی ذمہ داری بچوں کو مفلسی سے نجات دلانا بھی ہوگی۔ جاپانی حکومت کا وزیر تنہائی مقرر کرنے کا جواز ناقابل فہم نہیں۔ کورونا نے جاپان میں خود کو ختم کر ڈالنے والوں کی تعداد بڑھائی ہے۔

زندگی سے قیمتی کوئی چیز نہیں۔ ایک سانس بڑے عہدے، رتبے اور دنیا بھر کی دولت سے خریدی نہیں جا سکتی۔ یہ تو پروردگار کی عنایت ہے، اس کا کوئی بدل نہیں۔ زندگی پروردگار نے دی ہے تو اسے ختم کرنے کا حق بھی اسی کا ہے، خودکشی کسی بھی حال میں صحیح نہیں۔ پھر بھی تلخ سچائی یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 1.5 فیصد خودکشی کی وجہ سے ہوتی ہیں!

 

وزیر تنہائی بنائے جانے کے بعد ٹیٹسوشی ساکاموٹو کا کہنا تھا کہ ’سُوگا حکومت نے جاپانی معاشرے میں احساس تنہائی کے بڑھنے کو قومی اہمیت کا حامل ایک مسئلہ سمجھا ہے۔۔۔۔وزیر اعظم سُوگا نے انہیں واضح ہدایت کی ہے کہ وہ ہر عمر کے شہریوں میں احساس تنہائی کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک قابل عمل لیکن جامع حکمت عملی مرتب کریں۔‘ساکاموٹو کے مطابق، ’فوری طور پر اس حوالے سے کارروائی کا آ غاز کر دیا گیا ہے اور سماجی اکیلے پن اور تنہائی کے رویوں کی نشاندہی کا کام شروع ہو چکا ہے۔‘ وزیر تنہائی کو یہ یقین ہے کہ تنہائی کے شکار افراد کے تحفظ کے لیے وہ جلد ہی انہیں’سماجی لڑی میں پرونے‘ کا کام شروع کریں گے۔’ڈوئچے ویلے‘ کی 25 فروری، 2021 کی رپورٹ کے مطابق، ’2020 میں اکتوبر تک جاپان میں 880 خواتین خود کشی کر چکی تھیں۔ یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ تھی۔ اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ کورونا لاک ڈاؤن میں نوکریوں کا نہ ہونا بھی بتائی گئی تھی۔‘اس صورت حال سے جاپانی حکومت کا پریشان ہونا فطری ہے، کیونکہ ایک عرصے تک جاپان کا شمار ان ممالک میں ہوتا رہا تھا جہاں سب سے زیادہ لوگ خودکشی کرتے ہیں، 2010 کے بعد خودکشی کرنے والوں کی تعداد کم ہونے لگی تھی مگر کورونا کی آمد نے خودکشی کرنے والوں کی تعداد پھر بڑھا دی ہے۔ جنوبی کوریا کی طرح جاپان بھی ایک خوش حال ملک ہے۔ تقریباً 5 ٹریلین ڈالر کی اس کی اکنامی ہے۔ اقتصادی طور پر دنیا کا وہ تیسرا بڑا ملک ہے۔ دوسری طرف کورونا نے وہاں اتنا تہلکہ نہیں مچایا ہے جتنا دیگر ملکوں میں مچایا ہے۔ کورونا متاثرین کے لحاظ سے وہ 37 ویں نمبر پر ہے مگر کورونا کے بالواسطہ اثرات نے خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے تو اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ خوش حالی، عہدے اور رتبے کے جانے کا خوف کئی بار زندگی کی اہمیت کم کر دیتا ہے، اس لیے غریبوں سے ملتے جلتے رہنا چاہیے، ان کے پاس بیٹھنا چاہیے، ان کی دلجوئی کرنی چاہیے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ زندگی سے قیمتی کوئی چیز نہیں۔ ایک سانس بڑے عہدے، رتبے اور دنیا بھر کی دولت سے خریدی نہیں جا سکتی۔ یہ تو پروردگار کی عنایت ہے، اس کا کوئی بدل نہیں۔ زندگی پروردگار نے دی ہے تو اسے ختم کرنے کا حق بھی اسی کا ہے، خودکشی کسی بھی حال میں صحیح نہیں۔ پھر بھی تلخ سچائی یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 1.5 فیصد خودکشی کی وجہ سے ہوتی ہیں!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS